جائے ملازمت وطن اقامت کہلائے گا؟

سو ال:میں اپنے گھرسے 80کلومیٹردور ڈی جی خان میں اپنے ایک عزیزکے گھر اپنی بیوی اورامی کے ساتھ رہتاہوں،یہاں ہم نے دوسال رہناہے،اورہم ہرہفتے اپنے گھرتونسہ جاتے ہیں،توکیاہم یہاں ڈی جی خان میں پوری نمازپڑھیں گے یاقصرکریں گے؟

فضل ہادی۔

الجواب حامدة ومصلیة:

اس مسئلے میںہمارےاکابر رحمھم اللہ تعالی کا اختلاف ہےاس میں دو مؤقف ہیں:بعض حضرات کا موقف یہ ہے کہ وطن اقامت میں سامان وغیرہ موجود ہو اور واپس آنے کا ارادہ بھی ہو تو یہاں سے دوسری جگہ سفر کرنے سے وطن اقامت باطل نہیں ہوگا، بلکہ جب واپس آئے گا تو اتمام کرے گا ۔ 

ان حضرات کے مطابق جب آپ نے اپنے وطن اصلی تونسہ سے ڈی جی خان آکر پندرہ دن بلکہ اس سےزیادہ قیام کی نیت کرلی تو ڈی جی خان آپ کا وطن اقامت بن گیا۔ اس کے بعد پھر دوبارہ تونسہ آئے تو جب تک مقام ملازمت یعنی ڈی جی خان میں بودوباش کا ضروری سامان موجود ہے اور وہاں واپس جانے کی نیت بھی ہے یہ مقام ،مقام اقامت ہی شمار گا، خواہ یہاں پندرہ دن رہے یا پانچ دن! لہذا آپ مقیم ہی کہلائیں گے اور نمازیں بھی پوری پڑھیں گے ۔

یہ وطن اقامت سفر سے اس وقت باطل ہوگا جب آپ کا سامان اس وطن اقامت میں نہ رہے اور اس جگہ کو مکمل چھوڑنے کا ارادہ ہو۔ موجودہ زمانے میں حضرت مفتی رشید صاحب ؒ,حضرت مفتی عبدالستار صاحب,حضرت مفتی فرید صاحب اور دارالعلوم کراچی کے حضرات نے آسانی کی خاطر اسی پرفتوی دیا ہے ۔

{ ۱} قال ابن نجیم رحمہ اللہ: “وطن الاقامۃ یبقی ببقاء الثقل وان اقام بموضع آخر ۔”

(البحر الرائق ص۱۳۶جلد۲ باب المسافر)

وقال العلامۃ علاءالدین الحصکفی رحمہ اللہ: “ویبطل بمثلہ اذالم یبقی لہ بالاول اہل فلو بقی لم یبطل بل یتم فیہا۔” (الدرالمختار علی صدر ردالمحتار : ص۵۸۶ جلد۱ باب المسافر)

وقال العلامۃ الکاسانی: “وینتقض بالسفر ایضا لان توطنہ فی ہذا المقام لیس للقرار ولکن لحاجۃ فاذاسافر منہ یستدل بہ علی قضاء حاجتہ فصار معرضا عن التوطن بہ فصار ناقضاً لہ دلالۃ۔” (بدائع الصنائع: ص۲۸۰جلد۱ الکلام فی الاوطان)

دو سرے موقف کے مطابق: مطلق سفر سے وطن اقامت باطل ہوجائے گا ,اگرمسافر

شخص کسی جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی نیت کرلے تو وہ مقیم ہوجاتا ہے اور وہ جگہ اس کے لیے وطن اقامت ہوجاتی ہے، لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں؛ اگر یہ شخص وطن اصلی چلا جائے یا وہاں سے سفر شرعی کی مسافت پرجائے اگر چہ سازو سامان کے بغیر جائے تو وطن اقامت باطل ہوجاتا ہے۔

“الوطن الاصلی یبطل بمثلہ لابغیر,ویبطل وطن الاقامة بمثلہ وبالوطن الاصلی وبانشاء السفر۔” (در مختار علی ردالمحتار:۱/ ۵۳۲)

” و یبطل وطن الإقامة بمثلہ وبالوطن الأصلي وبإنشاء السفر، والأصل أن الشیء یبطل بمثلہ وبما فوقہ لا بما دونہ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲: ۶۱۴، ۶۱۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔

ان میں سے آپ پہلے قول پر عمل کرسکتے ہیں۔

ا ہلیہ مفتی فیصل احمد صاحب 

صفہ آن لائن کورسز

23ذیقعدہ

1438ھ

16اگست

اپنا تبصرہ بھیجیں