ایک سوال آیا ہے کہ : کیا تین سانس میں پینا ہی سنت ہے ، اور دو سانس یا صرف ایک ہی سانس میں پوری مقدار پی لینا خلافِ سنت اورممنوع ہے ؟
الجواب :دیکھئے کسی بھی مسئلہ میں صحیح جواب اُسی وقت دے سکتے ہیں جب اس مسئلہ میں وارد دلائل اور نصوص شرعیہ کا حد الامکان احاطہ کیا جائے ، ایک دو روایات کو سامنے رکھ کر مسئلہ کا صحیح تصور نہیں ہوتا ، اس لئے جواب بھی ناقص ہوتا ہے ، اور مستفتی کو مسئلہ بھی ادھورا معلوم ہوتاہے ۔
بعض کتابوں میں جو لکھا ہوا ہوتا ہے کہ :ایک سانس میں پینا منع ہے ، یا تین سانس میں پئیں ایک میں نہیں ، تواس سلسلہ میں عرض ہے کہ : اس باب میں روایات کو اگر مدّ نظر رکھا جائے تو مسئلہ کے مختلف پہلو سامنے آئیں گے ، اور جواب تفصیلی ہوگا ، اور بعض صورتوں میں ایک سانس میں پینے کے جواز کا پہلو بھی نکلے گا ۔
روایات اس باب میں ۳ طرح کی ہیں :
۱۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل بتلانے والی :
۱۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَنَفَّسُ فِي الشَّرَابِ ثَلَاثًا، وَيَقُولُ: “إِنَّهُ أَرْوَى وَأَبْرَأُ وَأَمْرَأُ”. (البخارى 5631، مسلم 2028) .
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پانی پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے اور فرماتے : یہ زیادہ سیراب کرنے والا ، بدن کو صحت بخشنے والا ، اور خوب ہضم ہونے والا ہے ۔
۲۔ وعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا شَرِبَ تَنَفَّسَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ». (مسند أحمد 12295) .
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہسے مروی ہے کہ نبی ﷺ دو یا تین سانسوں میں پانی پیا کرتے تھے ۔
پہلی قسم کی روایات کا خلاصہ :
حضور ﷺ کا تین سانس میں پینا معروف ومشہور ہے ، صحیح روایات سے ثابت ہے ، اور اس کی سنیت پر اتفاق ہے ۔بعض روایتوں میں دو سانس میں پینا بھی وارد ہے ، جس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس سے پینے کے دوران دو مرتبہ سانس لینا مرادہے ، تیسری مرتبہ تو پینے سے فراغت پر سانس لیا جاتا ہے ، تو راوی نے اختصارا ً اس کا تذکرہ نہیں کیا۔
۲۔ ایک سانس میں پینے کی ممانعت بتانے والی روایات
۱۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَشْرَبُوا وَاحِدًا كَشُرْبِ البَعِيرِ، وَلَكِنْ اشْرَبُوا مَثْنَى وَثُلَاثَ، وَسَمُّوا إِذَا أَنْتُمْ شَرِبْتُمْ، وَاحْمَدُوا إِذَا أَنْتُمْ رَفَعْتُمْ» . قَالَ أَبُو عِيسَی : هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَيَزِيدُ بْنُ سِنَانٍ الْجَزَرِيُّ هُوَ أَبُو فَرْوَةَ الرُّهَاوِيُّ ( سنن الترمذي 1885) .
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اونٹ کی طرح ایک سانس میں نہ پیو ، بلکہ دو اور تین سانسوں میں پیو ، اور پیتے وقت بِسْمِ اللہ پڑھو اور پینے کے بعد اللہ کی حمد وثناء بیان کرو۔ یہ حدیث غریب ہے، یزید بن سنان جزری کی کنیت ابوفروہ رہاوی ہے۔
حدیث کا درجہ : ضعیف ہے، ایک راوی مجہول ہے ، اور ابوفروہ ضعیف مجروح ہے ۔
امام عینی “عمدة القاری شرح صحيح البخاری” (21/ 201) میں فرماتے ہیں کہ: ترمذی نے اس حدیث کی تحسین کی ہے ، جبکہ اس کی سند میں ایک راوی مبہم غیر مسمی ہے ،اور وہ عطاء بن ابی رباح کا بیٹا ہے ، ان کے دو بیٹے تھےخلاد اور یعقوب ، اور دونوں نے ان سے روایت کی ہے ، یعقوب سے امام نسائی نے نام لے کرروایت کی ہے ، مگر امام احمد، ابن معین، ابوزرعہ،اور نسائی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ، جبکہ ابن حبان نے توثیق کی ہے ۔رہ گیا خلاد تو اس کی کوئی روایت کتب ستہ میں نہیں ہے ، اور امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث بتایاہے۔
اور ابو فروہ رہاوی بھی امام احمد ، ابن معین ،اور ابن المدینی کے نزدیک ضعیف ہے ، امام نسائی کے یہاں متروک ہے ، اور امام بخاری نےاس کے حق میں :مقارب الحدیث کہا ہے۔
اقوال شراح :
قال الطيبي في “الكاشف عن حقائق السنن” (9/ 2881) :
قوله: (لا تشربوا واحداً كشرب البعير) أي الشرب مراراً بإبانة القَدَح حَذَراً عن التنفس في الإناء مسنونٌ ، لا كشُرب البعير فإنه يتنفَّس عند الكَرع فيه.
(حس): النهي عن التنفس فيه من أجل ما يُخاف أن يبرُزَ من ريقه فيقعُ في الماء، وقد تكون النكهةُ مِن بعض مَن يشرب متغيِّرة، فتعلَق الرائحةُ بالماء لرِقَّته ولُطفه، ثم إنه من فِعل الدوابّ إذا كَرَعت في الأواني ، جَرَعت ، ثم تنفَّست فيها ، ثم عادَتْ فشَرِبَتْ، فيكون الأحسن أن يتنفَّس بعد إبانة الإناء عن فمه كما جاء بعدَه (فأبِنِ القَدَح عن فيك).
ترجمہ :امام طیبی شرح مشکوہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ : آپ کے ارشاد(اونٹ کی طرح مت پیو) کا مطلب یہ ہے کہ : چند مرتبہ منھ سے برتن کو ہٹاتے ہوئے کوئی چیز پینا مسنون طریقہ ہے ، نہ کہ اونٹ کی طرح پینا جو پیتے وقت برتن میں سانس لیتا ہے ۔
پھر بغوی کی شرح السنہ سے نقل کیا کہ : برتن میں سانس لینے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ :اس سے لعاب کے برتن میں واقع ہونے کا اندیشہ ہے ،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پینے والے کے منھ کا مزہ بگڑا ہوا ہو ، اور اس کی وجہ سے پانی بدبو دار ہوجائے ، کیونکہ پانی میں رقت ولطافت ہوتی ہے،(یعنی وہ ادنی اثر کو بھی جلد قبول کرتاہے)، دوسری وجہ یہ ہے کہ: یہ چوپایوں کے پینے کا طریقہ ہے کہ وہ جب برتن میں منھ ڈالتے ہیں تو بڑا گھونٹ لیتے ہیں ،پھربرتن ہی میں سانس لیتے ہیں ، پھر دوبارہ پینا شروع کردیتے ہیں ،اس لئے ان کی مشابہت سے احترازکرتے ہوئے مناسب یہ ہے کہ سانس لیتے وقت برتن کومنھ سے جدا کردے ، جیسا کہ حدیث میں ارشاد فرمایا۔
۲۔حدیث ابی قتادہ رضی اللہ عنہ :
حدَّثنا مُسلِم بنُ إبراهيم وموسى بن إسماعيل، قالا: حدَّثنا أبانُ، حدَّثنا يحيى، عن عبد الله بن أبي قتادة عن أبيه رضي الله عنه قال: قال رسولُ الله – صلى الله عليه وسلم -: “إذا بالَ أحدُكم فلا يَمَسَّ ذَكَرَهُ بيمينِهِ، وإذا أتى الخَلاءَ فلا يَتَمسَّحْ بيمينهِ، وإذا شَرِبَ فلا يَشرَبْ نَفَساً واحداً”. سنن أبي داود (1/ 24برقم31 ).
حدیث کا حال : یہ حدیث مختلف اسانید سے حدیث کی مختلف کتابوں میں مروی ہے ، جیسے : عبد الرزاق (19584) حميدی (428) احمد (225222) مسلم (267) ترمذی (15) نسائی 1/25 ابن خزيمہ (68) ابو عوانہ (592،593،594) .
تمام اسانید کا دوران یحیی بن ابی کثیر پر ہے ، ان کے شاگردوں نے ان سے اس روایت کو بلفظ :” نهى أن يُتَنَفَّس في الإناء ” روایت کیا ہے ، سوائے ابان العطار کے ، کہ ان کی روایت میں ” … وإذا شَرِبَ فلا يَشْرَب نَفَساً واحداً” ہے ، جس میں جمہور راویوں کی مخالفت ہے ، اسی طرح ابان سے عبید اللہ بن موسی نے بھی الگ الفاظ سے روایت کی ہے ، جو مستدرک حاکم میں ہے ۔ كما في “إتحاف المهرة” 4/124 ۔ اس میں یہ الفاظ ہیں : “إذا شربَ أحدُكم فليَشْرَب بنَفَس واحد”، اب چاہے ابان نے جن الفاظ سے بھی روایت کی ہو ، بہر حال اس میں بقیہ راویوں کی مخالفت ہے ، اس لئے یہ الفاظ غیر معتبر ہیں ، اور اصل ہے سانس لینے کی ممانعت ۔(منقول ومترجم)
۳۔حديث انس رضی اللہ عنہ :
أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرِ بْنُ قَتَادَةَ، أَنَا أَبُو عَمْرِو بْنُ مَطَرٍ، أَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اللَّيْثِ الزِّيَادِيُّ، ثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ ابْنِ عَائِشَةَ، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ، عن أَبِي عِصَامٍ، عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” مُصُّوهُ مَصًّا وَلَا تَعبُّوهُ عَبّا” . شعب الإيمان (8/ 139).
ترجمہ : پانی چسکی لے کر پیو ، بڑے بڑے گھونٹ بھر کر نہ پیو ۔
حدیث کا حال : قال الألباني في “الضعيفة ” (3/ 619) :” مُصُّوا الماء مَصّا، ولا تَعُبُّوه عَبّا “:
أخرجه ابن عدي في ” الكامل ” (116/2) والبيهقي في ” الشعب ” (2/206/1) من طريق عبد الوارث عن أبي عصام عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال… فذكره. أورده في ترجمة أبي عصام هذا، وسماه خالد بن عبيد، وقال عن البخاري:” في حديثه نظر “.وساق له أحاديث منها هذا.
۴۔حديث على رضی اللہ عنہ :
عَنْ عَلِيٍّ – رَضِيَ الله عَنْهُ – مَرْفُوعًا ” «إِذَا شَرِبْتُمْ فَاشْرَبُوهُ مَصًّا، وَلَا تَشْرَبُوهُ عَبًّا» ، فَإِنَّ الْعَبَّ يُورِثُ الْكُبَادَ “. الدَّيْلَمِيُّ فِي “مُسْنَدِ الْفِرْدَوْسِ1070 “.
حدیث کا حال : ضعیف جدا ۔
قال الألباني في ” الضعيفة ” (5/347) : ضعيف جدا ، رواه الديلمي عن موسى بن إبراهيم المروزي: حدثنا موسى بن جعفر بن محمد ، عن أبيه ، عن جده ، عن علي رضي الله عنه مرفوعا.
سكت عليه الحافظ في ” مختصره “، وإسناده ضعيف جدا، والمروزي هذا قال الذهبي في ” الميزان 4/199″: كذبه يحيى، وقال الدارقطني وغيره: متروك .
۵۔حديث عائشہ رضی اللہ عنہا :
حدثنا عُمر بن أبي عمر العَبدي،حدثنا الحارث بن عبد الله،عن أبي مَعشر ،عن هشام بن عروة ، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها قالت :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :” إذا شربتم فاشربوا بثلاثة أنفاس ، فالأول :شكراً لشرابه، والثاني:شفاءً في جوفه، والثالث : مَطردةً للشيطان ،وإذا شربتم فمُصوه مصا ، فإنه أجدر أن يجري مَجراه ، وإنه أهنأ وأمرأ” .”نوادر الأصول” للحكيم 5/265.
ولأوله شاهد ضعيف جدا من حديث ابن مسعود رضي الله عنه كما في “فوائد أبي علي بن فضالة” (ص: 19) و”الفردوس” 1193.
ترجمہ : جب پیو تو تین میں سانس میں پیا کرو ، پہلا سانس شکرانے کے طور پر ، دوسرا باطن کی تندرستی کے لئے ، تیسرا شیطان کو دور کرنے کے لئے ، اور چسکی لے کر پیو ، کیونکہ یہ حلق سے بسہولت اترنے کے مناسب ہے ، نیزتسکین بخش ، اور زود ہضم ہے ۔
حدیث کا حال :ضعیف منکر واہی ہے ، حکیم ترمذی کا شیخ عمر بن ریاح العبدی کذاب متروک الروایہ ہے ، اسی طرح ابومعشر بھی مجروح ہے ۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی سند میں بھی حم بن نوح اور اس کے شیخ سلم بن سالم بلخی دونوں مجروح ہیں ، سلم متروک الروایہ ہے ۔
۶۔ مرسل الزہری :
وَرُوِّينَا عَنِ ابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا شَرِبَ تَنَفَّسَ ثَلَاثَةَ أَنْفَاسٍ، وَيَنْهَى عَنِ الْعَبِّ نَفَسًا وَاحِدًا، وَيَقُولُ: «ذَلِكَ شُرْبُ الشَّيْطَانِ» ، “الآداب” للبيهقي (ص: 182) و”شعب الإيمان” (8/ 140).
ترجمہ : ابن شہاب زہری فرماتے ہیں کہ : آپ ﷺ پینے کے دوران تین مرتبہ سانس لیتے ، یکبارگی پینے سے منع فرماتے ، اور ارشاد فرماتے کہ: یہ شیطان کے پینے کا طریقہ ہے ۔
۷۔مرسل او معضل النوفلی :
وَعَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَمُصَّ مَصًّا وَلَا يَعُبَّ عَبًّا، فَإِنَّ الْكُبَادَ مِنَ الْعَبِّ» ” مصنف عبد الرزاق ” (10/428) و”الآداب” للبيهقي (ص: 182) و “شعب الإيمان” (8/ 141). وابن أبي حُسين هو عبد الله بن عبد الرحمن بن الحارث النَّوفَلي ، من صغار التابعين .
ترجمہ : جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو چسکی لے کر پئے ، دفعۃیکبارگی حلق میں انڈیل نہ لے ، کیونکہ اس سے دردِ جگر پیدا ہوتا ہے ۔
۸۔مرسل عطاء
” إذا شربتم فاشربوا مصّا، وإذا استكتم فاستاكوا عرضا “.
درجہ : ضعیف ہے ، سند میں ارسال ،تدلیس، اور ایک راوی کی جہالت کی بناء پر ۔(السلسلہ الضعیفہ2/345)
شرح :
قال القاري في “مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح” (7/ 2745) :
قَالَ المَظهَرُ: جَرَيَانُ الماءِ دَفْعَةً وَانْصِبَابُهُ فِي المَعِدَةِ مُضِرٌّ بِهَا، وَقَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بِالدَّفَعَاتِ كَمَا سَبَقَ اهـ . وَلِأَنَّ الْعَبَّ مَذْمُومٌ ، وَلَا يُمْكِنُ مَصُّ الماءِ عِنْدَ شُرْبِهِ مِنْ فَمِ السِّقَاءِ، فَقَدْ رَوَى الْبَيْهَقِىُّ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه مَرْفُوعًا: ” «مُصُّوا الماءَ مَصًّا وَلَا تَعُبُّوهُ عَبًّا» “. وَفِي النِّهَايَةِ: الْعَبُّ الشُّرْبُ بِلَا تَنَفُّسٍ، وَيُؤَيِّدُهُ مَا رَوَى الْبَيْهَقِيُّ أَيْضًا عَنْ أَبِي شِهَابٍ مُرْسَلًا أَنَّهُ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – نَهَى عَنِ الْعَبِّ نَفَسًا وَاحِدًا وَقَالَ: ” ذَلِكَ شُرْبُ الشَّيْطَانِ “. وَرَوَى الدَّيْلَمِيُّ فِي “مُسْنَدِ الْفِرْدَوْسِ”عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه مَرْفُوعًا ” «إِذَا شَرِبْتُمْ فَاشْرَبُوهُ مَصًّا، وَلَا تَشْرَبُوهُ عَبًّا» ” ; فَإِنَّ الْعَبَّ يُورِثُ الْكُبَادَ “.وَفِي النِّهَايَةِ: الْعَبُّ الشُّرْبُ بِلَا تَنَفُّسٍ.
ترجمہ :ملا علی قاری مظہر الدین شارح سے نقل کرتے ہیں کہ : پانی کادفعۃ معدہ میں انڈیل لینا اس کے لئے نقصان دہ ہے ، اسی لئے آپ ﷺ نے متعدد سانسوں میں پینے کا امر فرمایا ۔
فرمایا : اور کیونکہ پانی انڈیلنا ناپسندیدہ ہے ، اور برتن کو منھ لگاکر پینے کے دوران سانس لینا ممکن نہیں ہے ، بیہقی نے حضرت انس رضی اللہ عنہسے مرفوعا نقل کیا ہے کہ : پانی چوس کر پیو ، ایک ہی سانس میں منھ بھر کر مت پیو ۔اس کی تایید زہری کی مرسل روایت سے ہوتی ہے کہ : آپ ﷺ نے یکبارگی انڈیل لینے سےمنع فرمایا اور کہا کہ :یہ شیطان کے پینے کا طریقہ ہے ۔
دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت نقل کی کہ : جب پیو تو چسکی لےکر پیو ، یکبارگی مت پیو ، اس لئے کہ وہ درد جگر کا باعث ہوتا ہے ۔ اور نہایہ میں ہے: (عَبّ) کا معنی ہے سانس لئے بغیر پینا ۔
ملا علی قاری نےمرقاۃ میں ایک دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ :(الْمَنْهِيُّ عَنْهُ هُوَ التَّنَفُّسُ فِي الْإِنَاءِ بِلَا إِبَانَةٍ ، أَوْ بِلَا تَنَفُّسٍ فَإِنَّهُ يَدُلُّ عَلَى الشَّرَهِ وَالْحِرْصِ وَالْغَفْلَةِ)کہ برتن کو جدا کئے بغیرسانس لینا ،یا بغیر سانس لئے زیادہ پی لینا ، دونوں ممنوع ہیں ، دوسرا اس لئے کہ وہ ندیدہ پن،حرص،اورغفلت پر دلالت کرتاہے۔
وقال المناوي في “فيض القدير” (1/ 387) : والمَصُّ شُرب في مُهلة ، والعَبُّ تتابُع الشرب من غير تنفس .
یعنی (مَصّ) کا معنی ہےٹھہرٹھہرکر پینا ، اور(عَبّ) کامعنی ہےمسلسل بغیرسانس لیتے ہوئےپیتے چلے جانا۔
الموقوفات :
۹– عن إِبْرَاهِيمُ بن أبي حبيبة قال : أخبرني داود ابن الْحُصَيْنِ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ : الشَّرَابُ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ شُرْبُ الشَّيْطَانِ .
حدیث کا حال : قال ابن عبد البر : وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي حَبِيبَةَ ضَعِيفٌ لَا يُحْتَجُّ بِهِ . “التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد” (1/392) وروي مثله عن عكرمة.
۱۰– حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، قَالَ: «رَآنِي أَبِي وَنَحْنُ نَشْرَبُ بِنَفْسٍ وَاحِدٍ فَنَهَانَا، أَوْ نَهَانِي» . “مصنف ابن أبي شيبة 24166 “.
۱۱– حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الثَّقَفِيُّ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ: أَنَّهُ كَرِهَ الشُّرْبَ بِنَفْسٍ وَاحِدٍ، وَقَالَ: «هُوَ شُرْبُ الشَّيْطَانِ» . “مصنف ابن أبي شيبة 24167 “.
دوسری قسم کی روایات کا خلاصہ :
۱۔ ایک سانس میں پینے کی ممانعت کے باب میں روایات تین طرح کی ہیں :مرفوع ، مرسل ، موقوف۔
۲۔ مرفوعات میں جو روایت اصل الاصول مانی جاتی ہے وہ ابن عباسرضی اللہ عنہکی روایت ہے ،لیکن وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے ، اور دوسری روایت ابو قتادہ رضی اللہ عنہکی ہے ، وہ متن کے اعتبار سےمضطرب ہے ، اس میں ممانعت کے الفاظ نقل کرنا راوی کا تفرد ہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہکی روایت بھی ضعیف ہے ،اور دیلمی کی روایت جو حضرت علی رضی اللہ عنہسے منقول ہے وہ بھی غیر معتبر ہے۔
۳۔مراسیل میں ابن شہاب الزہری اور نوفلی کا مرسل سند کے اعتبار سے قوی ہے ، جس سے مرفوع روایات کے مفہوم کو تقویت مل سکتی ہے جیساکہ بیہقی نے شعب میں کہا،اور یہی حال موقوفات کا ہے ۔
۴۔ ایک سانس میں پینے کی ممانعت کی روایات میں وجوہ ِمنع جو وارد ہیں وہ تین ہیں :
پہلی وجہ :(مشابہت بالحیوان )یعنی جانوروں کے پینے کے ساتھ مشابہت خصوصا اونٹ کے ساتھ،پھر اس میں بھی بعض وجہِ مشابہت یہ بتاتے ہیں کہ اونٹ پیتے ہوئے برتن میں سانس لیتا ہے ، تو اس سے منع کیاگیا۔ اور بعض وجہ مشابہت یکبارگی پانی بڑی مقدار میں غٹاغٹ پی لینا بتاتے ہیں ،جس کو (عب) کہا جاتاہے، عب کے سلسلہ میں کئی روایات اوپر گذرچکی ہیں ۔
دوسری وجہ :(مشابہت بالشیطان )یعنی یہ شیطان کے پینے کا طریقہ ہے ، کہ وہ ایک سانس میں پیتا ہے،یعنی عب کی شکل ہوتی ہے۔
تیسری وجہ :(داء الکباد) ایک سانس میں بہت زیادہ پینے سے درد جگر کی بیماری لاحق ہونے کا اندیشہ ہے۔
۵۔ پیتے ہوئے پیالہ یابرتن میں سانس لینا تو بہر حال منع ہے ،پانی کی مقدار کم ہو یا زیادہ ، مگر (عب)کی کیفیت یعنی غٹاغٹ بڑے گھونٹ لے کر پینا ،یہ پانی کی بڑی مقدار کے ساتھ ممکن ہے، اسی وجہ سے مشکیزہ کو الٹ کر اس کے دہانے سے منھ لگاکر پینا بھی منع ہے ،ایک وجہ اس کی یہ ہے کہ اس میں بھی عب کی صورت ہوگی،اسی طرح درد جگر یا حلق میں پھندا لگنے کا اندیشہ ،یہ سب بھی پانی کی بڑی مقدار پینے کے ساتھ خاص ہے۔
۶۔ ممانعت کے باوجود اگر کوئی شخص برتن میں سانس لیتا ہے ، تو اس میں زیادہ سے زیادہ کراہت ہے ، اس سے کھانے پینے کی چیز حرام یا ناجائز نہیں ہوتی ہے ۔
۳۔ ایک سانس میں پینے کے جواز پر دلالت کرنے والی روایات
۱۔حدیث ابی سعید رضی اللہ عنہ :
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رضي الله عنه : “أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ النَّفْخِ فِي الشُّرْبِ” فَقَالَ رَجُلٌ: القَذَاةُ أَرَاهَا فِي الإِنَاءِ؟ قَالَ: “أَهْرِقْهَا”، قَالَ: فَإِنِّي لَا أَرْوَى مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: “فَأَبِنِ القَدَحَ إِذَنْ عَنْ فِيكَ”: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . (ترمذي) 1887
ترجمہ : حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پینے کی چیز میں پیتے وقت پھونکیں مارنے سے منع فرمایا۔ ایک آدمی نے عرض کیا : اگر برتن میں تنکا وغیرہ ہو تو؟ آپ نے فرمایا : اسے گرا دو۔ اس نے عرض کیا : میں ایک مرتبہ سانس میں سیر نہیں ہوتا۔ آپ نے فرمایا : جب تم سانس لو تو پیالہ اپنے منہ سے ہٹا دو ۔
ایک اور روایت :
عَنْ أَبِي الْمُثَنَّى الْجُهَنِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ مَرْوَانَ وَهُوَ يَسْأَلُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رضي الله عنه: هَلْ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَنَفَّسَ وَهُوَ يَشْرَبُ فِي إِنَائِهِ؟ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: نَعَمْ. فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنِّي لَا أَرْوَى مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: «فَإِذَا تَنَفَّسْتَ، فَنَحِّ الْإِنَاءَ عَنْ وَجْهِكَ»، قَالَ: فَإِنِّي أَرَى الْقَذَى فَأَنْفُخُهَا؟ قَالَ: «فَإِذَا رَأَيْتَهَا فَأَهْرِقْهَا، وَلَا تَنْفُخْهَا» . (مسند أحمد) 11654
ترجمہ :
ابو المثنیٰ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ : ایک مرتبہ میں مروان کے پاس تھا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہبھی تشریف لے آئے، مروان نے ان سے پوچھا کہ: کیا آپ نے نبی ﷺ کو مشروبات میں سانس لینے سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ! ایک آدمی کہنے لگا : میں ایک ہی سانس میں سیراب نہیں ہوسکتا، میں کیا کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :برتن کو اپنے منہ سے جدا کر کے پھر سانس لیا کرو، اس نے کہا کہ : اگر مجھے اس میں کوئی تنکا وغیرہ نظر آئے تب بھی پھونک نہ ماروں ؟ فرمایا : نہیں ، بلکہ اسے بہا دیا کرو۔
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہکی روایت پرشراح حدیث کے اقوال :
۞ قال ابن عبد البر في “التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد” (1/ 392) معلقا على حديث أبي سعيد رضي الله عنه:
عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ رَأَى فِي قَوْلِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِلرَّجُلِ الَّذِي قَالَ لَهُ : إِنِّي لَا أَرْوَى مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ :” فَأَبِنِ الْقَدَحَ عَنْ فِيكَ ” قَالَ مَالِكٌ : فَكَأَنِّي أَرَى فِي ذَلِكَ الرُّخْصَةَ أَنْ يَشْرَبَ مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ مَا شَاءَ ، وَلَا أَرَى بَأْسًا بِالشُّرْبِ مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ ، وَأَرَى فِيهِ رُخْصَةً لِمَوْضِعِ الْحَدِيثِ : إِنِّي لَا أَرْوَى مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ .
قَالَ أَبُو عُمَرَ : يُرِيدُ مَالِكٌ رَحِمَهُ الله أَنَّ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَمْ يَنْهَ الرَّجُلَ حِينَ قَالَ لَهُ «إِنِّي لَا أَرْوَى مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ» أَنْ يَشْرَبَ فِي نَفَسٍ وَاحِدٍ ، بَلْ قَالَ لَهُ كَلَامًا مَعْنَاهُ : فَإِنْ كُنْتَ لَا تَرْوَى فِي نَفَسٍ وَاحِدٍ فَأَبِنِ الْقَدَحَ عَنْ فِيكَ . وَهَذَا إِبَاحَةٌ مِنْهُ لِلشُّرْبِ مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ إِنْ شَاءَ الله .
وَقَدْ رُوِيَتْ آثَارٌ عَنْ بَعْضِ السَّلَفِ فِيهَا كَرَاهَةُ الشُّرْبِ فِي نَفَسٍ وَاحِدٍ ، وَلَيْسَ مِنْهَا شَيْءٌ تَجِبُ بِهِ حُجَّةٌ ، فَمِنْ ذَلِكَ :
مَا حَدَّثَنِي خَلَفُ بْنُ الْقَاسِمِ رَحِمَهُ الله قَالَ :حَدَّثَنَا مُؤَمِّلُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مَهْدِيٍّ الْفَقِيهُ قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ رَاشِدٍ الْإِمَامُ قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخلدٍ قَالَ : حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بن أبي حَبِيبة قال : أخبرني داود بن الْحُصَيْنِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ : الشَّرَابُ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ شُرْبُ الشَّيْطَانِ .
وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي حَبِيبَةَ ضَعِيفٌ لَا يُحْتَجُّ بِهِ ، وَلَوْ صَحَّ كَانَ الْمَصِيرُ إِلَى الْمُسْنَدِ أَوْلَى مِنْ قَوْلِ الصَّاحِبِ .
وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الطَّائِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حَرْبٍ الطَّائِيُّ قَالَ : حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ قَالَ : كَانَ أَبِي إِذَا رَآنِي أَشْرَبُ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ نَهَانِي .
وَذَكَرَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ : حَدَّثَنَا الثَّقَفِيُّ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّهُ كَرِهَ الشُّرْبَ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ وَقَالَ : هُوَ شُرْبُ الشَّيْطَانِ .
وَأَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ بِشْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ابْنُ أَبِي دُلَيْمٍ قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ وَضَّاحٍ قَالَ : كُنْتُ أَرَى سَحْنُونَ إِذَا أُتيَ بِالْمَاءِ يَشْرَبُهُ يُسَمِّي اللَّهَ ، ثُمَّ يَتَنَاوَلُ مِنْهُ شَيْئًا ، ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَحْمَدُ اللَّهَ ، رَأَيْتُهُ يَفْعَلُ ذلك مراراً .
قَالَ أَبُو عُمَرَ : فِعْلُ سَحْنُونَ هَذَا حَسَنٌ فِي الْأَدَبِ وَلَيْسَ بِسُنَّةٍ ، وَلَكِنَّهُ أَهْنَأُ وَأَمْرَأُ كَمَا قَالَ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ .
وَقَدْ جَاءَ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنَ السَّلَفِ إِجَازَةُ الشُّرْبِ فِي نَفَسٍ وَاحِدٍ كَمَا قَالَ مَالِكٌ رَحِمَهُ الله ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُونُسَ قَالَ : حَدَّثَنَا بَقِيُّ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ : حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عَطَاءٍ : أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بِالشُّرْبِ بِالنَّفَسِ الْوَاحِدِ بَأْسًا .
قَالَ أَبُو بَكْرٍ : وَحَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ : لَمْ أَرَ أَحَدًا كَانَ أَعْجَلَ إِفْطَارًا مِنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، كَانَ لَا يَنْتَظِرُ مُؤَذِّنًا ، وَيُؤْتَى بِالْقَدَحِ مِنْ مَاءٍ فَيَشْرَبُهُ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ لَا يَقْطَعُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ . هَذَا أَصَحُّ عَنْ سَعِيدٍ .
قَالَ : وَحَدَّثَنَا الثَّقَفِيُّ عَنْ أَيُّوبَ قَالَ : نُبِّئْتُ عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ قَالَ : رَآنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَأَنَا أَشْرَبُ ، فَجَعَلْتُ أَقْطَعُ شَرَابِي وَأَتَنَفَّسُ ، قَالَ : إِنَّمَا نُهِيَ أَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاءِ ، فَإِذَا لَمْ تَتَنَفَّسْ فَاشْرَبْهُ إِنْ شِئْتَ بِنَفَسٍ واحد .
قَالَ أَبُو عُمَرَ : قَوْلُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فِي هَذَا هُوَ الْفِقْهُ الصَّحِيحُ فِي هذه المسألة ، وَالنَّهْيُ عَنِ النَّفْخِ فِي الشَّرَابِ الْمَذْكُورُ فِي حَدِيثِ مَالِكٍ فِي هَذَا الْبَابِ هُوَ عِنْدِي كَالنَّهْيِ عَنِ التَّنَفُّسِ فِي الْإِنَاءِ سَوَاءٌ ، وَالله أَعْلَمُ . أَلَا تَرَى إِلَى قَوْلِهِ فِي الْحَدِيثِ : ” فَأَبِنِ الْقَدَحَ عَنْ فِيكَ ثُمَّ تَنَفَّسْ ” وَإِذَا لَمْ يَجُزِ التَّنَفُّسُ فِي الْإِنَاءِ لَمْ يَجُزِ النَّفْخُ فِيهِ لِأَنَّهُ مِثْلُهُ وَقِطْعَةٌ مِنْهُ .
وَحَدَّثَنِي خَلَفُ بْنُ الْقَاسِمِ الْحَافِظُ قَالَ:حَدَّثَنَا أَبُو عِيسَى عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْأُسْوَانِيُّ قَالَ :حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ :حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى قَالَ :حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وسلم أَنْ يُنْفَخَ فِي الْإِنَاءِ أَوْ يُتَنَفَّسَ فِيهِ .
وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُطَيْسٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، عَنِ الحارث بْنِ عَبْدِ الرَّحْمِنِ الدَّوْسِيِّ ، عَنْ عَمِّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” لَا يَتَنَفَّسْ أَحَدُكُمْ فِي الْإِنَاءِ إِذَا كَانَ يَشْرَبُ مِنْهُ ، وَلَكِنْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَنَفَّسَ فَلْيُؤَخِّرْ عَنْهُ ثُمَّ يَتَنَفَّسْ ” .
قَالَ أَبُو عُمَرَ : وَأَكْثَرُ الْآثَارِ إِنَّمَا جَاءَتْ بِالنَّهْيِ عَنِ التَّنَفُّسِ فِي الْإِنَاءِ ، وَقَدْ قُلْنَا : إِنَّ الْمَعْنَى وَاحِدٌ ، وَالنَّهْيُ عَنْ هَذَا نَهْيُ أَدَبٍ لَا نَهْيُ تَحْرِيمٍ ، لِأَنَّ الْعُلَمَاءَ قَدْ أَجْمَعُوا : أَنَّ مَنْ تَنَفَّسَ فِي الْإِنَاءِ أَوْ نَفَخَ فِيهِ لَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ بِذَلِكَ طَعَامُهُ وَلَا شَرَابُهُ ، وَلَكِنَّهُ مُسِيءٌ إِذَا كَانَ بِالنَّهْيِ عَالِمًا .
ترجمہ :حافظ ابن عبد البر نے سیر حاصل بحث کی ہے ، اس میں امام مالک رحمہ اللہ کی رائے کی توضیح کے بعد ، ممانعت پر دلالت کرنے والی روایات کو ناقابل حجت قرار دیا ہے ، پھر امام مالک کی موافقت میں جواز پر دلالت کرنے والی روایات ذکر کی ہیں ، اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی تفصیل کو پسند فرماکر کہا کہ : یہی قول ان احادیث کی صحیح فہم ہے ، اور فرمایا کہ : میرے نزدیک وہ احادیث جن میں پھونک مارنے کی ممانعت ہے ، وہ بھی سانس لینے کی ممانعت کے مفہوم میں ہیں ، یعنی پھونک مارنا اور سانس لینا دونوں کا مطلب ایک ہی ہے ، جب یہ ممنوع ہوگا تو دوسرا بھی ممنوع ہوگا کیونکہ دونوں کا حاصل ایک ہے ۔
پھر بحث کے اخیر میں فرمایا کہ : اکثر روایات میں برتن میں سانس لینے کی ممانعت وارد ہوئی ہے ، اور یہ من باب الادب ہے ، ناجائز نہیں ہے ، کیونکہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ : کھانے پینے کے دوران برتن میں پھونک مارنے یا سانس لینے سے وہ کھانے پینے کی چیز حرام نہیں ہوتی ہے ، بلکہ ممانعت کے معلوم ہوتے ہوئے ایسا کرنا سوء ادب ہے ۔
۞ وقال الباجي في “المنتقى شرح الموطإ” (7/ 236) :
لَمْ يُنْكِرْ عَلَيْهِ الشُّرْبَ مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ ، بَلْ أَقَرَّهُ عَلَيْهِ ، فَاقْتَضَى ذَلِكَ إبَاحَتَهُ لَهُ .
وَقَدْ جَوَّزَ مَالِكٌ – رَحِمَهُ الله – الشُّرْبَ فِي نَفَسٍ وَاحِدٍ ، وَبِهِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ – رحمهم الله -.
وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه وَعِكْرِمَةَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ وَقَالَا : هُوَ شُرْبُ الشَّيْطَانِ . وَمَا اخْتَارَهُ مَالِكٌ أَظْهَرُ لِلْحَدِيثِ .
ترجمہ :امام باجی مالکی فرماتے ہیں کہ: آپ ﷺ نے صحابی کے ایک سانس میں پینے پر نکیر نہیں فرمائی،بلکہ آپ نے اقرار فرمایا، جس کامقتضی ہےکہ ایک سانس میں پینا مباح ہے۔نیز امام مالک وغیرہ سے جواز کا قول منقول ہے ۔مگر ابن عباس رضی اللہ عنہاور عکرمہ نے مشابہت بالشیطان کی وجہ سے مکروہ کہا ہے ،لیکن امام مالک نے جو قول اختیار کیا وہ حدیث کے زیادہ موافق ہے۔
۞ وقال الزرقاني في “شرحه على الموطأ” (4/ 463) :
بَقِيَ هُنَا شَيْءٌ يَنْبَغِي التَّفَطُّنُ لَهُ، وَهُوَ أَنَّ الْأَمْرَ بِإِبَانَةِ الْقَدَحِ إِنَّمَا يُخَاطَبُ بِهِ مَنْ لَمْ يَرْوَ مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ بِغَيْرِ عَبٍّ، وَإِلَّا فَلَا إِبَانَةَ، قَالَهُ فِي الْمُفْهِمِ.
وَفِي “التَّمْهِيدِ” عَنْ مَالِكٍ: فِيهِ إِبَاحَةُ الشُّرْبِ مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ ، لِأَنَّهُ لَمْ يَنْهَ الرَّجُلَ عَنْهُ، بَلْ قَالَ لَهُ مَا مَعْنَاهُ: إِنْ كُنْتَ لَا تَرْوَى مِنْ وَاحِدٍ، فَأَبِنِ الْقَدَحَ، انْتَهَى.
ترجمہ :امام زرقانی فرماتے ہیں کہ :ایک بات اس حدیث کے متعلق قابل غور یہ ہے کہ :برتن کو منھ سے الگ کرنے کا مخاطَب صرف وہ شخص ہوگا ،جوایک سانس میں (دفعۃپانی انڈیل لینےکےبغیر)سیراب نہیں ہوتا ہے ، ورنہ برتن ہٹانے کا مامور نہیں ہوگا ، بلکہ ایک سانس میں جتنی مقدار پینا چاہے پی سکتا ہے۔یہ صاحب مفہم کا قول ہے۔
اور کتاب التمہید میں امام مالک سے نقل کیا ہے کہ :اس حدیث سے ایک سانس میں پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ آپ نےصحابی کو منع نہیں فرمایا، بلکہ آپ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ : اگر تجھے ایک سانس میں پینے سے سیرابی حاصل نہیں ہوتی ہے ، تو برتن دور کرکے سانس لے۔
۞ وقال ابن الملقن في ” التوضيح لشرح الجامع الصحيح ” (4/ 146) :
فيه جواز الشرب من نفس واحد؛ لأنه إنما نهى عن التنفس في الإناء، والذي شرب في نَفَس واحد لم يتنفس فيه، فلا يكون مخالفًا للنهي. وكرهه جماعةٌ وقالوا: هو شُرب الشيطان. وفي “الترمذي” محسِّناً من حديث ابن عباس رضي الله عنه مرفوعًا: “لا تشربوا واحدًا كشرب البعير، ولكن اشربوا مَثنى وثُلاثَ ، وسمُّوا إِذَا أنتم شربتم، واحمدوا إِذَا أنتم رفعتم” .
ترجمہ :امام ابن الملقن فرماتے ہیں کہ :اس حدیث سے ایک سانس میں پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ حضور ﷺ نے تو برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا، اور جو ایک سانس میں پیتا ہے وہ سانس نہیں لیتا ہے ، تو وہ ممانعت کے خلاف نہیں کر رہا ہے ، لیکن علماء کی ایک جماعت اس کو مکروہ قرار دیتی ہے ، اور کہتی ہے کہ : اس طرح شیطان پیتا ہے ۔ اور امام ترمذی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہکی مرفوع روایت کو تحسین کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اونٹ کی طرح ایک سانس میں نہ پیو ، بلکہ دو اور تین سانسوں میں پیو ، اور پیتے وقت بِسْمِ اللہ پڑھو اور پینے کے بعد اللہ کی حمد وثناء بیان کرو۔
۞ وقال الحافظ ابن حجر في “فتح الباري” (10/ 93) :
وَلِابْنِ مَاجَهْ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه رَفَعَهُ : “إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَعُودَ فَلْيُنَحِّ الْإِنَاءَ ثُمَّ لْيَعُدْ إِنْ كَانَ يُرِيدُ ” .
وَاسْتُدِلَّ بِهِ لِمَالِكٍ عَلَى جَوَازِ الشُّرْبِ بِنَفَسٍ وَاحِد . وَأخرج ابن أَبِي شَيْبَةَ الْجَوَازَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَطَائِفَةٍ ، وَقَالَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ : إِنَّمَا نَهَى عَنِ التَّنَفُّسِ دَاخِلَ الْإِنَاءِ ، فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَتَنَفَّسْ فَإِنْ شَاءَ فَلْيَشْرَبْ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ .
قُلْتُ : وَهُوَ تَفْصِيلٌ حَسَنٌ ، وَقَدْ وَرَدَ الْأَمْرُ بِالشُّرْبِ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ مِنْ حَدِيثِ أَبِي قَتَادَةَ رضي الله عنه مَرْفُوعًا أَخْرَجَهُ الْحَاكِمُ وَهُوَ مَحْمُولٌ عَلَى التَّفْصِيلِ الْمَذْكُورِ .
وَأَخْرَجَ التِّرْمِذِيُّ بِسَنَد ضَعِيف عَن ابن عَبَّاسٍ رضي الله عنه رَفَعَهُ : ” لَا تَشْرَبُوا وَاحِدَةً كَمَا يَشْرَبُ الْبَعِيرُ وَلَكِنِ اشْرَبُوا مَثْنَى وَثُلَاثَ “.مختصرا
ترجمہ :حافظ (فتح )میں لکھتے ہیں کہ : ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہسے مرفوعا مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے جب کوئی پئے تو برتن میں سانس نہ لے ، پھر اگر مزید پینے کی خواہش ہو تو برتن کو منھ سے دور کرتے ہوئے سانس لے ، پھر پینے کی طرف لوٹے اگر ارادہ ہو تو ۔
اس روایت سے امام مالک کے جواز کے قول کے لئے استدلال کیا گیا ہے ، اور ابن ابی شیبہ نے جواز کا قول حضرت سعید بن المسیب اور ایک جماعت سے نقل کیا ہے ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ : حدیث میں تو برتن کے اندر سانس لینے سے منع کیا گیا ہے ، پس جو شخص ایسا نہیں کرتا ہے تو اس کو اختیار ہے ، چاہے تو ایک ہی سانس میں پئے ۔
حافظ نے کہا : حضرت عمر بن عبد العزیز کی یہ تفصیل بہتر ہے ، اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہسے ایک سانس میں پینے کا حکم بھی وارد ہے ، جو اسی تفصیل پر محمول ہے ۔
اور ترمذی میں ضعیف سند سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہکی مرفوع روایت ہے کہ :اونٹ کی طرح ایک سانس میں مت پیو ، بلکہ دو تین سانس میں پیو ۔
۞ وقال القاري في “مرقاة المفاتيح ” (1/ 377) :
وَفِي “الشَّمَائِلِ” لِلتِّرْمِذِيِّ «أَنَّهُ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانَ يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ ثَلَاثًا إِذَا شَرِبَ وَيَقُولُ: هُوَ أَمْرَأُ وَأَرْوَى» ، وَمَعْنَى الْحَدِيثِ أَنْ يَشْرَبَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فِي كُلِّ ذَلِكَ يُبِينُ الْإِنَاءَ عَنْ فِيهِ فَيَتَنَفَّسُ ثُمَّ يَعُودُ ، وَالْمَنْهِيُّ عَنْهُ هُوَ التَّنَفُّسُ فِي الْإِنَاءِ بِلَا إِبَانَةٍ ، أَوْ بِلَا تَنَفُّسٍ فَإِنَّهُ يَدُلُّ عَلَى الشَّرَهِ وَالْحِرْصِ وَالْغَفْلَةِ، وَلِذَا وَرَدَ: «لَا تَشْرَبُوا وَاحِدًا كَشُرْبِ الْبَعِيرِ، وَلَكِنِ اشْرَبُوا مَثْنَى وَثُلَاثَ» ، وَوَرَدَ بِسَنَدٍ حَسَنٍ «أَنَّهُ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانَ يَشْرَبُ فِي ثَلَاثَةِ أَنْفَاسٍ ، إِذَا أَدْنَى الْإِنَاءَ إِلَى فِيهِ سَمَّى اللَّهَ، وَإِذَا أَخَّرَهُ حَمِدَ اللَّهَ ، يَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثًا» أَيْ غَالِبًا، إِذْ جَاءَ فِي رِوَايَةٍ : أَنَّهُ كَانَ إِذَا شَرِبَ تَنَفَّسَ مَرَّتَيْنِ، وَفِي رِوَايَةِ الْبُخَارِيِّ « مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ» وَأَوْ لِلتَّنْوِيعِ لِأَنَّهُ إِنْ رَوِيَ بِنَفَسَيْنِ اكْتَفَى بِهِمَا وَإِلَّا فَبِثَلَاثٍ .
ترجمہ : ملاعلی القاری فرماتے ہیں کہ : شمائل ترمذی کی روایت ہے کہ آپ ﷺ پانی پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے اور فرماتے : یہ زیادہ سیراب کرنے والا ، بدن کو صحت بخشنے والا ، اور خوب ہضم ہونے والا ہے۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تین سانس میں پئے ، اور ہر مرتبہ برتن کو منھ سےدور کرتے ہوئے سانس لے ، پھر پئے ۔ممانعت تو برتن کو ہٹائے بغیر سانس لینے کی ہے ،یا بغیر سانس لئے یکدم پینے کی ہے کیونکہ یہ حرص ہوس اور غفلت پر دلالت کرتا ہے ، اسی لئے حدیث میں وارد ہواکہ اونٹ کی طرح ایک سانس میں مت پیو ، بلکہ دو تین سانس میں پیو۔اور بسند حسن وارد ہے کہ: آپ ﷺ تین سانس میں پیتے تھے ، جب برتن کو منھ کے قریب کرتے تو بسم اللہ کہتے ، اور جب دور کرتے تو الحمد للہ کہتے ، تین بار اس طرح کرتے ۔یعنی غالبا ، کیونکہ ایک روایت میں دو مرتبہ سانس لینا بھی مذکور ہے ، اور بخاری کی روایت میں (مرۃ او مرتین) ہے ، یہاں پر (او) تنویع کے لئے ہے ، یعنی گاہے دو سانس میں پیتے ، اور گاہے تین سانس میں ، کیونکہ دو سانس میں اگر سیراب ہوجاتے تو اسی پر اکتفا فرماتے ، یا پھر تین سانس میں ۔
۞ وقال في ” المرقاة ” في موضع آخر (7/ 275) :
قَالَ: (فَأَبِنِ) : أَمْرٌ مِنَ الْإِبَانَةِ أَيْ أَبْعِدِ الْقَدَحَ (عَنْ فِيكَ) : أَيْ فَمِكَ (ثُمَّ تَنَفَّسْ) : أَيْ خَارِجَ الْإِنَاءِ، ثُمَّ اشْرَبْ . وَفِيهِ إِيمَاءٌ إِلَى جَوَازِ الِاقْتِصَارِ عَلَى مَرَّتَيْنِ، وَإِنْ كَانَ التَّثْلِيثُ أَنْفَسَ لِكَوْنِهِ أَمْرأ وَأَهْنَأ وَأَرْوَى ; وَلِأَنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ، وَهُوَ أَكْثَرُ أَحْوَالِهِ مِنْ عَادَتِهِ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَلَمْ يَرِدْ فِي حَدِيثٍ أَنَّهُ – صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – اقْتَصَرَ عَلَى مَرَّةٍ، وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ يُفِيدُ جَوَازَهُ إِذَا رَوَى مِنْ نَفَسٍ وَاحِدٍ.
ترجمہ 🙁 فَأَبِنِ) یہ ابانہ سے امر ہے ، یعنی پیالہ کو منھ سے دور کرے ، پھر خارج میں سانس لے ، پھر پینے کی طرف لوٹے ۔اس سے اشارۃ معلوم ہوا کہ دو سانس پر اقتصار کرنا جائز ہے ، البتہ تین سانس میں پینا کئی اعتبار سے بہتر ہے ، اول : زود ہضم ،سیراب کرنے والا، اور پیاس کو تسکین بخشنے والا ہے ۔دوسرا:یہ عدد کے اعتبار سے وتر ہے جو خداکے یہاں پسندیدہ ہے،تیسرا:حضور ﷺ کی اکثر عادتِ شریفہ کے موافق ہے ۔اور کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ ﷺنے ایک سانس پر اقتصار کیا ہو، اگرچہ یہ حدیث اس کے جواز پر دلالت کررہی ہے ، کہ اگر ایک سانس میں سیراب ہوجائے تو جائز ہے۔
ایک سانس میں پینے کےجواز پر دلالت کرنے والی بقیہ روایات
۲۔حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ، فَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَعُودَ، فَلْيُنَحِّ الْإِنَاءَ، ثُمَّ لِيَعُدْ إِنْ كَانَ يُرِيدُ» سنن ابن ماجه (3427) بسند حسن .
ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہفرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی پئے تو برتن میں سانس نہ لے ۔ (سانس لینے کے بعد) اگر دوبارہ پینا چاہتا ہو تو برتن کو (منہ سے) الگ کر کے (سانس لے) پھر چاہے تو دوبارہ پی لے ۔
۳۔ حدیث ابی قتادہ رضی اللہ عنہ:
أَبَانُ ، عنُ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ رضي الله عنه مَرْفُوعًا: «إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَشْرَبْ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ» عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ “. المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 155برقم 7207)
ترجمہ : تم میں سے کوئی اگر پئے تو ایک سانس میں پئے ۔
الموقوفات على التابعين :
وفي “مصنف ابن أبي شيبة” (5/ 105) قال : مَنْ رَخَّصَ فِي الشُّرْبِ فِي النَّفَسِ الْوَاحِدِ
4- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَطَاءٍ: «أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بِالشُّرْبِ بِالنَّفَسِ الْوَاحِدِ بَأْسًا»[24163]
ترجمہ : حضرت سالم حضرت عطاء سے نقل کرتے ہیں کہ : وہ ایک سانس میں پینے میں حرج محسوس نہیں کرتے تھے ۔
5- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: «لَمْ أَرَ أَحَدًا كَانَ أَعْجَلَ إِفْطَارًا مِنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، كَانَ لَا يَنْتَظِرُ مُؤَذِّنًا، وَيُؤْتَى بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ فَيَشْرَبُهُ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ، لَا يَقْطَعُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ»[24164]
ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن یزید سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے زیادہ افطار میں جلدی کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا ،آپ مؤذن کا انتظار نہیں کرتے تھے (یعنی وقت ہوجانے کے بعد)ان کے پاس پانی کا پیالہ لایا جاتا تھا ، پس وہ اس کو ایک ہی سانس میں اس طرح پی لیتے تھے کہ پینے کے دوران ختم ہونے تک سانس نہیں توڑتے تھے ۔
6- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: نُبِّئْتُ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، قَالَ: رَآنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَأَنَا أَشْرَبُ، فَجَعَلْتُ أَقْطَعُ شَرَابِي وَأَتَنَفَّسُ، فَقَالَ: «إِنَّمَا هِيَ أَنْ تَتَنَفَّسَ فِي الْإِنَاءِ، فَإِذَا لَمْ تَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ فَاشْرَبْهُ إِنْ شِئْتَ بِنَفَسٍ وَاحِدٍ»[24165]
ترجمہ :حضرت ایوب سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ : مجھے حضرت میمون بن مہران کے بارے میں خبر ملی کہ وہ فرماتے ہیں کہ : حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ مجھے اس حالت میں دیکھا کہ میں پانی پی رہا تھا ، پھر پانی پیتے ہوئے رک جاتا اورسانس لیتا ، تو انہوں نے فرمایا : صرف اس بات سے روکا گیا ہے کہ برتن کے اندر سانس لیا جائے ۔پس اگر تم برتن کے اندر سانس نہیں لیتے تو پھر تم اگر چاہو تو ایک ہی سانس میں پی لو۔
ومن أقوال المُجيزين :
قال الأثرم في “ناسخ الحديث ومنسوخه” (ص: 233) : باب التنفس في الشراب :
(1) روى هشام الدستوائي وعبد الوارث بن سعيد ، عن أبي عصام ، عن أنس رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتنفس في الإناء ثلاثاً، ويقول “هو أهنا وأمرأ وأبرأ”. وروى عزرة بن ثابت ، عن ثمامة ، عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم : أنه كان إذا شرب تنفس ثلاثاً.
(2) وروى هشام ، عن يحيى بن أبي كثير ، عن عبد الله بن أبي قتادة ، عن أبيه رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم “نهى أن يتنفس في الإناء”. وروى عبد الكريم ، عن عكرمة ، عن ابن عباس : أن النبي صلى الله عليه وسلم “نهى أن يتنفس في الإناء”.
(3) وروى رشدين بن كريب ، عن أبيه ، عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم شرب ماء فتنفس مرتين.
(4) وروى مالك ، عن أيوب بن حبيب ، عن أبي المثنى الجهني ، عن أبي سعيد رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن النفخ في الشراب، فقال رجل: إني لا أروى بنفس واحدة؟ قال: “فأبن الإناء عن فيك ثم تنفس”. فدل ظاهر هذا الحديث على الرُّخصة في الشرب بنفس واحد.
فهذه الأحاديث في ظاهرها مختَلِفة. والوجه فيها عندنا أنه يجوز الشربُ بنفَس واحد وبنفَسين وبثلاثة أنفاس، وبأكثرَ منها، لأن اختلاف الرواية في ذلك يدلُّ على التسهيل فيه ، وإنَّ اختيارَ الثلاثِ لَحَسنٌ.
وأما حديث النهي عن التنفس في الإناء، فإنما ذلك أن يَجعل نَفَسه في الإناء، فأما التنفُّس للراحة – إذا أبانَه عن فيه – فليس من ذلك.
ترجمہ : امام اثرم حنبلی نے اپنی کتاب(ناسخ الحدیث ومنسوخہ)میں پانی کے دوران سانس لینے کے سلسلہ میں وارد مختلف روایات پیش کیں ، جو چار طرح کی ہیں :پہلی میں حضور ﷺ کا تین سانس میں پینا مذکور ہے ، اور دوسری میں برتن یا پیالہ کے اندر سانس لینے کی ممانعت ہے ۔تیسری ایک روایت میں دو مرتبہ سانس لینا مذکور ہے۔
اس کے بعد چوتھی روایت حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہکی پیش کی ، اور اس پر تعلیقا کہا کہ اس حدیث کے ظاہر ی الفاظ ایک سانس میں پینے کے جواز پر دلالت کرتے ہیں ۔
پھر اپنی رائے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ : روایات اس باب میں مختلف ہیں ، میرے نزدیک ایک سانس میں ،دو سانس میں ، تین سانس میں ، یا اس سے زیادہ میں پینا سب جائز ہے ،اس لئے کہ اختلاف روایات اس مسئلہ میں رخصت وسہولت پر دلالت کرتی ہیں ، اگرچہ تین سانس اختیار کرنا ہی زیادہ بہتر ہے۔
رہ گئی ممانعت کی احادیث تو ان سے تو برتن کے اندر سانس لینا مراد ہے ، اگر راحت کے لئے برتن کو منھ سے ہٹا کر سانس لیتا ہے ، تو یہ ممانعت میں داخل نہیں ہے ۔
فی امداد الفتاوى 4/103 :
اگر کسی شخص کو اس شدت سے تشنگی لگی ہو کہ وہ تین چار گلاس پانی پئے گا ، تو اس شخص کو ہر گلاس کے پانی کو تین سانس میں پینا چاہئے ، یا وہی تین چار گلاس جو ٹھہر ٹھہر کر بھر کر پئے گا تین سانس کے حکم میں سمجھے جائیں گے ؟
جواب : ہر گلاس کو تین سانس میں پئے ، کیونکہ ممکن ہے کہ دوسرا،تیسرا گلاس کچھ فصل سے پئے ، تو وہ مجموعی کئی بار کا پینا ہوگا ، اور سانس لینا ایک بار کے پینے میں ہے ۔
ہاں گلاس اگر بہت چھوٹا ہے اور دوسرا تیسرا گلاس لینے کے لئے پانی پاس ہے ، تو فصل معتد بہ نہ ہونے کے سبب تین گلاس تین سانس کے قائم مقام سمجھے جائیں ۔
وفي كشف الباري شرح البخاري 11/445 :
مستحب یہی ہے کہ پانی پینے کے درمیان تین سانس لئے جائیں ، ایک سانس میں پینا اگرچہ جائز توہے لیکن بہتر نہیں ، غٹ غٹ کرکے ایک سانس میں پینے کے طبی نقصانات بھی ہیں ۔اس میں بھی مستحب صورت یہ ہے کہ پہلے سانس میں تھوڑا پیا جائے ، دوسرے سانس میں اس سے کچھ زیادہ پیاجائے ، اور تیسرے سانس میں پورا پیا جائے۔البتہ سانس لیتے ہوئے منھ سے گلاس کوالگ رکھا جائے۔
جواز کی روایات اور مجیزین کے اقوال کا خلاصہ :
۱۔ اس باب میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہکی روایت اصل الاصول اور تمام مجیزین کی مستَدَل ہے ، اور اس سے امام مالک وغیرہ نے ایک سانس میں پینے کے جواز کو جو مستنبط کیا ہے ، اس کی صحت پر ابو المثنی کی روایت واضح ہے ، کہ اس کے شروع میں مروان نے سانس لینے کی ممانعت کے سلسلہ میں حضرت ابو سعیدرضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ہے ، پھر انہوں نے اصل مرفوع روایت بیان کی ، جس سے خود صحابی کاحدیث کی مراد بیان کرنا مترشح ہوتا ہے ۔
۲۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہکی روایت میں بھی ایک سانس میں پینے کے بعد ،برتن کے باہر سانس لینے کی تعلیم دی گئی ، پھر دوبارہ دوسرے سانس میں پینے کی طرف لوٹنے کو پینے والے کی رغبت پر موقوف رکھا گیا۔تو قید مذکور سے ایک سانس پر اقتصار کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے ۔
۳۔ ایک سانس میں پینے کے جواز کے قائلین میں سر فہرست یہ حضرات ہیں :
(۱) تابعین میں حضرت عطاء اور سعید بن المسیب جوازکے قائل ہیں ، کما فی ابن ابی شیبہ۔خصوصاحضرت عمر بن عبد العزیز ، جن کے رائے کی تحسین ابن عبد البر، ابن حجر وغیرہ شراح حدیث نے کی ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : اصل ممانعت برتن کے اندر سانس لینے کی ہے ، وہ بات اگر نہیں ہے تو سانس لینے کی غرض سے برتن کو منھ سے بار بار الگ کرنا مراد نہیں ہے ، ایک سانس میں پی کر سیرابی حاصل کرنا جائز ہے۔
(۲) امام مالک ، اور ان کے متبعین مالکی علماء اور شراح موطّأ خصوصا ابن عبد البر ، بلکہ امام زرقانی نےصاحب مفہم کےحوالے سے صاف وضاحت کی ہے کہ:برتن کو منھ سے دورکرنے کا مخاطَب صرف وہ شخص ہوگا ، جوغٹا غٹ پئے بغیرایک سانس میں سیراب نہیں ہوتا ہے ، ورنہ اگر سیراب ہوتا ہے تو وہ برتن ہٹانے کا مامورنہیں ہوگا ، بلکہ ایک سانس میں جتنی مقدار پینا چاہے پی سکتا ہے۔یہ صاحب مفہم کا قول ہے۔
(۳) حنابلہ میں سے امام اثرم صاحب (ناسخ ومنسوخ )ہیں۔
(۴) جواز کے قائلین بھی تین سانس میں پینے کو اولی واحسن قرار دیتے ہیں ۔
(۵) پینے کی بعض صورتیں تین سانس میں پینے کی قید سے مستثنی ہونی چاہئیں ، جیسے کوئی شخص پیاس بجھانے اور سیرابی حاصل کرنے کی غرض سے نہیں پیتا، بلکہ مثلا حلق خشک ہوجانے کی وجہ سے ایک آدھ گھونٹ سے تر کرنا چاہتا ہے ، یا گلے میں اٹک جانے والی چیزکو اتارنا چاہتا ہے، یا دواکی گولی لینا چاہتا ہے ، یا پینے کی مقدار کم ہے اور ایک جماعت باری باری پی رہی ہے ،تو اس طرح کی صورتوں میں تین سانس میں پینے کا پابند بنانا ، یا ایک آدھ گھونٹ پر اکتفا کو خلاف سنت قرار دینا ،میرے نزدیک روایات سے ناواقفیت اور عللِ احکام کونہ سمجھنے پر محمول ہوگا ۔
خلاصۃ المضمون ( لب اللباب ) :
(۱) پینے کی چیز پیتے ہوئے سانس لینے کےمتعلق ،احادیث میں پانچ باتیں وارد ہیں :
۱۔(التنفُّس في الإناء) پینے کے دوران برتن کے اندر سانس لینا ۔(چوپائے)
۲۔(عَبُّ الماء)یکبارگی حلق میں بڑی مقدار انڈیلنا،یعنی بڑے گھونٹ لینا۔(چوپائے،شیطان،درد جگر)
۳۔ (الشربُ نَفَساً واحداً)پوری مقدار ایک ہی سانس میں پی لینا۔(شیطان)
۴۔ (اِختِناثُ الأسقية)مشکیزہ وغیرہ کو الٹاکرکے اس کے دہانے سے منھ لگاکر پینا۔
۵۔(النَّفخُ في الطعام والشَّراب)کھانے پینے کی چیز میں پھونک مارنا۔
(۲) مذکورہ پانچ امور کی ممانعت دو معنوں کی طرف لوٹتی ہے:
پہلامعنی :سانس کا پینے کی چیز سے ملنا، یہ دو صورتوں میں ہوگا ،اول:برتن میں سانس لینے سے،ثانی:پھونک مارنے سے۔اور یہ معنی پانی کی کم یا زیادہ ہر طرح کی مقدار میں متحقق ہوسکتا ہے۔اور اس معنی کی کراہت متفق علیہاہے۔
دوسرا معنی :سانس روک کرغٹاغٹ پینا ،یہ مذکورہ بالا صورتوں میں سے تین صورتوں میں ہوگا (۲۔۳۔۴)۔لیکن اس کا تحقق پانی کی بڑی مقدارپینے میں ممکن ہے ۔اور اس دوسرے معنی کی کراہت پر اتفاق نہیں ہے ، جیسا کہ تفصیلا تیسرے نمبر کی روایات میں گذرچکا۔
(۳) مذکورہ پانچ امورمیں سے ، بعض کے ساتھ احادیث میں وجہ (علتِ )منع بھی مذکور ہے ،اور وہ تین وجوہ ہیں :چوپایوں یا شیطان کے پینے کے طریقہ سے مشابہت،اورتیسرا درد جگر کا اندیشہ۔لیکن ان وجوہ پر مشتمل روایات ضعیف ہیں ۔
(۴) جب پینے کے دوران برتن وغیرہ میں سانس لینا پایا نہ جائے ، اور مشروب کی مقدار بھی معمولی ہو ، تو اس صورت میں پینے والے کوتین سانس میں پینے کا پابند بنانا ، یا ایک سانس پر اقتصار کرنے کو خلاف سنت سمجھنا درست نہیں ہے ۔
(۵) عام حالات میں پیتے وقت تین سانس میں پینے کا اہتمام کرنا زیادہ بہترہے ، اورحضور ﷺ کی عادت شریفہ کے موافق۔واللہ اعلم
جمعه ورتبه العاجز:محمد طلحة بلال أحمد منيار