سوال : اگر کوئی کلمہ کی قسم کھائے تو اس سے قسم ہوگئی؟ اور اس کا کفارہ کیا ہوگا ؟؟
سائلہ : ام احمد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب باسم ملہمم الصواب
واضح رہے کہ کلمہ پڑھنا بذات خود قسم نہیں ہے البتہ اس کے قسم بننے میں نیت اور ارادے کا اعتبار ہے لہذا قسم کی نیت سے کلمہ پڑھ کر قسم کھائی تو قسم منعقد ہوجاتی ہے اور جہاں کلمہ پڑھ کر قسم کھانے کا عرف عام ہو تو وہاں بغیر نیتِ قسم کے ہی قسم ہوجائے گی.
“لما فی الھندیۃ:ولو قال : لا إلہ إلا اللہ لأفعلن کذا لایکون فلیس بیمین إلا أن ینوی یمینًا ، وکذلک سبحان اللہ ، واللہ أکبر لأفعلن کذا ، کذا فی السراج الوہاج ۔”
(الفتاویٰ الھندیۃ: الباب الثانی ،الفصل الاول،2/55)
قال الشیخ طاھر بن عبدالرشید البخاریؒ: وفی التجرید عن محمد لو قال لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ افعل کذا او سبحان اللّٰہ لیس بیمین اِلاَّ ان ینوی۔ (خلاصۃ الفتاویٰ: کتاب الایمان، الجنس الاول2/ 126)
(ومثلہ فی ردّ المحتار؛ج؍۳،ص؍۵۲ کتاب الایمان۔)
لہذا خلاف ورزی کی صورت میں کفار ہ واجب ہوگا.
قسم کا کفارہ یہ ہےکہ دس محتاجوں کو صبح شام پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے یا دس محتاجوں میں سے ہرمحتاج کو دو کلو گندم یا گندم کا آٹا یا اس کی قیمت دے دی جائے ،یا دس محتاجوں میں سے ہر ایک کو کپڑوں کا ایک ایک جوڑا دے دیا جائے ،اگركسي كو اس كي استطاعت نہیں ہے تو تین دن تک مسلسل روزے رکھے ۔
وهی أحد ثلاثۃ أشیاء … کسوۃ عشرۃ مساکین لکل واحد ثوب فما زاد وأدناہ ما یجوز فیه الصلاۃ أو إطعامهم والإطعام فیها کالإطعام فی کفارۃ الظهار هکذا فی الحاوی للقدسی…فإن لم یقدر علی أحد هذہ الأشیاء الثلاثۃ صام ثلاثۃ أیام متتابعات
( الفتاوى الہندیۃ : ۲/۶۱)
والله أعلم بالصواب
بنت محمود
دار الافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
۱4جمادی الثانی۱۴۳۹ھ
۴مارچ ۲۰۱۸ ء