فتویٰ نمبر:662
سوال : السلام عليكم
ایک شخص کی بیوی گھر سے ناراض ہو کر میکے چلی گی تقریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا دونوں فریقین نے کبھی بات تک نہیں کی اب اگر شوہر گھر لانے کے لیے راضی ہو تو کیا تجدید نکاح کرنا ہوگا اگر ایسا ہے توشریعت کتنےوقت کے بعد تجدید نکاح کا حکم لگاتی ہے جبکہ بیوی کے گھر چھوڑنے کے وقت شوہر نے کسی بھی قسم کےطلاق کے الفاظ نہیں کہے تھے۔
سائلہ : ام احمد
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب باسم ملہمم الصواب
زوجین کی محض دوری ولاتعلقی کی بنا پر نکاح نہیں ٹوٹتا جب تک نکاح ٹوٹنے کا کوئی شر عی سبب طلاق ، خلع وغیر ہ نہ پایا جائے لہذا صورت مسئولہ میں جب شوہر نےطلاق نہیں دی تو محض میاں بیوی کے درمیان بات چیت منقطع ہونے کی وجہ سے نکاح میں کوئی فرق نہیں آیا، نکاح بدستور باقی ہے ، شوہر کے لیے بیوی کو اپنے پاس رکھنے کا حق ہےاور بیوی کو شوہر کے پاس رہنے کا حق ہے، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔
“ہو رفع قید النکاح في الحال أو المآل بلفظ مخصوص۔”
(تنویر الأبصار علی ہامش الرد المحتار: ۴/۴۲۴ ،زکریا)
“أما رکن الطلاق فہو ہذہ اللفظۃ الصادرۃ من الزوج الخ۔”
(الفتاویٰ التاتارخانیۃ: ۴/ ۳۷۷ )
“ورکنہ لفظ مخصوص وتحتہ في رد المحتار ہو ما جعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح أو کنایۃ”
(شامي ۴:/ ۴۳۱ ،زکریا)
والله أعلم بالصواب
بنت محمود
دار الافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
۱۷جمادی الثانی۱۴۳۹ھ
۵مارچ ۲۰۱۸ ء