احتلام ہونے کی صورت میں روزہ کا حکم

السوال: ایک شخص کو احتلام ہوا،غیر عالم نے مسئلہ بتایا کہ روزہ ٹوٹ گیا ہے، اس شخص نے پانی پی لیا، درست مسئلہ بعد میں معلوم ہوا، صرف قضا ہے یاکفارہ؟

الجواب:باسم ربي الأكرم الذي علم بالقلم، علم الإنسان ما لم يعلم وصلى الله على نبيه الأكرم الأفخم!

اس میں صرف قضا ہے، کفار نہیں۔

اس گفتگو کے حوالے سے وہ امور جن میں روزے دار کو شبہ ہو سکتا ہے، تین زمروں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

1۔ وہ امور جن میں علما کے اختلاف کا شبہ پایا جاتا ہے، یعنی “شبهة خلاف العلماء”۔ جیسے بھول کے کھانے سے امام مالک کے ہاں روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیے اگر حنفی روزےدار نے بھول کر کھایا اور اس کے بعد جان بوجھ کر کھایا تو وہ محض قضا کرے گا، اس پر کفارہ نہیں۔ بلکہ فقہا یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر اسے مسئلہ معلوم تھا تب بھی اس پر کفارہ نہیں، کیونکہ علما کے اختلاف کا شبہ پایا جا رہا ہے۔

2۔وہ امور جن میں “شبهة الاشتباه” پایا جاتا ہے کہ ایک چیز جس سے روزہ نہیں ٹوٹا وہ، اپنے ظاہر میں اور شکل وصورت میں، کسی ایسی چیز کے مشابہ ہے جس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جیسے غلطی سے الٹی ہوئی اور روزے دار نے یہ سمجھا کہ روزہ ٹوٹ گیا تو اس پر قضا ہے کفارہ نہیں۔ چونکہ جانتے بوجھتے ہوئے منہ بھر کر قی کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے یہاں یہ اشتباہ ہو سکتا ہے کہ غلطی سے قی پر بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ یہ شبہ قابل اعتبار تب ہے جب روزے دار کو اس کا علم نہ ہو اور وہ اس گمان میں کھا لے کہ روزہ نہیں ٹوٹا۔ لیکن اگر اسے یہ مسئلہ معلوم ہو اور یہ یقین ہو کہ روزہ نہیں ٹوٹا، پھر بھی وہ جان بوجھ کر کھا لے، تو اب اس پر قضا کے ساتھ کفارہ بھی ہے۔ اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہاں اشتباہ تھا ہی نہِیں کہ اس کا اعتبار کیا جائے۔

3۔ اس کے بعد کچھ امور ایسے ہیں کہ ان میں نہ “شبهة الاشتباه” ہے نہ “شبهة الخلاف” ہے اس لیے اس میں اگر کسی بندے کو گمان ہو کہ ان سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے تو اس کے گمان کا بھی اعتبار نہیں، بلکہ اسے کفارہ ادا کرنا ہو گا۔ لیکن فقہائے کرام نے یہاں بھی کچھ سہولت رکھی اور فرمایا کہ اگر یہاں کسی حدیث کی بنیاد پر یا کسی عالم دین کی رائے پر روزے کو ٹوٹتا ہوا گمان کیا، تو اس بندے کو یہاں بھی چھوٹ دی جائے گی۔ البتہ یہاں یہ ضروری ہے کہ کسی عام دین سے مسئلہ پوچھا ہو یا کسی ظاہر حدیث کو دیکھ کر اسے شبہ ہوا ہو (جیسے غیبت کے باب میں)۔ حتی کہ فقہا یہاں تک فرماتے ہیں کہ اس نے کسی سے کوئی اس باب میں حدیث سنی لیکن وہ حدیث سرے سے ثابت ہی نہ تھی، تب بھی شبہ پیدا کرنے کے لیے یہ کافی ہے۔ بس یہ ہے کہ وہ اجماع کے وہ مسئلہ اجماع (احناف کے تصور اجماع) کے خلاف نہیں ہونا چاہیے

اب ہم اپنے زیر بحث مسئلے کی طرف آتے ہیں۔

فقہا کرام نے احتلام کو دوسرے زمرے میں شامل کیا اور فرمایا ہے کہ اس میں “شبهة الاشتباه” پایا جاتا ہے۔ اس لیے اگر کسی روزے دار کو رمضان کے روزے کے اثنا میں احتلام ہوا اور یہ سمجھ بیٹھا کہ روزہ ٹوٹ گیا اور اس کے بعد جانتے بوجھتے ہوئے کھا پی لیا، تو اس شبہ کی رعایت میں اس پر کفارہ نہیں، محض قضا ہے۔

جہاں تک عالم دین یا غیر عالم دین سے پوچھنے کی بات ہے اور یہ بات کہ “عامی کا فتوی مورث شبہ نہیں ہوتا”، اس کا تعلق صرف تیسرے زمرے سے ہے۔ جب کہ یہاں “شبهة الاشتباه” پہلے ہی سے متحقق ہے، اس لیے کسی عالم دین کے فتوے یا ظاہرحدیث کا شبہ ہونا ضروری نہیں۔ اور یہ وجہ ہے فقہا نے یہ بحث کہ “عامی کا فتوی مورث شبہ نہیں ہوتا”، تیسرے زمرے میں کی ہے اس سے پہلے دونوں زمروں میں کی ہی نہیں۔

اس لیے یہاں محض قضا ہے، کفارہ نہیں۔

==========================

في الدر المختار، كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم ومالايفسده:

(أو أكل) أو جامع (ناسيا) أو احتلم أو أنزل بنظر أو ذرعه القيء (فظن أنه أفطر فأكل عمدا) للشبهة – ولو علم عدم فطره لزمته الكفارة إلا في مسألة المتن فلا كفارة مطلقا على المذهب لشبهة خلاف مالك

في رد المحتار عليه:

(قوله: للشبهة) علة للكل قال في البحر: وإنما لم تجب الكفارة بإفطاره عمدا بعد أكله أو شربه أو جماعه ناسيا؛ لأنه ظن في موضع الاشتباه بالنظير، وهو الأكل عمدا؛ لأن الأكل مضاد للصوم ساهيا أو عامدا فأورث شبهة وكذا فيه شبهة اختلاف العلماء، فإن مالكا يقول بفساد صوم من أكل ناسيا وأطلقه فشمل ما لو علم أنه لم يفطره بأن بلغه الحديث أو الفتوى أو لا وهو قول أبي حنيفة، وهو الصحيح وكذا لو ذرعه القيء وظن أنه يفطره فأفطر، فلا كفارة عليه لوجود شبهة الاشتباه بالنظير فإن القيء والاستقاء متشابهان؛ لأن مخرجهما من الفم وكذا لو احتلم للتشابه في قضاء الشهوة وإن علم أن ذلك لا يفطره فعليه الكفارة؛ لأنه لم توجد شبهة الاشتباه ولا شبهة الاختلاف اهـ.

(قوله: إلا في مسألة المتن) وهي ما لو أكل وكذا لو جامع أو شرب؛ لأن علة عدم الكفارة خلاف مالك وخلافه في الأكل والشرب والجماع كما في الزيلعي والهداية وغيرهما ح (قوله: مطلقا) أي علم عدم فطره أو لا

في الدر المختار، كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم ومالايفسده:

(أو احتجم) أي فعل ما لا يظن الفطر به كفصد وكحل ولمس وجماع بهيمة بلا إنزال أو إدخال أصبع في دبر ونحو ذلك (فظن فطره به فأكل عمدا قضى) في الصور كلها (وكفر) لأنه ظن في غير محله حتى لو أفتاه مفت يعتمد على قوله أو سمع حديثا ولم يعلم تأويله لم يكفر للشبهة وإن أخطأ المفتي ولم يثبت الأثر إلا في الأدهان وكذا الغيبة عند العامة زيلعي لكن جعلها في الملتقى كالحجامة ورجحه في البحر للشبهة

في الفقه الإسلامي وأدلته، الصيام والاعتكاف، المبحث السابع: ما يفسد الصوم ومالايفسده، المالكية، الأول: ما يفسد الصوم ويوجب القضاء فقط:

والخلاصة: إن من أفطر عامداً في جميع أنواع الصيام، فعليه القضاء، ولا يكفِّر إلا في رمضان، ومن أفطر في جميعها ناسياً، فعليه القضاء دون الكفارة، إلا في التطوع فلا قضاء ولا كفارة.

والله أعلم

كتبه

مشرف بيگ اشرف

الجامعة الفاروقية، جي تیرہ (G-13)،

اپنا تبصرہ بھیجیں