محمد سلیم قریشی
ہم سردرد کا علاج کرانے ڈاکٹر کے پاس عرصے سے آجا رہے تھے لیکن شفا کا دوردور پتا نہیں تھا۔ ایک دن ڈاکٹر صاحب نے پوچھا ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کی بیوی بد مزاج ہے؟‘‘ ہم نے کہا: ’’کیا ایسی بیوی بھی ہوتی ہے جو بد مزاج نہ ہو‘‘۔ ڈاکٹر صاحب بھی اپنی طرز کے ایک ہی تھے بولے: ’’آپ درست کہتے ہیں اچھی بیوی اور گیس تو اب پیٹوں میں ہی رہ گئی ہیں‘‘۔ یاد رہے ان دنوں گیس کی لوڈ شیڈنگ چل رہی تھی۔بدمزاج بیوی سے دور بھاگنے میں سو جوتے بھی گھس جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن قدرے تصرف سے بیان کیا جائے تو مسئلہ وہی ہے جو اسد اللہ خان غالب کہہ گئے ہیں کہ: ’’موت سے پہلے آدمی بیوی سے نجات پائے کیوں‘‘۔ گھریلو بدامنی، بے چینی، اضطراب اور سردرد کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ اکثر ڈربوں میں مرغ کے بجائے مرغی بانگ دے رہی ہے۔ ڈربے میں امن کیسے ممکن ہے۔ پہلے بیوی رات کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ موبائل فون کی ایجاد کے بعد چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ہوگئی ہے۔ آپ کہیں بھی ہوں بیوی کی پہنچ سے باہر نہیں۔
ہمارے مدرسے میں ایک قاری صاحب ہیں، نابینا ہیں۔ پچھلے دنوں ان کی شادی ہوگئی۔ اب پچھتا رہے ہیں کہتے ہیں کاش میں بہرہ ہوتا۔
ایک صاحب بڑے اکڑو تھے۔ ہونے والی بیوی کو ان کی اس خوبی کا پتا تھا۔ شادی کی رات کمرے میں داخل ہوئے تو اکڑکر بولے: ’’بیگم تمہارا حق مہر پچاس ہزار ہے ابھی لوگی یا بعد میں‘‘۔ کہنے کو تو کہہ دیا شادی کے اخراجات کے بعد جیب میں بمشکل ہزار پانچ سو پڑے تھے۔ لیکن اکڑ فوں دکھانے کی عادت!
بیگم بولی’’ابھی دے دیجیے‘‘ بیگم کی اس خلاف توقع بد لحاظی پر گڑ بڑا گئے۔ باہر آئے۔ سامنے ان کے باپ بیٹھے تھے۔ کارڈ بٹ گئے تھے۔ کل ولیمہ تھا اور جیب میں ٹکا نہیں۔ غصے میں بھن رہے تھے کہ یار رشتے دار کوئی مدد پر آمادہ نہیں۔ سب دور دور بھاگ رہے ہیں۔ یہ بولے: ’’ابا لاؤ پچاس ہزارنکالو، آپ کی بہو مہر کے پچاس ہزار ابھی طلب کررہی ہے۔‘‘ لوگوں کا ہنستے ہنستے براحال ہو گیا۔ باپ جوتا اٹھائے پیچھے پیچھے تھے اور یہ آگے آگے۔ بیوی نے آکر باپ سے چھڑوایا۔
بیوی کی بد مزاجی کا ایک سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ شوہر وہ ڈائری پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں جن میں اچھے اچھے رومانٹک جملے درج ہوتے ہیں۔ خدا کے نیک بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا۔
شادی سے پہلے وہ بس میں نہیں ہوتی جس کی یاد میں ڈائری میں رومانٹک جملے لکھے تھے شادی کے بعد جو بس میں ہوتی ہے وہ رومانس اور رومانٹک جملوں نہیں بلکہ ہر طرح کے جملوں کا اصطبل ہوتی ہے۔
ایک صاحب شادی کی پہلی رات کُل وقت بیوی سے رومانٹک جملے بولتے رہے۔ میں تمہارے لیے آسمان سے تارے توڑ لاؤں گا۔ تمہاری خاطر اپنی جان دے دوں گا وغیرہ وغیرہ۔ صبح ناشتے پر بیٹھے تو بیوی کو بات بے بات ایسی پیار بھری نظروں سے دیکھتے کہ بس۔ اماں سمجھ گئیں کہ ایک ہی رات میں کلموہی کا جادو چل گیا ہے۔
بولیں: ’’بیٹا فرض کرو ایک کشتی میں تمہاری بیوی، میں اور تم بیٹھے ہوں اور کشتی ڈوب جائے تو پہلے کسے بچاؤ گے‘‘۔ اب تو وہ صاحب پسینہ پسینہ ہوگئے۔ اگر یہ کہتے کہ بیوی کو بچاؤں گا تو اماں کیا کہیں گی جنہوں نے باپ کے مرنے کے بعد دن رات مشقت کرکے انہیں اس مقام تک پہنچایا۔ اگر اماں کو بچانے کا کہتا ہوں تو بیوی کیا کہے گی جس سے ساری رات پیار بھری باتیں کرتے رہے۔ ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھاتے رہے۔ بیوی شوہر کی پریشانی بھانپ گئی۔ نرمی سے بولی’’اماں کو بچالینا‘‘ بولے ’’اماں کو کیوں؟ تمہیں کیوں نہیں؟‘‘ بیوی بولی ’’میری فکر نہ کرو مجھے تو دوسرے لوگ بھی بچانے آجائیں گے۔‘‘
سقراط اور شیخ سعدی سے لے کر غالب تک بیش تر دانشور، ادیب اور شاعر اس لیے جینیس اور نابغہ روزگار تھے کہ ان کی بیویاں بد مزاج تھیں۔ مارک ٹوئن سے کسی نے پوچھا ’’آپ اتنا اچھا مزاح کیسے تخلیق کرلیتے ہیں‘‘ مارک ٹوئن نے جواب دیا: ’’میں جو کچھ لکھتا ہوں اپنی بیگم کو ضرور پڑھواتا ہوں۔ جن جن فقروں پر وہ زور زور سے قہقہہ لگا کر ہنستی ہے ان فقروں کو مضمون سے نکال دیتا ہوں۔ جن جملوں پر وہ بالکل نہیں ہنستی انہیں رہنے دیتا ہوں ان پر ساری دنیا ہنستی ہے۔‘‘
بدمزاج بیویوں میں ایک خامی یہ ہوتی ہے کہ مرنے سے پرہیز کرتی ہیں۔ نہ شوہر پر مرتی ہیں اور نہ خود ہی مرتی ہیں۔ غالب نے ایک دوست کی بیوی کے مرنے پر لکھا تھا ’’تم خوش قسمت ہوکہ بیڑی کٹ گئی یہاں تو برسوں سے ایک ہی بیڑی پاؤں میں پڑی ہے۔‘‘
ایک شخص ایک ملنگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بڑی عاجزی سے کہا ’’ملنگ بابا میری بیوی ہر وقت مجھ سے لڑتی جھگڑتی رہتی ہے اس کا کوئی حل بتاؤ‘‘ ملنگ بابا پہلے تو ہنسے، پھرروئے پھر بڑے دل گیر لہجے میں بولے ’’اگر اس کا کوئی حل ہوتا تو میں ملنگ ہوتا۔‘‘
ہمارے ایک دوست ہیں۔ اچھے خاصے عمر رسیدہ۔ جوان جوان بچے ہیں۔ چار لڑکے اور تین لڑکیاں۔ پھر بھی انہیں گلہ ہے بیوی خوش مزاج نہیں۔ آئے دن بیوی کی بد مزاجی کا گلہ کرتے رہتے ہیں۔ ان کے بڑے بیٹے کہتے ہیں ’’ایک دن اباجی نے مجھے اسکوٹر پر اپنے پیچھے بیٹھنے کا کہا۔ تھوڑی دیر میں ایک گھر کے سامنے رکے اور اندر گھستے چلے گئے۔ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر تھوڑی دیر بعد ایک لڑکی کے ساتھ نمودار ہوئے۔ لڑکی کے ہاتھ میں شربت کا گلاس تھا جو اس نے مجھے پیش کردیا۔ زندگی میں پہلی بار ابا جی پر پیار آیا۔ بالآخر اباجی کو ہمارا خیال آہی گیا۔ ہمارے لیے لڑکی پسند کرہی لی۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اباجی کی آواز آئی، ’’یہ تیری ماں ہے، سلام کر اور دیکھ گھر جاکر اپنی اماں کو موقع محل دیکھ کر بتا بھی دینا اور سمجھا بھی دینا‘‘۔ موقع محل تو کیا دیکھنا تھا ہم نے گھر آتے ہی دھماکا کردیا۔ اماں نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ ابا لجاجت سے بولے ’’یتیم لڑکی تھی۔ یتیم کے سر پر ہاتھ رکھنا سنت ہے۔‘‘ اماں غصے میں بولیں ’’گھر میں تین تین جوان بیٹے ہیں ان میں سے کسی سے سنت پوری کروا دیتے۔ ان سے یتیم کے سر پر ہاتھ رکھوا دیتے‘‘۔ اس بات کو کئی برس گزر گئے۔ ایک دن دوست کے وہی صاحبزادے پھر ملے۔ ہم نے پوچھا ’’سناؤ ہمارے یار کا کیا حال ہے‘‘ بولا ’’پچھتا رہے ہیں۔ کہتے ہیں میرا خیال تھا دونوں میں سے ایک ساتھ چھوڑ جائے گی لیکن لگتا ہے دونوں بیوہ ہونے کے بعد ہی ساتھ چھوڑیں گی۔‘‘
ایک صاحب نے پسند کی شادی کی۔ ان کا تعلق اس مکتب فکر سے ہے جو جا بے جا ’’میٹھے میٹھے‘‘ کا لاحقہ لگاتے ہیں۔ شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی سے متعلق کہا کرتے تھے ’’ایسی میٹھی میٹھی عورت ہم نے آج تک نہیں دیکھی‘‘۔ ہمارا گمان تھا شادی کے بعد بہت خوش ہوں گے۔ پوچھا تو بولے’’عورت کتنی ہی میٹھی کیوں نہ ہو اس میں اتنا زہر تو ہوتا ہے کہ ایک مرد کا کام تمام کرسکے۔‘‘ مسئلہ یہ ہے کہ بیوی سے بڑا کوئی مسئلہ نہیں لیکن یہ مسئلہ ہر شخص شادی کے بعد جانتا ہے۔
صاحبو! یہ سب باتیں درست لیکن حقیقت وہی ہے جو علامہ اقبال کہہ گئے ہیں’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔‘‘
عربی محاورہ ہے ’’پرانی گندم، تازہ مکھن، توانا گھوڑا اور خوبرو عورت پاس ہو تو یہ دنیا جنت سے کم نہیں‘‘۔
آج کل یوں کہا جاسکتا ہے کہ برانڈڈ آٹا، امپورٹڈ مکھن توانا بینک بیلنس اور خوبرو عورت پاس ہوتو یہ دنیا جنت سے کم نہیں۔
bahut acha