سوال: جسم کے کسی حصے پر ایلفی لگ جائے تو غسل ہوجائے گا ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدۃ ومصلیة
اگر بدن میں کوئی چیز ایسی لگی ہوئی ہوجوبدن تک پانی کے پہنچنے سے مانع ہوتو اس کا دور کرناضروری ہے چونکہ غسل میں تمام بدن میں پانی پہنچانا فرض ہے لہذا اگر جسم کے کسی حصے پر ایلفی لگ جائے تو اصل حکم اس کو چھڑانے کا ہے لیکن اگر پوری کوشش کے باوجود کچھ حصہ رہ جائے تو ضرورت اور حرج کی وجہ سے غسل درست ہوجائے گا ۔
“واتفقوا على ازالة كل حائل يمنع وصول الماء
الى ماتحته كعجين وشمع وعماص في عينه الا أن الحنفية قد اغتفروا للصناع ما يلصق برؤوس اناملهم تخت الأ ظافر إذا كان يتعذر عليهم ازالته دفعا للحرج “
( الفقه على المذاهب الأربعة ” 1/۹۳ )
وفی الھندیة ”
“وفي الجامع الصغیر: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي یبقی في أظفارہ الدرن، أو الذي یعمل عمل الطین أو المرأۃ التي صبغت إصبعہا بالحناء أو الصرام أو الصباغ قال: کل ذٰلک سواء یجزیہم وضوء ہم إذ لایستطاع الامتناع عنہ إلا بحرج، والفتوی علی الجواز”۔
(الفتاوی الہندیہ : ۱/۴)
“ویعفی أثر شق زوالہ بأن یحتاج في إخراجہ ۔ “
(مجمع الأنہر: ۱؍۹۰)
واللہ ٲعلم بالصواب
بنت محمود
دار الافتاء صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر
۱۹ جمادی الٲولی ۱۴۳۹ ھ
۶فروری ۲۰۱۸ ء