دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:107
سوال : کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی موٹر سائیکل کم قیمت مثلا 25000 روپے پر اس طریقے سے فروخت کرتا ہے کہ یہ قیمت معاہدہ کرتے وقت وصول کرے گا اور ا ور 45 دن بعد موٹر سائیکل کی ادائیگی کرے گا جبکہ موٹر سائیکل کی بازاری قیمت تقریباً 45000 روپے ہے توکیامعاملہ شرعاً جائز ہے ؟
کیا اس معاملہ کو بیع سلم بنایاجاسکتا ہے
نیز اگر یہ صورت جائز نہیں توکوئی متبادل صورت ہوتو اس کی رہنمائی فرمائیں ۔
جزاک اللہ۔
والسلام محمد عثمان میانوالی
وضاحت : سوال میں ذکر کردہ معاملہ میں فروخت کنندہ اور خریدار کے درمیان یہ بات طے ہوئی ہے کہ 45 دن کے بعد خریدار کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ چاہے تو وہ حسب معاملہ سابقہ موٹر سائیکل فروخت کنندہ سے وصول کرے یا پھر وہی موٹر سائیکل زیادہ قیمت پر مثلا ً25000 کی 30000 میں فروخت کنندہ کو فروخت کردے ،ا س طرح خریدار کو نفع ہوگا ۔ پھر اس معاہدہ کے 45 دن بعد فروخت کنندہ موٹر سائیکل اور اس کے کاغذات خریدار کے سامنے کرکے وہی اختیار دیتا ہے کہ چاہے تو موٹر سائیکل وصول کرلے یا پھر اسے زیادہ قیمت پر فروخت کردے ۔ یعنی فروخت کنندہ صرف تخلیہ کر کے یہ اختیار دیتا ہے ۔ا کثر لوگ موٹر سائیکل فروخت کنندہ کو دوبارہ فروخت کردیتے ہیں تاکہ نفع حاصل کیاجاسکے ۔ا ب سوال یہ ہے کہ آیا مذکورہ بیع شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟
الجواب حامداومصلیاً
سوال میں جو صورت مذکورہ ہے، اگر اسے اختیار کیاجائے کہ کم رقم ( مثلا 25000 روپے ) دے کر زیادہ رقم ( مثلا ً 30000 روپے ) وصول کی جائے ، موٹر سائیکل کی خرید فروخت کا عقد مقصود نہ ہو تو اس صورت میں مذکورہ معاملہ جائز نہیں ہے ، کیونکہ یہ ایسا ہی ہے جیسے قرض دے کرا س پر ضافی رقم ( نفع ) وصول کی جائے جو کہ سود ہونے کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہے اور سود حرام ہے ۔
اور اگر مذکورہ معاملہ سے باقاعدہ موٹر سائیکل خریدنا مقصود ہوتو اس صورت میں مذکورہ معاملہ کی فقہی تکییف ” بیع سلم ” سے ہوسکتی ہے مگر پھر یہ ضروری ہے کہ ا س معاملہ میں ” بیع سلم ” کی تمام شرائط پائی جائیں یعنی موٹر سائیکل کی قسم ،ا س کا ماڈل ، رنگ اور دیگر تمام مطلوبہ صفات رب السلم ( خریدار) اور مسلم الیہ ( فروخت کنندہ ) کے درمیان اس طرح متعین ہوں کہ بعد میں کسی نزاع اور اختلاف کا خطرہ نہ رہے ۔
لما فی الفتاویٰ الھندیہ ۔ (3/178)
محمد زبیر عفا اللہ عنہ
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی