5 مہتمم مدرسہ  کے مختلف سوالات

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:118

الجواب حامداومصلیاً

  • سوال میں ذکر کردی تفصیل اگر واقعۃً درست ہے  اور آپ مدرسہ  کے مہتمم ہونے کی حیثیت سے  باقاعدہ پابندی  کے ساتھ مدرسہ ہی کے کام میں مصروف  ہوتے ہیں اور اپنے ذاتی  کام  کے لیے  آپ کو بالکل بھی وقت  نہیں  ملتا  اور مذکور  تنخواہ  میں آپ کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہے  تو ایسی صورت  میں مدرسہ  کی  انتظامیہ  کمیٹی  اگر آپ کی ذمہ داریوں کو دیکھتے  ہوئے اپنے  مدرسہ کے فنڈ میں  بھیا س کی گنجائش ہوتو ایسی  صورت میں  آپ کی تنخواہ  میں مناسب  حد تک اضافہ کیا جاسکتا ہے ، اگرا نتظامیہ  کمیٹی  نہیں ہے تو بنالینی چاہیے  اور باہمی مشورہ  سے تنخواہ ،مقرر کرنے  کے لیے اضافہ  کے  لیے کوئی ضابطہ  یا طریقے  کار طے  کرنا چاہیے ، لیکن  اپنی تمام تر ضروریات  ، مدرسہ  کے فنڈ  سے پورا کرنے کی اجازت  نہیں ۔ یہ بھی واضح  رہے کہ چونکہ  آپ تدریس  بھی کررہے ہیں اور اہتمام  کی خدمت  بھی انجام  دے رہے ہیں ،ا س لیے  بحیثیت  مدرس وہ تنخواہ لے سکتے ہیں  جو آپ جیسے دوسرے اساتذہ کو مل رہی ہو اور اہتمام  کی خدمت   کا معاوضہ علیحدہ  سے مقر ر کیاجاسکتا ہے جو عرف  اور مدرسہ  کی مصلحٹ  کے مطابق ہو۔ ( متعلقہ عبارات: 1 تا 5 )
  • واضح رہے کہ ایڈوانس ( پیشگی ) تنخواہ اعتبار  سے ” قرض ”  ہے ،ا ور مدرسہ  کے مال سے قرض  لینے اور  دینے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے جو سوال نمبر ( 5،6)  کے جواب میں آگے  آرہی ہے۔
  • مدرسہ میں چندہ دینے والوں کا اصل مقصد چونکہ اس  چندہ  کو اس کے  مصرف  تک پہنچانا ہے۔لہذا اس چندہ  کی رقم کو تجارت  میں لگانا جائز نہیں  ہے ،اس سےا جتناب  کرنا ضروری  ہے، کیونکہ اس طرح  کرنے سے چندہ  کی رقم مصرف  تک پہنچانے   میں بلا وجہ تاخیر  ہوگی ، البتہ   اگر چندہ  کی رقم  مدرسہ فنڈ  سے  واقعۃ ً زائد ہو اور فی الحال  اس کی کوئی ضرورت   بھی نہ ہو تو پھر چند شرائط کے ساتھ ا  س زائد  رقم کو تجارت  میں لگانا جائز ہے، وہ چند  شرائ درج ذیل  ہیں :

1۔ چندہ لینے والوں کی طرف سے مدرسہ کے متولی کو اس  کی اجازت  ہو۔

2۔ مدرسہ کی منتظمہ کی طرف  سے بھی اجازت  ہو،ا گر  کمیٹی  نہ ہوتو اس کے لیے الگ سے کوئی کمیٹی  تشکیل دے کر  اس کی منظوری  لی گئی ہو۔

3۔جو رقم مدرسہ یا طلباء کی حاجت  کی ہو،  اسے مدرسہ  میں خرچ  کایاجئے  ،ا یسی رقم   کاروبار میں لگانا جائز نہیں ، ہاں  جو رقم  طلبہ  اور مدرسہ  کی حاجات  سے بالکل  زائد ہو، بے کار  پڑی ہوئی  ہو،  اسے شرائط  کے  ساتھ لگانے  کی گنجائش ہے ۔

 4۔  زائد رقم  کاروبار میں  لگانا مدرسہ  کے مفاد میں ہو، یعنی  اصل مقصد  مدرسہ کے مال  میں اضافہ  ہو یا مدرعسہ کی رقم ضائع  ہونے سے محفوظ  رکھنا ہو، کسی ذاتی مقصد کے لیے نہ ہو۔  

5۔زائد رقم  تجارت  میں لگائی جائے، جس میں نفع  کا تقریبا ً یقین ہو۔

6۔ جو زائد  رقم تجارت میں  لگائی جائے  ،ا س کا نفع  مدرسہ  کی ضرورت  اور مصالح  ہی میں خرچ  کیاجاتا ہو۔

7۔ رقم  اتنی مدت   تک تجارت  میں   نہ لگائی جائے  جس سے نقصان  کا اندیشہ ہوتا ہو۔

مذکورہ بالا شرائط  کے ساتھ  مدرسہ  کے فنڈ  کو تجارت  میں لگانا جائز ہے، تاہم یہ بات واضح رہے کہ جب  تک زکوٰۃ وصدقات  واجبہ  کی رقم  کی شرعی تملیک نہ ہوجائے ،ا س وقت تک  ان کو تجارت  میں لگانا جائز نہیں  ہوگاا ور اس طرح  زکوٰۃ بھی ادا  نہٰں ہوگی ۔ ( ماخذہ التبویب  ، بتصرف   : (3/1434 ( متعلقہ عبارات  : 6 تا 10)

  • صورت مسئولہ  میں اگر انتظامیہ  کمیٹی  کی اجازت سے کمیشن  پہلے طے ہوا تھا اور وہ عرف  سے زیادہ نہیں تھا تو مدرسہ  سے وہ کمیشن طے  لینا جائز ہے۔ لیکن اگر پہلے  سے انتظامیہ  کمیٹی کی اجازت  سے کمیشن  طے نہیں ہوا تھا تواب مفرسہ  سے انتظامیہ  کی اجازت کے بغیر  کمیشن لینا جائز نہیں ، البتہ  آپ زید  سے بطور  کمیشن  اجرت  باہمی رضامندی  سے طے  کرکے لے سکتے ہیں ، خواہ عرف سے زیادہ ہو یا کم ۔ ( متعلقہ عبارات : 11تا 13)

(5،6)  مدرسہ کی رقم اسی مصرف  میں خرچ  کرنا لازم ہے جس مصرف  کے لیے وہ دی گئی  ہے  ، یہ ذاتی مقاصد  کے لیے نہ خود قرض لینا جائز ہے ، نہ کسی دوسرے طور  قرض دینا جائز ہے، کیونکہ چندہ دینے والوں نے یہ رقم  مدرسہ کے لیے دی ہے ، کسی کو قرض  دینے کے لیے نہیں  دی ، اس  لیے جو رقم جس مصرف  کے لیے دی ہے ،  وہ  رقم  وہیں استعمال کرنا لازم ہے ، البتہ  اگر قرض  دینے کی سخت   ضرورت  ہو اور درج ذیل  شرائط پائی جائیں  تو مدرسہ  کی رقم  قرض   میں دینے کی گنجائش ہے ، وہ شرائط  درج ذیل  ہیں :

1۔ مدرسہ کی رقم  مدرسہ کی ضروریات  سے زائدہو۔

2۔مدرسہ  کے قواعد وضوابط  میں اس کی اجازت  ہو یا بروقت   مجلس منتظمہ  سےا س کی اجازت لی جائے ۔

3۔ قرض ضائع  ہونے  کا اندیشہ  نہ ہو، نیز ضرورت  پڑنے  پر فوراً واپس مل جائے ۔

4۔قرض صرف مدرسہ  کے افراد ہی کو  دیاجائے  ۔

5 ۔ قرض دینے میں مدرسہ ہی کا فائدہ اور مصلحت ہو ، یعنی قرض   نہ دینے کی بنسبت  قرض دینا مدرسہ  کے لیے فائدہ مند ہو، ذاتی  تعلقات  یا ذاتی مفاد  پیش نہ ہو۔

6۔  قرض لینے والے سے  معتبر  ومعتمد  ضامن بھی  لیاجائے اگر قرض  لینے والا ادائیگی نہ کرے تو وہ ادا کرے ،

7۔تملیک  شدہ رقم یا عام  عطیات  سے قرض  دیاجائے ، زکوٰۃ یا صدقات واجبہ نہ ہوں ۔

ا ور سب سے بہتر ہے کہ  قرض دینے کے لیے علیحدہ  فنڈ قائم کیا جائے جس سے مندرجہ  بالا شرائط کے  مطابق  قرض دیاجائے  ۔ ( ماخذہ التبویب  :  1602/63) (  متعلقہ  عبارات  :  287/17(  

  • عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری۔ (17/287)
  • حاشیۃ ابن عابدین ( رد المختار ) – (713/6)
  • تکملۃ حاشیۃ رد المختار ۔ ( 1/471)
  • الاشباہ والنظائر ۔ حنفی۔401/1)
  • تنقیح الفتاویٰ  الحامدیہ ۔ (3/84)
  • تفسیرا لقرطبی ۔ ( 7۔ 120 )
  • دار الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام ۔ ( 1/96)
  • الفتاوی الھندیۃ ۔ ( 5/320)
  • البحر الرائق ،دارالکتاب  الاسلامی۔ ( 5/ 233)
  • الفتاوی الھندیۃ ۔ ( 2/ 417)
  • الدر المختار ۔ ( 4/560)
  • وحاشیۃ ابن عابدین ( رد المختار  ) 4/540)
  • در الحکام فی شرح  مجلۃ الاحکام ۔ ( 1/272)
  • الفتاوی الھندیہ ۔ (2/480)
  • وفی الخلاصۃ ۔ (4/423)
  • وحاشیۃ ابن عابدین ( رد المختار  ) ۔5/418)
  • البحر الرائق ،ادرالکتب الاسلامی ۔ ( 5/ 259)
  • تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ ( 7/324

واللہ  تعالی اعلم بالصواب

  عبدالوہاب عفا اللہ عنہ

دارالافتاء  جامعہ  دارالعلوم کراچی

5/ جمادی الاولیٰ/1436ھ

عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:

https://www.facebook.com/groups/497276240641626/544280569274526/

اپنا تبصرہ بھیجیں