دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:95
الجواب حامداومصلیا
واضح رہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک محلہ کی مسجد میں جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے اور کتب فقہ میں مسجد محلہ اس مسجد کوکہا گیاہے جس کا امام ومؤذن مقرر ہوا ور وہاں کی جماعت بھی مقرر ہو یعنی ا س کے مقتدی متعین ہوں ۔
اور مسجد میں محلہ میں جماعت ثانیہ کے مکروہ ہونے کی فقہائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے چند وجوہات بیان فرمائی ہیں :
( الف ) تقلیل جماعت
( ب) لوگوں کی جماعت اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنے میں سستی
(ج) افتراق کی صورت
عربی عبارات منسلک پی ڈی ایف میں موجود ہے !
لہذا موٹروے اور ہائی وے کے ذریعے ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے وقت راستے میں واقع پٹرول اور ریسٹورنٹ کی مساجد اور اسی طرح راستے میں واقع اسٹیشن ،ا ڈہا ور ائیر پورٹ کی مساجد اگر کسی شہر میں ہوں یا ایسی جگہ ہوں جہاں آبادی ہو اور ان مساجد میں امام ومقتدی مقرر ہوں تو ان مساجد میں جماعت ثانیہ مکروہ تحریمی ہے کیونکہ ایسی مساجد پر محلہ کی تعریف صادق آتی ہے اور کراہت کی مذکورہ بالا وجوہات پائی جاتی ہیں ۔
اور اگر مذکورہ جگہوں کی مساجد شہرسے باہر ہوں یا ایسی جگہ واقع ہوں جہاں آبادی نہ ہو تو اگرچہ ان مساجد میں امام ومؤذن مقرر ہوں اور آس پاس کے چند نمازی بھی مستقل نماز پڑھنے والے ہوں تو ایسی مساجد میں جماعت ثانیہ مکروہ نہیں کیونکہ عموماً ان مساجد میں ہر نماز کے وقت جو جماعتیں ہوتی ہیں ان میں اتنی کثرت کےساتھ مقتدیوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے کہ ان کو جماعت معلومہ نہیں کہاجاسکتا جس کی بناء پر ایسی مساجد کو مسجد محلہ کہاجاسکے نیز ایسی مساجد میں جماعت ثانیہ کے مکروہ ہونے کی مذکورہ بالا وجوہات بھی نہیں پائی جاتیں البتہ ایسی مساجد میں جماعت ثانیہ ، جماعت اولیٰ کی ہئیت سے ہٹ کر ادا کرنا بہتر ہے جس کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں جس جگہ جماعت اولیٰ ہوچکی ہو اس جگہ سے کچھ ہٹ کر دوسری جگہ جماعت ثانیہ ادا کی جائے اور اگر مسجد سے باہر نماز کی مناسب جگہ ہو تواحتیاط کا پہلو ا س میں ہے کہ اس جگہ نمازادا کی جائے ۔
2) راستے میں واقع ایسی مساجد جن میں امام اور مؤذن نیز مقتدی مقرر اور متعین نہ ہوں ،ان میں جماعت ثانیہ جواب میں ذکر کردہ عبارات کی روشنی میں بلاکراہت درست ہے ۔
3) مذکورہ سوال کا جواب حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی صاحب رحمہ اللہ نے امداالاحکام میں مفصلا دیاہے۔
( تمام عبارات منسلک پی ڈی ایف فائل لنک میں )
خلاصہ ان عبارات کا یہ ہے کہ مسجد محلہ میں جس امام اور مؤذن مقرر ہے، دوسری جماعت کرنا مکروہ تحریمی ہے ، خواہ ندون اذن ثانی کے ہو یا مع اذان واقامت کے، دلائل کا مقتضی یہی ہے اور ظہیر یہ اور بدائع وغیرہ سے بھی اطلا ق کراہت سے مستفادہ ہوتا ہے ، گو بعض فتاویٰ میں بدون اذن ثانی کے جماعت ثانیہ کو مباح لکھا ہے ، مگر دلائل پر نظر کرکے قید ضعیف معلوم ہوتی ہے ۔ا ور اگر ا س کو تسلیم بھی کرلیاجائے تو اباحت سے مراد کراہت تحریمی کی نفی ہوگی ، کراہت تنزیہہ کی نفی مراد نہیں ،
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
عربی حوالہ جات اور مکمل فتویٰ پی ڈی ایف فائل میں حاصل کرنے کے لیے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://www.facebook.com/groups/497276240641626/539991516370098/