سوال : سورج گرہن کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اس وقت حاملہ عورت کے لئے کچھ الگ ہدایات ہیں یا اس کے لئے بھی وہی حکم ہے جو عام مسلمانوں کے لئے ہے؟
جواب : سورج گرہن کے وقت اس کی شعاؤں سے حاملہ عورت اور آنکھوں کو نقصان پہنچنے کا تعلق طب سے ہے نہ کہ شریعت سے، چنانچہ بعض اطباء کہتے ہیں کہ اس وقت حاملہ عورت نہ کھلی فضا میں نکلے، نہ آسمان کی طرف دیکھے، نہ دھار والی چیز استعمال کرے اور نہ آگ کے پاس جائے کہ اس سے حمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اس لئے ان کی ہدایت کو شرعی حکم نہ سمجھتے ہوئے احتیاط کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، تاہم شرعی اعتبار سے سورج گرہن ہونا ﷲ تعالی کی نشانی ہے، ﷲ تعالی اپنے بندوں کو یہ بتلانا چاہتا ہے کہ سورج لائق عبادت نہیں، بلکہ یہ بھی ﷲ تعالی کے حکم کا پابند ہے، جب ﷲ تعالی اس کی روشنی کو ختم کردے تو سورج میں اتنی طاقت وقدرت نہیں کہ وہ اپنے اندر روشنی پیدا کرے، چنانچہ جب سورج گرہن ہو تو ﷲ تعالی کی طرف متوجہ ہو اور خوب استغفار کرے اور نماز و دعا میں لگے۔
□ وإن الشمس والقمر آیتان من آیات ﷲ تعالیٰ یریهما عبادہ لیعلموا أنہما مسخران بأمرہ لیس لهما سلطان في غیرهما، ولا قوۃ الدفع عن أنفسهما، فلا یستحقان أن یعبدا۔ (طحطاوي علی مراقي الفلاح، باب صلاۃ الکسوف، جدید دارالکتاب دیوبند ۵٤٤، قدیم ۲۹۷)
□ عن قیس قال: سمعت أبا مسعود یقول: قال النبي ﷺ: إن الشمس والقمر لا یخسفان لموت أحد من الناس، ولکنهما آیتان من آیات اﷲ، فإذا رأیتموها فقوموا، فصلوا۔
صحیح البخاري، کتاب الکسوف، باب الصلاۃ في کسوف الشمس، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱٤١، رقم: ۱۰۳۱، ف: ۱۰٤١)
ولکنهما آیتان من آیات ﷲ، إن ﷲ إذا بدا لشيء من خلقه خشع له، فإذا رأیتم ذلک فصلوا، وﷲ تعالیٰ یخوف عبادہ لیترکوا المعاصي، ویرجعوا إلیہ بالطاعۃ والاستغفار۔ (طحطاوي، دارالکتاب دیوبند ۵٤٣، قدیم ۲۹۷)
واللہ اعلم بالصواب
(فتاوی قاسمیہ ٢٥٦/٦ و فتاوی یوسفی ١٤٠/٨)