قرآن ، سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں
تحقیق : مفتی سید عارف علی شاہ الحسینی
جمعہ، 17 نومبر 2017، 28 صفر ،1439ھ
الکحل ایک نشہ آور مادہ ہے جس کی طرف کئی شرعی احکام توجہ ہوتے ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ الکحل پر تفصیلی بحث کرنے سے پہلے نشہ آور اشیاء (Intoxicants ) سے متعلق ضروری شرعی تفصیل ذکر کی جائے ۔ا س لیے الکحل سے متعلق بحث کو دو حصوں میں تقسیم کرتےہیں :
حصہ اول :
1۔ نشہ ( اسکار (Intoxicants کی تعریف
2۔ نشہ آور اشیاء کی تعریف
3۔نشہ آور اشیاء سے متعلق شرعی احکام
4۔ نشہ آور اشیاء کی قسمیں اور ان کے شرعی احکام سے متعلق مختلف فقہی آراء
حصہ دوم :
1۔الکحل کی تعریف وحقیقت
2۔شرعی نقطہ نظر نظر سےا لکحل کے حصول کے ذرائع اور اس کی مختلف اقسام
3۔ شرعی نقطہ نظر نظر سےا لکحل کے مختلف استعمالات (Uses of Alcohol )
4۔ الکحل Alcohol)سے متعلق شرعی احکام اور مختلف فقہی آراء
نشہ، اسکار، (Intoxicatiion) کی تعریف
کسی چیز کے نشہ آور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے استعمال سےا نسان کی عقل کام چھوڑدے اور وہ اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھے اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگے،ا نسان کو کچھ پتہ نہ چلے کہ وہ کیابول رہاہے ؟
واضح رہے کہ کسی چیز کے نشہ آورہونے نہ ہونے میں معتدل مزاج عام لوگوں کی اکثریت کا اعتبار ہوگا ۔ نشے کی عادی یا غیر معتدل مزاج لوگوں کا اعتبار نہیں ہوگا ۔
نشہ آور اشیاء (Intoxicatiion) کی تعریف
جس چیز کےا ستعمال سے مذکورہ درجے کا نشہ ہوتا اس کو اصطلاح میں “مسکر ” (Intoxicatiion) کہاجاتا ہے ، جس کی طرف شرعی احکام ( حرمت، نجاست یا :”حد ” وغیرہ ) متوجہ ہوتے ہیں ۔
واضح رہے ک نشہ آوراشیاء سے مراد ایسی چیزیں ہیں جن میں بالفعل ( Actual) نشہ موجود ہواور جن کے استعمال سے
براہ راست انسان کو نشہ ہوتا ہو، مثلاً شراب ، چرس ،افیون وغیرہ ۔
اس سے مراد ایسی چیزیں نہیں جن میں بالفعل (Actual ) نشہ موجود نہ ہو اور جن کے استعمال سے براہ راست انسان کو نشہ نہیں ہوتا بلکہ بالقوۃ ( Potentially ) نشہ آور ہو بذات آورہو جو بذات خود تو مسکر نہیں ، البتہ کسی نشہ آور چیز کے لیے خام مال ( Raw-Material ) بن سکے ۔ مثلا انگور ، کھجور،اور مختلف اناج ( Grains ) یا پھل پھول وغیرہ ۔
نشہ آور اشیاء (Intoxicatiion) سے متعلق شرعی احکام
نشہ آور اشیاء شریعت کے مختلف احکام لاگو ہوتے ہیں جن میں ہمارے موضوع سے متعلق درج ذیل احکام اہم ہیں :
1۔ حرمت ( حرام ہونا ) : بنیادی طور پر تمام نشہ آور اشیاءکا استعمال شرعاً ناجائز اور حرام ہے ،ا س کے بارے میں فقہائے کرام نے کافی تفصیل ذکر کی ہے ۔
2۔ نجاست :نشہ آور اشیاء کا دوسرا شرعی حکم ان کی نجاست و طہارت کا ہے ،ا س حکم کے بارے میں بھی فقہاء کرام کی کئی آراء ہیں ۔
3۔ خریدوفروخت : نشہ آور کا تیسرا شرعی حکم ان کی خریدوفروخت کا ہے ، پہلے دواحکام کی تشریح میں تفصیل کی وجہ سے اس حکم کےبارے میں بھی فقہاء کرام کی کئی آراء ہیں ۔
نشہ آور اشیاء (Intoxicatiion) کی قسمیں اور ان کے شرعی احکام سے متعلق مختلف فقہی آراء
نشہ آور اشیاء کی بہت ساری قسمیں ہیں اور ان کے کئی استعمالات ہیں لیکن شرعی نقطہ نظر سے نشہ آور اشیاء کی دو بنیادی قسمیں ہیں :
خشک نشہ آور اشیاء (Solid Intoxicants )
مائع یعنی بہنے والی نشہ آور اشیاء ( Liquid Intoxicants )
پہلی قسم : خشک نشہ آور اشیاء (Solid Intoxicants )
خشک نشہ آور اشیاء سے مراد وہ چیزیں ہیں جن میں اصولی طور پر خشک یا جامد صورت میں نشہ ہوتا ہے اور ا س مقصد کے لیے ان کا استعمال خشک یا جامد صور ت (Silid form) میں ہوتا ہے ، مثلا بھنگ ، کوکین، افیون ، چرس، مورفین ہیروئین وغیرہ ۔
خشک نشہ آور اشیاء ( Solid Intoxicants) کے شرعی احکام :
حلت وحرمت : خشک نشہ آور اشیاء کا کسی جائز مقصد یا ضروریات کے لیے اتنی کم مقدار کا استعمال ، جس سے نشہ نہ ہو، حرام نہیں ، البتہ اس کی اتنی مقدار کا استعمال ، جس سے نشہ ہو تو وہ نشہ کی وجہ سے حرام ہیں ۔
طہارت ونجاست : خشک نشہ آور اشیاء تمام فقہاء کرام کی رائے میں بذات خود نجس وناپاک نہیں ۔
خرید وفروخت : خشک نشہ آور اشیاء کا کسی جائز مقصد یا ضرورت کے لیے کاروبار کرنا ، خرید وفروخت جائز ہے، براہ راست ناجائز مقصد کے لیے ناجائز ہے، جیسے دواسازی وغیرہ کی صنعت کے لیے افیون ( Opium ) کی فراہمی جائز ہے ، لیکن نشہ آور مصنوعات بنانے کے لیے خام مال کی فراہمی جائز نہیں ۔
دوسری قسم : مائع یعنی بہنے والی نشہ آور اشیا ء (Liquid Intoxicants )
مائع یا سیال نشہ آور اشیاء سے مراد وہ چیزیں ہیں جن میں اصولی طور پر سیال یعنی مائع حالت (Liquid Form ) میں نشہ ہوتا ہے اور اس مقصد کے لیے ان کا استعمال سیال مائع یعنی بہنے والی مشروب کی صورت (Liquid Form ) میں ہوتا ہے ۔ مثلا ً شراب ( خمر ) ، وائن ، بئر وغیرہ ۔
مائع یعنی بہنے والی نشہ آورا شیاء (Liquid Intoxicants ) کے شرعی احکام:
اس حوالے سے فقہاء کرام کی د ومشہور مقبول رائے ہیں جس کو امت نےقبول کیا ہے اور آج تک امت مسلمہ کا عمل ہے ۔ ایک جمہور کی رائے دوسری احناف کی رائے ۔
جبکہ نشہ آور اشیاء کی طہارت ونجاست کے بارے میں دو قول بھی ہیں جن کو امت نے قبول نہیں کیا، جس کی تفصیل آخر میں علمی فائدے کے طور پرذکر کرتے ہیں ۔
پہلی رائے یعنی مائع یعنی مائع بہنے والی نشہ آور اشیاء (Liquid Intoxicants ) کے شرعی احکام سے متعلق جمہور فقہاء کرام کا موقف :
جمہور فقہاء کرام ( امام مالک ، امام شافعی ،ا مام احمد اور احناف میں سے امام محمد بن الحسن رحمہم اللہ ) کا موقف یہ ہے کہ یعنی تمام مائع یعنی بہنے والی نشہ آورا شیاء (Liquid Intoxicants ) حرام ہیں ، ( ہر قسم کا استعمال )
تمام مائع یعنی بہنے والی اشیاء آور اشیاء نجس ہیں ایک قطرہ ہی کیوں نہ لگے ۔
تمام مائع یعنی بہنے والی نشہ آور اشیاء کی خرید وفروخت یا کسی بھی قسم کا کاروبار حرام ہیں ۔
نوٹ : جمہور فقہاء کرام الکوحل کا بھی وہی حکم ہے جو دیگر تمام مائع یعنی بہنے والی اشیاء کا ہے ۔
دوسری رائے یعنی مائع یعنی بہنے والی نشہ آور اشیاء (Liquid Intoxicants ) کے شرعی احکام سے متعلق احناف فقہاء کرام کا موقف :
فقہ حنفی کے مطابق شرعی احکام کے اعتبار سے مائع یعنی بہنے والی نشہ آور اشیاء (Liquid Intoxicants ) کی تین قسمیں بنتی ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلی قسم : خمر ( شراب )
یعنی وہ شراب جس کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان کیاہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾
ترجمہ : اے ایمان والو! شراب ، جوا ، بتوں کے تھان اور جوئے کے تیر ، یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں ، لہذا ان سے بچو ،تاکہ تمہیں فلاح ہو۔
خمر ( شراب ) کی تعریف :
فقہ حنفی کے مطابق حقیقی ” خمر ” کا مطلب ہے ، انگور کا کچا شیرہ ( ماء العنب ) جب اس کو پکائے یا اس میں کوئی چیز ملائے بغیر اپنی حالت پر چھوڑدیاجائے ، یہاں تک اس میں جوش ( بلبلے ) پیدا ہو، اس میں شدت اوت گھاڑ پن آجائے ، جھاگ چھوڑنے لگے اوراس میں نشہ پیداہوجائے ۔انگور کی اس کچی شراب کے علاوہ دوسری چیزوں پر ” خمر “کا اطلاق احناف کے نزدیک مجازی طور پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے حقیقی خمر کے کچھ احکام میں تخفیف ہوگی ۔
خمر ( شراب ) کے شرعی احکام
٭ خمر ( شراب ) حرام ہے ۔ ( ہرقسم کا استعمال 9
٭ خمر( شراب ) نجس العین ہے، ایک قطرہ ہی کیوں نہ لگے۔
٭خمر (شراب ) کی خرید وفروخت یا کسی بھی قسم کا کاروبار حرام ہے ۔
خمر ( شراب ) کے مختلف اجزاء ترکیبی :
جس طرح شریعت میں کسی مشروب یا پانی کی تین بنیادی اوصاف ( Main Properties) بیان کیے گئے ہیں ، رنگ ( colour ) بو ( smell ) مزہ ( Test ) اسی طرح کیمیائی اعتبار سے شراب یا خمر کے بھی مختلف اوصاف واجزاء ہوتے ہیں ، مثلا پانی ،چینی ، الکوحل ، بعض قدرتی اجزاء ، ذائقہ ، کھٹاس ( Acids/Tartaric Acid ) بو ( Aroma) ، نائٹروجن کمپاؤنڈز ( Nitrogenous compounds ) غیر نامیاتی مادے ( Inorganic substances) اور مختلف دوسرے کیمیکل کمپاؤنڈز جیسے (Phenolics ) وغیرہ
شریعت اسلامیہ میں شراب ( خمر ) اپنے تمام اجزاء کے ساتھ حرام اور نجس ہے اس لیے اس کے کسی بھی جزء کا ، کسی مقصد کے لیے ، کسی بھی طرح کا خارجی یا داخلی استعمال اور اس کی خریدوفروخت اصالۃ ً ناجائز اور حرام ہے۔
فقہ اسلامی میں خمر (شراب) کے مختلف استعمالات کی مثالیں :
احناف کے مشہورعالم علامہ علاء الدین، ابوبکر بن مسعود بن احمد الکاسانی الحنفی ( المتوفی : 587ھ ) فرماتے ہیں کہ شراب ( خمر ) کم مقدار میں ہو یا زیادہ، بہر حال حرام ہے ۔
علامہ ابن الہمام ( المتوفی : 861ھ ) س شراب کے شرعی احکام سے متعلق فرماتے ہیں کہ شراب یعنی خمر بذات خود حرام ہے نشے کی وجہ سے نہیں اور نہ ہی اس کی حرمت نشے پر موقف ہے، یہ نجاست غلیظہ کی طرح نجس ہے جیسے پیشاب کیوں کہ اس کی نجاست نص قطعی یعنی قرآن سے ثابت ہے،یہ مسلمان کے لیے مال متقوم (Valuable) چیزنہیں ،ا س سے فائدہ اٹھانا حرام ہے کیوں کہ نجس چیز سے فائدہ (اصولاً ،ا ز مرتب ) حرام ہے ،ا ور اس وجہ سے کہ شریعت میں سے اس سےبچنا اور دور رہنا واجب ہے جبکہ فائدہ اٹھانے میں اس کے قریب ہونا اور اس کے ساتھ ملوث ہونا (Involve) پڑتا ہے۔
علامہ محمد بن محمد بن محمود بابرتی (المتوفی : 786ھ ) فرماتے ہیں کہ انسانی استعمال میں کھانے پینے کے علاوہ ادویات بلکہ حیوانات کو پلانا بھی حرام ہے۔
علامہ شامی کہتے ہیں کہ کوئی بھی چیز نرم ہو یا سخت ، شراب میں پک جائے وہ ہمیشہ کے لیے نجس اور حرام ہوگئی ۔
اس پورے میں نجاست سرایت کرگئی ہے ۔
علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں کہ دوائی علاج ، خوشبویات (Perfumes ) اور تیل ( Oil ) وغیرہ ، حتیٰ کہ اسقاط حمل (Abortion) سمیت کسی بھی مقصد کے لیے شراب کا استعمال حرام ہے ۔
شراب کا ذائقہ اور اس کی بو بھی اس کے اجزاء کی طرح نجس اور حرام ہیں ،لہذا تمام ایسی پراڈکٹس جن میں شراب کا استعمال نشے کے علاوہ محض ذائقے یا خوشبو کسی بھی مقصد کے لیےہو ایسی مصنوعات کا استعمال حرام ہے۔ چناں چہ فقہائے کرام نے فرمایا کہ شراب نجاست غلیظہ کی طرح ناپاک ہے اس کے ساتھ نمازجائز نہیں، شراب کی بو (Aroma/Smell) بھی حرام ہے، شراب کی بو بھی اس کے اجزاء کی بقاء کی دلیل ہے کسی جانور کو شراب پلایا تو اس کا گوشت کھانا بھی مکروہ ہے کیوں کہ شراب نے اس کے جسم میں سرایت کی ۔
علامہ زیلعی ( متوفی :734ھ) فرماتے ہیں کہ شراب پک جائے اور اس کا نشہ ختم ہوجائے تب بھی حرام ہے ۔
اڑنے (Evaporate ) ہونے کے بعد بھی حرام ہے لہذا فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ایسی روٹی کا کھانا جائز نہیں جس کے آٹے کو شراب سے گوندا گیاہو، حالانکہ یہ معلوم ہے کہ پکنے کے بعد شراب اڑجاتی ہے ۔
علامہ سرخسی فرماتے ہیں کہ شراب میں پکایا گیا کھانا،سالن روٹی حرام ہے۔
مزید فرماتے ہیں کہ شراب میں گوندا گیا آٹا ہمیشہ کے لیے نجس ہوگیا اب یہ پاک نہیں ہوسکتا۔
حیوانات کو پلانا بھی حرام ہے۔
پانی کے کسی برتن میں شراب کا ایک قطرہ گر جائے تو یہ پورا پانی ناپاک ہوجاتا ہے اگر چہ اس پانی میں شراب کا ذائقہ محسوس نہ ہو۔
کسی ایسے دسترخوان یا میز پر کھانا جائز نہیں جس پر شراب پی جاتے ہو۔
سرمہ،دوا یا مرہم پڑی وغیرہ میں شراب کا استعمال ناجائز ہے ۔
شراب کے تمام اجزاء نجس ہیں ۔ چاہے وہ الگ الگ ہوں یا اکھٹے ۔
سرایت کے بعد اب یہ دھونے سے پاک نہیں ہوتی ۔
احناف کے نزدیک شراب کی نجاست کا سب سے بڑا سبب اس کے اندر پایا جانے والا الکوحل ہے، کیونکہ جب شراب میں تخمیر ہوتی ہےتو الکوحل پیدا ہوتا ہے اور یہی تخمیر ” خمر ” کی اصل وجہ ہے ۔ا ور غور سے دیکھا جائے تو جمہور کے موقف پر بھی نجاست کا مدار الکوحل ہی ہے۔
فائدہ: الکحل سے خالی وائن ( Alcohol Free Wine) کا شرعی حکم :
مذکورہ بالا تفصیلی فقہی دلائل سے معلوم ہو اکہ شراب ( خمر) بحیثیت مجموعی مکمل نجس اور حرام ہے اس لیے ا س میں سے الکوحل یا کوئی بھی اور جزء مثلا ً ٹارٹک ایسیڈ وغیرہ کسی جزو کو نکال بھی لیاجائے ، تب یہ نکالا ہوا جزء اور بقایا مجموعہ طور پر نجس ہے ۔ لہذا الکوحل فری وائن کے نام سے جو مشروبات ملتی ہیں وہ بھی حرام اورنجس ہیں، جمہور اور احناف سمیت تمام مکاتب فکر کے نزدیک الکحل فری وائن کا کسی بھی قسم کا استعمال جائز نہیں اسی طرح وہ مصنوعات بھی حرام ہیں جن میں خمر سے حاصل کیاگیانجس الکوحل کو ذائقے ، خوشبو یا کسی بھی اور مقصد کے لیے استعمال کیاگیا اور بعد میں عمل تبخیر ( Evaporation) کے ذریعے الکوحل کو ختم کیاگیا ہو ،جیساکہ روٹی سالن وغیرہ کی مثالوں سے واضح ہوا۔
دوسری قسم : خمر ( شراب ) کے علاوہ انگور اور کھجور سے بننے والی تین خاص شرابیں
فقہ کے مطابق تین اور شرابیں ہیں جن کا اکثر شرعی احکام میں خمر کےساتھ ملحق کیاگیا ہے
( الف) الطلاء :
انگور کا شیرہ جب پکایاجائے ، یہاں تک کہ اس کے دو ثلث سے کم مقدار بخارات بن کر ختم ہوجائیں ، اوراس کے بعد تخمیر ( Fermentation) یا کسی دوسرے عمل ( process ) کے نتیجے میں نشہ پیدا ہوجائے ، مطلب ہے انگور کی پکی شراب ۔ عربی میں اسے ” طلاء ” کہتے ہیں ۔
(ب) نقیع التمر
یعنی کھجور کی کچی شراب ، کھجور کا کچاشیرہ ، یعنی تخمیر کے لیے پانی میں اتنے عرصے تک کھجور رکھی جائے ، کہ اس میں گاڑھا پن اور جوش ( بلبلے ) پیدا ہوجائے عربی میں اسے” نقیع التمر ” اور ” سکر ” کہتے ہیں ۔
(ج) ” نقیع الزبیب :
کشمش سے تیار کردہ شراب ، کہ ( Fermentation) کے لیے پانی میں اتنے عرصے تک کشمش رکھی جائے ، کہ ا س میں گاڑھا پن آجائے اورجوش مارنے لگے ، عربی میں اسے ” نقیع الذبیب ” کہتےہیں۔
فائدہ :؛ا لکحل کی پیدائش کے دوران یہ عمل ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کابوہائڈریٹس کو الکحل بننے کے لیے yeast کی ضرورت ہوتی ہے۔ yeastچینی کو الکحل اور کاربن ڈائی اکسائیڈ میں تبدیل کرتی ہے ۔ نیز ماہرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ قدرتی نشے کے لیے درکار تخمیری عمل کے ( Alcoholic Fermentation ) کے سب سے تیز اور زیادہ امکانات انگور اور کھجور کے اندرپائے جاتے ہیں ۔
خمر ( شراب ) کے علاوہ انگور اور کھجور سے بننے والی تین خاص شرابوں کے شرعی احکام :
یہ تین مشروبات فقہ حنفی کے مطابق اکثرا حکام میں ” خمر ” کے ساتھ ملحق ہیں ۔ جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
٭مذکورہ تینوں شرابیں خمر ( شراب) کی طرح حرام ہیں،( ہر قسم کااستعمال)
٭ مذکورہ تینوں شرابیں خمر ( شراب ) کی طرح نجس یعنی ناپاک ہیں۔ایک قطرہ ہی کیوں نہ لگے۔
٭مذکورہ تینوں شرابوں کی خریدوفروخت یاکسی بھی قسم کاکاروبارس خمر ( شراب ) کی طرح حرا م ہیں ۔
تیسری قسم : انگور اور کھجور سے بننے والی شرابوں کے علاوہ دیگر مائع یعنی بہنے والی نشہ آور اشیاء ( Liquid Intoxicants )
یعنی جو مائع یعنی بہنے والی نشہ آور اشیاء Liquid Intoxicants مذکورہ بالا چار شرابوں ( خمر ، طلاء ،نقیع التمر،نقیع الذبیب ) میں سے نہ ہوں ۔ مثلا ً گندم، جو وغیرہ سے بننے والی شرابیں۔
انگور اور کھجور سے بننے والی شرابوں کے علاوہ دیگر مائع ( بہنے والی )نشہ آوراشیاء Liquid Intoxicants ) کے شرعی احکام کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
حلت وحرمت : انگور اور کھجور سے بننے والی چار شرابوں ( خمر ، طلاء ،نقیع التمر،نقیع الذبیب ) کے علاوہ دیگر بہنے والی نشہ آور اشیاء Liquid Intoxicants )) کا کسی جائز مقصد یا ضرورت ، مثلا دواسازی وغیرہ کے لیے اتنی کم مقدار کا استعمال ، جس سے نشہ نہ ہو ، حرام نہیں ۔ البتہ اس کی اتنی مقدار کا استعمال ، جس سے نشہ ہوتو وہ نشہ کی وجہ سے حرام ہیں ۔
طہارت وناجست : انگور اور کھجور سے بننے والی چار شرابوں ( خمر، طلاء، نقیع التمر، نقیع الذبیب ) کے علاوہ دیگر بہنے والی نشہ آوراشیاء سے کشید کیے گیے الکحل کا کسی جائز مقصد یا ضرورت کے لئے کاروبار، خرید وفروخت جائز ہے ۔براہ راست ناجائز مقصد کے لیے ناجائز ہے ۔
فائدہ : ماہرین کے مطابق مختلف نشہ آور مشروبات میں الکحل کی مقدار مختلف ہوتی ہے ، ماہرین کے مطابق الکحل مشروبات میں کل مقدار میں فیصدی تناسب سےاوسطاً بئیر ( beer) میں 4,5فیصد تک ،و ائن ( Wine )میں 11.6فیصد تک ، ووڈکا ( Vodka ) برانڈی میں 37 فیصد 40 فیصد تک ہوتا ہے ۔ البتہ لیبارٹری وغیرہ میں استعمال کے لیے عرق ریزی اور کشید گی کے عمل ( Distillation) کے ذریعے اس مقدار کو 95فیصد تک بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔46
الکحل کے شرعی احکام سے متعلق راجح قول
شرعی اصول ودلائل کی روشنی میں الکحل کے بارے میں ہمارے نزدیک فقہ حنفی ( شیخین ) کا موقف راجح ہے ۔
الکحل سے متعلق مختلف حلال معیارات کا خلاصہ
الکحل کے بارے میں عالمی سطح پر رائج ونافذ حلال معیارات کا جائزہ لینے کے بعد ا س کا خلاصہ درج ذیل ہے
پاکستان حلال اسٹینڈرڈ ( PS:3733-2016®)کی بنیاد فقہ حنفی کی رائے پر ہے جس میں اس بات کی تصریح ہے کہ الکحل نجس اور حرام ہے ۔ دیگر مشروبات بشرط نشہ حرام ہیں ۔
متحدہ عرب امارات کے کاسمیٹیکس کے حلال معیار میں الکحل کو مطلقاً حرام قرار دیاگیا ہے ۔
اسی طرح متحدہ عر ب امارات کے کھانے پینے کے حلال معیار میں بھی الکحل کو مطلقاً حرام قرار دیاگیاہے ۔
ملائیشیا کے کھانے پینے کے فوڈ ایڈیٹیوز (Food Addities )میں الکحل کو مطلقاً حرام قرار دیاگیاہے ۔
اسی طرح ملائیشاکےادویات کے حلال معیار میں الکحل کو مطلقاً حرام ونجس قراردیاگیاہے، چناں چہ اس معیار کے مطابق حلال ادویات وہ ہیں جو ہر طرح کے نجس ونشہ آور مواد سے پاک ہوں ۔
پھر اسی معیار میں نجس کی تعریف وتفصیل میں خمر کو شمار کیاگیاہے ۔ا ور خمر میں تمام نشہ آور اشیاء کو شامل کیا ہے ۔
ان معیارات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی ذریعے سے حاصل شدہ الکحل نجس ہے ، جس کا خارجی یا داخلی کسی بھی قسم کا استعمال درست نہیں ، جو فقہ شافعی کےا صل مذہب کے عین مطابق ہے ، نیز ملائیشیا کے مذکورہ بالا دو معیارات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان معیارات کے مطابق تغذی (Food & Beverages)اور تداوی (Pharma) کے معیارات میں کوئی الکحل کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ۔
لیکن ملائیشیا کےا سی معیار میں مصنوعی اشیاء سے حاصل شدہ الکحل (Synthentic Alcohol) کی اجازت دی گئی ہے۔
اسی طرح ملائیشیا کے معیار ” حلال کےا صول، تعریفات اور اصطلاحات کی تشریحکا معیار ” (MS 2393:2013) میں الکحل کے بارے میں تفصیل ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قدرتی اشیاء سے حاصل شدہ الکحل (Natural Alcohol) اور مصنوعی اشیاء سے حاصل شدہ الکحل (Synthetic Alcohol) میں فرق ہے، اور نجاست کے حکم میں دونوں مختلف ہیں ۔
جس میں صاف واضح ہوتا ہے کہ وائن کا نام لکھ کر ا س کی نجاست وتطہیر کی بات کی گئی ہے لیکن مطلقاً الکحل کی بات نہیں ہوئی ہے ۔اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان معیارات مذکور” خمر ” الکحلک بیوریجز” اور “سینتھیٹک الکحل ” میں کیا فرق ہے ؟
اس کا جواب ملائیشیا کے معیار ( MS 23932013) سے مفہوم ہوتا ہے کہ تخمیر کے نتیجے میں جتنی بھی نشہ آور چیزیں ہیں ان کو خمر اور نجس شمار کیاگیاہے ، لیکن سینتھیٹک الکحل کو وائن اور ناجست سے بظاہر الگ رکھا گیاہے ، جوکہ بظاہر فقہ حنفی کے موقف کے مطابق ہے ۔
اسی طرح ملائیشیا ” کے پینے کے پانی کے حلال معیار ” (MS 2594-2015 ) میں شق نمبر 5.3 میں فرماتےہیں کہ حلال کیمیکلز کے ذرائع کے لیے ضروری ہے کہ وہ نجس نہ ہوں، جبکہ شق نمبر 5.6 اور 5.8 میں فرماتے ہیں کہ حلال کیمیکلز کے زرائع کے لیے ضروری ہے کہ وہ نجس کے ساتھ نہ تلوث بھی نہ رکھتے ہوں ، ( متنجس نہ ہوں )
جبکہ شق نمبر 5.7 میں فرماتے ہیں کہ نشہ آور مشروبات ( خمر ) کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ الکحل پینے کے پانی کے لیے حلال کیمیکلز کے بنانے کے لیےا ستعمال کرنا جائز ہے۔ا س سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نشہ آور مشروبات ( خمر ) کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ الکحل نجس نہیں ، جبکہ یہی موقف بعینہ فقہ حنفی کے مطابق ہے ۔
اسی طرح ملائیشا کے کاسمیٹکس کے حلال معیار 2200 : PART 1 2008 ) (MS میں الکحل کوفقہ حنفی کے مطابق صرف خمر اصلی سے حاصل شدہ الکحل کوممنوعہ قراردیاگیا ہے ۔
لیکن اس میں سوال یہ ہے کہ اسی ملائیشن اسٹینڈرڈ میں شرعی قانون ( Sharia Law) فقہ شافعی کو معیار قراردیاگیا ہے۔
جبکہ فقہ شافعی کے مطابق ہر قسم کی نشہ آور چیزیں خمر کی تعریف میں داخل ہیں ۔جیساکہ اوپر تفصیل سے گزرگیا۔ا س لحاظ سے ہر قسم کا الکحل نجس ہونا چاہیے ا ور اس کا بیرونی استعمال نجاست کی وجہ سے ناجائز ہونا چاہیے،ا س لیے سوال یہ ہے کہ ملائیشیا نے خمر اصلی کے علاوہ دیگرا لکحل کے خارجی استعمال کی اجازت کیوں دے سی ؟
اس کا جواب شاید یہ ہوکہ جب نشہ آور مشروبات کے علاوہ الکحل کا استعمال ہوتا ہے وہ انتہائی کم مقدار میں غیر نشہ آور مقاصد کے لیے ہوتا ہے جس میں شرعی اصولوں القلیل کالمعدوم اور عموم بلٰوی کے تحت اجازت دی جاتی ہے ۔واللہ اعلم
تھائی لینڈ کے حلال معیار THS 1435-1-2557 الکحل پر مشتمل ہر قسم کے مواد کو حرام قرار دیا گیاہے ۔تھائی لینڈ کے مسلمانوں کی اکثریت چونکہ فقہ شافعی کی تقلید کرتی ہے ا س لیے الکحل پر مشتمل ہر قسم کے مواد کو حرام قرار دیاگیاہے ۔
فائدہ : ہمارے نزدیک احناف کی رائے راجح ہے :
نشہ آور اشیاء اور ان سے حاصل شدہ الکحل سے متعلق مجموعی طور پر قرآن، سنت اورافقہ اسلامی کے دلائل کو سامنے رکھ قوت استدلا ل اور استنباط کی روشنی میں ہمارے نزدیک فقہ حنفی کی رائےراجح ہے جس کے مطابق پاکستان کا حلال اسٹینڈرڈ مرتب کیاگیاہے اور جو ا س وقت حلال انڈسٹری کے لئے سب سے زیادہ موزوں ومناسب ہے ۔ کیوں کہ جمہور کے قول یا امام ابن تیمیہ کےق ول پر مسلمانوں کےلیے ناقابل برداشت حرج اور مشقت وتکلیف ہے اور امت کو بلاوجہ شرعی حرج میں مبتلا کرنا شریعت کے اصولوں کے خلاف ہے۔
فائدہ : سرکہ بننے کے بعد ا س میں الکحل کی مقدار کتنے فیصد باقی رہتی ہے؟
الکحلک مشروبات سے سرکہ بنتے وقت ایسیٹک ایسیڈ کا بیکٹیریا الکحل کو ایسیٹک ایسیڈ میں تبدیل کرتا ہے ، بعد میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتاہے کہ ایسیٹیک ایسیڈ کا بیکٹیریا مزید عمل نہیں کرسکتا اورنتیجۃً کچھ مقدار الکحل کی رہ جاتی ہے ، ماہرین کے مطابق 0.5سے لے کر 2یا 5فیصد تک الکحل کے باقی رہنے کا امکان ہوتا ہے ۔
FDAکے معیار کے مطابق سرکہ میں کل مقدار کا 4فیصد ایسمیٹک ایسیڈ کا ہونا ضروری ہے ۔ مثلا ً 100 ملی لیٹر میں 4 گرام کا acetic acid ہونا ضروری ہے ۔
انڈسٹری وائز الکحل کےا ستعمال کا شرعی حکم
واضح رہے کہ سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت موجودہ دور میں بے شمار چیزیں بے مقاصد کے لیے الکحل کا استعمال ہوتا ہے ، ذیل میں چند انڈسٹریزکا بطور مثال ذکر کرتے ہیں ،باقی انڈسٹریز میں الکحل کے استعمال کے شرعی حکم کے لیے کسی مستند شرعی تحقیقاتی ماہرین یاادارے سے رجورع کرے ۔
فوڈانڈسٹری میں الکحل کے استعمال کا شرعی حکم
٭ انگور اور کھجور سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال س فوڈ انڈسٹری کی مصنوعات میں کسی بھی مقدارمیں جائز نہیں ۔
٭ انگور اور کھجور کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال فوڈ امڈسٹری کی مصنوعات میں اتنی مقدار میں جائز ہے ۔ جس سے نشہ نہ ہوتا ہو۔
٭ انگور اور کھجور کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ ایتھا ئل الکحل کا استعمال فوڈ انڈسٹری کی مصنوعات میں اتنی مقدار میں جائز ہے، جس سے نشہ نہ ہوتا ہو۔
٭ انگور اور کھجور کے علاوہدیگر ذرائع سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال فوڈ انڈسٹری کی مصنوعات میں اتنی مقدار میں جائز نہیں ، جس سے نشہ ہوتاہو ، یا نشہ ہونے کا امکان ہو۔
کھانے پینے کی مصنوعات میں استعمال ہونے والے کیمیکل اور فلیور انڈسٹری میں الکحل کےا ستعمال کا شرعی حکم
٭ انگور اور کھجور سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال کھانے پینے کی اشیاء میں استعمال ہونے والے کیمیکل اور فلیور انڈسٹری کی مصنوعات میں کسی بھی مقدار میں جائز نہیں۔
٭انگور اور کھجور کے علاوہ دیگرذرائع سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال کھانے پینے کی اشیاء میں استعمال ہونے والے کیمیکل اور فلیور انڈسٹری کی مصنوعات اتنی مقدار میں جائز نہیں ، جس سے نشہ ہوتا ہو، یا نشہ ہونے کا امکان ہو۔
مشروبات کی انڈسٹری میں الکحل کے استعمال کا شرعی حکم
٭جن مشروبات کا مقصد ہی نشہ حاصل کرنا ہو ان میں کسی بھی ذریعے سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال کسی بھی مقدار میں جائز نہیں ۔ اور نہ ہی ایسی مصنوعات کا استعمال جائز ہے ۔
٭ جن مشروبات کا مقصد نشہ کا حصول نہیں ( Non-Alcohlic bevergaes ) ان میں انگور اور کھجو ر کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال اتنی مقدار میں جائز ہے ، جس سے نشہ نہ ہوتا ہو۔
٭ جن مشروبات کا مقصد نشہ کا حصول نہیں ( Non-Alcoholic beverages) ان میں انگور اور کھجور کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال اتنی مقدار میں جائز نہیں ۔ جس سے نشہ ہوتا ہو۔ یا نشہ ہونے کا امکان ہو۔
٭اور نہ ہی ایسی مصنوعات کا استعمال جائز ہے ۔
فارما انڈسٹری میں الکحل کے استعمال کا شرعی حکم
٭ فارما انڈسٹری میں انگور اور کھجور سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال حرام ہےا س پر تداوی بالحرام کے شرعی احکام وشرائط جاری ہوں گے ۔
فارما انڈسٹری میں انگور اور کھجور کے علاوہ دیگر ذرائع سے حا صل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال بوقت ضرورت بقدر ضرورت جائز ہے۔
سنگھار اور ذاتی استعمال کی صنعت ( Cosmetics & Personal care Products Industry) میں الکحل کےا ستعمال کا شرعی حکم
٭ انگور اور کھجور سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال کاسمیٹکس اور پرسنل کئیر انڈسٹری کی مصنوعات میں جائز نہیں ۔
٭ انگوراور کھجور کے علاوہ دیگر ذرائع سےحاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال سنگھار اور ذاتی استعمال کی صنعت کی خارجی استعمال کی مصنوعات میں جائز ہے ۔ مثلاً ٹوتھ پیسٹ، خوشبویات ہاتھ صاف کرنے کی چیزیں ، ذاتی استعمال کی دیگر اشیاء وغیرہ ۔
٭کاسمیٹکس انڈسٹری کی ایسی مصنوعات جس کے خارجی استعمال سے بھی ممکنہ طور پر نشہ ہوسکتا ہو ،ا ن میں انگور اور کھجور کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔
صفائی ستھرائی کا سان (Cleaning Products ) ،رنگ وروغن (Paints Varnises) اور ( Air freshner)وغیرہ کی صنعت میں الکحل کے استعمال کا شرعی حکم
٭انگور اور کھجور سے حاصل شدہ ایتھائل الکحل کا استعمال ، صفائی ستھرائی کا سامان (Cleaning Products )
،رنگ وروغن (Paints Varnises اور Air freshner)) وغیرہ کی مصنوعات میں جائز ہے ۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
تصدیق ازاراکین شرعی شعبہ تحقیق
SANHA Halaal Associates Pakistan
مفتی شعیب عالم مفتی یوسف عبدالرزاق
نوٹ : بندہ IFANCA پاکستان کے سربراہ اور نیشنل حلال اسٹینڈر ڈائزیشن کمیٹی ، منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی حکومت پاکستان چئیرمین (National Standardization committee For Halaal,Pakistan Standards & Quality Control Authority ,Ministry of Science and Technology of the Government of Pakistan )
(PSQCA) محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر جاوید عزیز اعوان صاحب اوروائس چیئرمین محترم جناب مفتی یوسف عبدالرزاق خان صاحب ، (CEO SANHA PAKISTAN)کا تہہ دل سے شکر گزار ہے جنہوں نے اپنا قیمتی وقت عنایت فرماکر اس مضمون کی تیاری کےدوران فنی وشرعی حوالے سے رہنمائی فرمائی ۔