فقہیات
(قسط نمبر 6)
نجس اشیاء کے خارجی استعمال کا حکم :
سوال نمبر۱:نجس چیز کااستعمال خارجاً درست ہے یا نہیں، اگر ہے تو کیا میتہ (مردار) اور شراب بھی اس میں داخل ہے، اگر نہیں تو مابه الفرق کیا ہے، نجس چیز کے خارجی استعمال کو استصباحِ دہنِ نجس پر کیوں قیاس نہیں کرسکتے؟
الجواب نمبر ۱:نجس العین کا استعمال خارجاً اور داخلاً ناجائز ہے اور حرام، اور نجس لغیرہ یعنی متنجس کا استعمال خارجاً جائز اوراکلاً (کھانا) ناجائز، چنانچہ نجس کپڑے کی بیع اور اسکاپہننا جائز ہے، ہدایہ میں ہے :
ولا جلود المیتة قبل ان تدبغ لانه غیر منتفع به اس پر صاحب نہایہ لکھتے ہیں : فان قیل نجاستھا مجاورۃ باتصال الدسومات ومثلہ یجوزبیعه کالثوب النجس انتہیٰ باب بیع الفاسد
پس میتہ اور شراب چونکہ نجس عین ہیں، لہٰذا ان کا استعمال کسی طرح جائز نہ ہوگا اور نہ اس کو دہن ِ نجس (ناپاک تیل) پر قیاس کیا جاسکتا ہے، چنانچہ واضح ہے۔
حشرات الارض کا تیل بنانے سے تبدیل ماہیت ہوگئی یانہیں :
سوال نمبر۲: حشرات الارض کا تیل بنالیا جائے تو تبدیل ماہیت کیوں نہیں، جب کہ صابون بنانے کو فقہاء نے تبدیل ماہیت کہاہے؟
الجواب نمبر ۲: حشرات الارض کے تیل کا حکم پہلے مفصل گذرچکا ہے اور بیان کیا جاچکاہے کہ تیل ِ نجس کی تبدیل ماہیت نہیں ہوئی بلکہ تیل اپنی ذات یعنی تیل ہونے پر اب بھی باقی ہے اور نہ اس میں کوئی تغیر ہوا ہے، یہاں تک کہ اس کا نام بھی نہیں بدلا لہٰذا اس کو صابون پر قیاس نہیں کرسکتے، دیکھئے! اگر ناپاک دودھ کوپکاکر پنیر بنالیا یا ناپاک گیہوں کو کو پیس کر آٹا بنالیا، یا ناپاک آٹے کی روٹی پکالی تو وہ پاک نہیں ہوگی،
قلت لکن قدیقال ان الدبس لیس فیه انقلاب حقیقة لانه عصیر جمد بالطبخ وکذا السمسم اذا درس واختلط دھنه باجزاء ففیه تغیر وصف فقط کلبن صارجبنا وبرِصار طحینا وطحین صارخبزا بخلاف نحو خمر صارخلا وحمار وقع فی مملحة فصار ملحا وکذا دردیّ خمر صارطرطیرا وعذرۃ صارت رماداً وحمأۃ فان ذلک کله انقلاب حقیقة الی حقیقة اخری لامجرد انقلاب وصف کماسیاتی، واﷲ اعلم (ردالمختار/جلداوّل صفحہ۲۰۱)
پیشاب سے کُلّی کرنے کا حکم :
سوال نمبر ۳: اگر نجس چیز کا خارجی استعمال جائز ہے تو پیشاب سے مضمضہ (کلی کرنا) بھی جائز ہے یا نہیں، اگر نہیں تو مابه الفرق کیا ہے؟
الجواب نمبر ۳ :اس کا جواب نمبر ۱ میں مفصل گذرچکا ہے۔
حیوان غیرماکول پیٹ سے نکلے ہوئے انڈے کا حکم :
السعٔال ھل یطھر ا لبیض الخارج من بطن الغیر الماکول بذبحه ام لا ؟
الجواب: قلت البیض الخارج من بطن الغیر الماکول من الحیوان اذا ذبح لا یطھر فان الفقھاء رحمہم اﷲ تعالیٰ اختلفوا فی ان الغیر الماکول من الحیوان اذا ذبح ھل یطھر لحمه ام لا؟ ورجحوا عدم طھارۃ اللحم ففی الدرالمختار :
(وما) ای اھاب (طھربه) بدباغ طھر بذکاۃ علی المذھب لا یطھر لحمه علی قول الاکثر ان کان غیر ما کول، ھذا اصح مایفتی به وان قال فی الفیض الفتوی علی طھارته انتہی،
ثم اعلم ان یسلم ان اللحم یطھر بذکاۃ الحیوان لانسلم ان البیض یطھر بھا فان الحیوان الذی لایقبل جلدہ الد باغ لایطھر جلدہ بدباغ فلا یطھر لحمه واما النظرالدقیق فیحکم بان علة طھارۃ جلد الغیرالماکول ولحمه خروج الدم المسفوح بالذکاۃ علی ھذا اجزاء الحیوان التی لیس فیھا دمه ولا فیھا حیوۃ لایعمل فیھا التزکیة ولا یوثر فیھا فتبقی علی حالته الاصلیة فعلی ھذا حکم البیض فانھا لیست فیھا حیوٰۃ لا یوثرفیھا التزکیة فتبقی علی حالته الاصلیة فالا صل ان جمیع اجزاء الغیرالماکول من الحیوان نجس وثبتت الطھارۃ لعارض الذکاۃ ولم توثر فی البیض فبقیت البیض علی نجاستھا الاصلیة ، *وقد صرح العلامة الشامی والحاصل ان ذکاۃ الحیوان مطھرۃ لجلدہ ولحمه ان کان الحیوان ماکولا والا فان کان نجس العین فلا تطھر شیئا منه والافان کان جلدہ لایحتمل الدباغة فکذلک لان جلدہ حینئذ یکون بمنزلة اللحم والافیطھر جلدہ فقط فثبتت بھذا ان بیض الغیرا لماکول من الحیوان لا یطھر وان ذبح، فقط؛ املأہ خلیل احمد عفی عنہ (فتاوی مظاہر علوم المعروف فتاوی خلیلیہ)
ناشر: دارالریان کراتشی