سائنسی ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بیٹیاں اپنے باپ سے محبت کو سننا اور محسوس کرنا چاہتی ہیں،
بیٹیاں باپ کی محبت کو چاہتی ہیں ،
اس محبت کی کمی کو ماں پورا نہیں کر سکتی ۔ ماں بچی کو تحفظ دیتی ہے ،
باپ ان کو خود اعتمادی دیتا ہے ۔
باپ اور بیٹی میں محبت کا ایک خاص تعلق ہوتا ہے۔
اگر اس تعلق کو دیکھنا ہو تو آئیے محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹی سے مثالی محبت پر نظر ڈالتے ہیں۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کو اتنی عزت دیتے کہ جب فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا چل کر آتیں تو اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور ان کو بوسا دیتے اور مرحبا کہہ کر استقبال فرماتے۔
( سیر اعلام النبلاء:127/2)
ایک مرتبہ سیدہ فاطمةالزہرارضی اللہ عنہا نے روٹی بنائی،
جب روٹی کھانے لگیں تو دل میں خیال آیا کہ پتا نہیں میرے والد گرامی نے بھی کچھ کھایا ہے یا نہیں۔ سیدہ فاطمةالزہرا رضی اللہ عنہا نے روٹی کے دو ٹکڑے کیے ،
آدھا خود کھایا اور آدھا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئیں،
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے استقبال فرمایا اور پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟
عرض کیا ابا حضور!
میں روٹی کھانے لگی تو خیال آیا کہ پتا نہیں آپ نے کچھ تناول فرمایا ہے یا نہیں،
آپ کے لیے آدھی روٹی لے کر حاضر ہوئی ہوں۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے روٹی کا ٹکڑا منہ میں ڈالا اور فرمایا:
آج تیسرا دن ہے تیرے والد نے روٹی کا کوئی ٹکڑا نہیں کھایا۔
( طبقات ابن سعد:400/1)
اسلام نے بیٹی کو معاشرے میں جو حقوق اور مقام دیا ہے وہ صرف اسلام ہی کا خاصہ ہے۔
بیٹی کو بوجھ سمجھنا،
اس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا،
اس کو وراثت سے محروم کرنا اور اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہر گز اسلامی معاشرے کی عکاسی نہیں کرتا۔
افسوس کہ ہم نے اپنے مثالی اسلامی معاشرہ کو بھلا دیا اور مغرب زدہ پھیکے اور بے رونق معاشرے کے گرویدہ ہوگئے جو مادی ترقی کے باوجود حقیقی محبت اور حسن معاشرت کی ناگزیر نعمت سے محروم ہے۔