حدیث کے موضوع ہونے کی جو علامات محدثین نے بیان کی ہے اس میں ایک بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ہمارے سامنے ایسی کوئی حدیث آجائے جس کا وجود متقدمین کی کتابوں میں نہ ہو.
اس قاعدہ سے دھوکہ کھاکر کسی ایسی حدیث پر وضع کا حکم لگانے میں جلدی نہیں کرنی چاہئے جس کا وجود متقدمین کی کتابوں میں نہ ہو. اس لئے کہ ابھی بھی متقدمین کی بہت سی کتابیں مخطوطات کی شکل میں کتب خانوں کی زینت بنی ہوئی ہیں. اور بہت سی کتابیں حوادث زمانہ کی نذر ہوگئی. جیسے مسند بقی بن مخلد (متوفی ۲۷۶)
جسے سب سے بڑا مسند تصور کیا جاتا ہے اس کا ایک حصہ ابھی بھی مفقود ہے. اسی طرح المعجم الکبیر للطبرانی (متوفی۲۶۰)سے مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ مفقود ہے.
احتمال اس بات کا موجود ہے کہ وہ حدیث جس کا ہمیں موجودہ کتابوں میں سراغ نہیں لگ رہا ہے وہ ان کتابوں میں ہوں جو ابھی تک مخطوطات کی شکل میں ھیں یا ایسی کسی کتاب میں تھی جو حوادث زمانہ کی نذرہوگئی ہو.
ایسی صورت میں باحث کے لئے احتیاط کی بات یہ ہے کہ ایسی احادیث پر موضوع ھونے کا حکم لگانے کے بجائے یا انہیں موضوع سمجھنے کے بجائے “لم اجدہ ” لکھے یا کہے جیسے کہ حافظ ابن حجر اور حافظ زیلعی وغیرہ نے یہ طریق اختیار کیا ہے۔
بہت سے لوگ صرف نیٹ پر تلاش کرنے کے بعد نہ ملنے کی صورت میں وضع کا حکم لگانے میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں. یہ ایک بڑے خطرہ کی بات ہے . اس لئے کہ جس طرح غیر ثابت شدہ کو ثابت ماننا یہ برا ہے اسی طرح جس میں ثابت ہونے کا امکان ہو اس حدیث کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ توڑ دینا یہ بھی براہے۔
انٹر نیٹ پر موجود کتابوں کے بارے میں یہ کہنا بھی مشکل ھے کہ انٹرنیٹ نے تمام مطبوع کتابوں کو شامل کرلیا ھے چہ جائے کہ مخطوطات کے بارے میں یہ کہا جائے۔
یہ چند باتیں کچھ لوگوں کی بے احتیاطی کی وجہ سے نوک قلم پر آگئی ہیں۔ احباب سے گذارش ھے کی اپنی قیمتی آراء پیش فرماکر اصلاح فرمائیں۔
کتبہ
محمد ادریس گودھروی
متخصص جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور
مصنف ہم علم حدیث کیسے پڑھیں