دینی مدارس سے آٹھ دس سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد فضلاءجب عملی میدان میں قدم رکھتے ہیں تو ان میں سے کچھ دینی مدارس کے روایتی طریقے سے ہٹ جاتے ہیں۔ کئی فضلاءدینی مدارس، علمائے کرام اور مذہبی طبقے سے نالاں ہوتے ہیں، جبکہ بعض دینی مدارس کی سوچ سے ہٹ کربالکل الگ، متضاد اور آزاد سوچ اپنا لیتے ہیں، دینی مدارس کی نظر میں ایسے فضلاءلبرل اور سیکولر کہلاتے ہیں۔ بعض ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں کہ بعض فضلاءدین پر بھی معترض ہوتے ہیں، جو سیکولر سے بھی اگلا درجہ ہے۔ دینی مدارس کے لیے یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال ہے۔ ایسے فضلاءکو صرف برا بھلا کہہ دینا اس مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے۔ یقینا کہیں تو کوتاہی دینی مدارس سے بھی ہوئی ہو گی جو آٹھ دس سال میں ایسے فضلاءکو مطمئن نہیں کرسکے یا کبھی مطمئن کرنے کی کوشش ہی نہیں کی، ورنہ اتنے سال اتنی بڑی بڑی کتابیں پڑھنے کے بعد دینی مدارس کی صفوں سے نکلنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ آٹھ دس سال تھوڑے نہیں ہوتے۔ اس عرصے میں بہت کچھ سکھایا جاسکتا ہے۔ جو پڑھایا جاتا ہے، وہ بھی ضروری ہے، لیکن کافی نہیں۔ علماءدین کے محافظ ہیں، ان کو اس سے بہت زیادہ سکھانے کی ضرورت ہے، جو سکھایا جارہا ہے، کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ مدارس سے نکلنے کے بعد ان کا واسطہ صرف ایسے لوگوں سے ہی پڑے جو ان سے نماز روزہ یا مختلف مسالک کے اختلافی مسائل ہی ڈسکس کریں۔ بہت سے جدید سوچ کے افراد مذہب، خدا، قرآن اور دیگر کئی حساس معاملات پر بھی سوالات لے کر آسکتے ہیں، جن کو مطمئن کرنا علماءکرام کی ذمہ داری ہے، لیکن جو خود مطمئن نہ ہوئے، دوسروں کو مطمئن کیا کرسکیں گے؟ اس لیے دینی مدارس میں طلباءکو مذہب، خدا، قرآن، نبی اور دیگر بہت سے معاملات پر مستشرقین اور غیرمسلموں کی جانب سے کیے گئے اعتراضات سمیت دور جدید کے اعتراضات کے جوابات سکھانا بھی ضروری ہے، بڑے علماءکی نگرانی میں ان کی ایسی تربیت ہونی چاہیے کہ مدارس سے نکلنے کے بعد وہ کم از کم سیکولر افراد کی صفوں میں شامل نہ ہوں۔ یہ سب کچھ سکھانا دینی مدارس کی ذمہ داری ہے، اگر سکھانا مشکل ہے تو بھی اس کی کوئی سبیل نکالنا ضروری ہے، لیکن یہاں تو نصاب ہی اتنا بھاری بھرکم ہے کہ سارا سال ان کتابوں کو مکمل کرنے کی دوڑ لگی رہتی ہے، سال کے اختتام تک نہ تو کتابیں مکمل ہوتی ہیں اور نہ ہی اکثریت کو عبارت تک پڑھنا آتی ہے۔
دینی مدارس کو کیا اس بات پر غور نہیں کرنا چاہیے کہ کئی سال دینی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود کچھ فضلاءآخر ”لبرل“ و ”سیکولر“ کیوں بن جاتے ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ ایسے فضلاءدیگر فضلاءسے زیادہ ذہین ہوتے ہیں، جو مختلف مذہبی معاملات پر غیرروایتی طریقے سے کچھ وسعت کے ساتھ سوچنا چاہتے ہیں، لیکن انہیں کئی سال پڑھنے کے باوجود اس کی تربیت ہی نہیں دی گئی ہوتی جو وہ سوچ رہے ہوتے ہیں، انہیں کبھی محدود دائرے سے باہر نکل کر سوچنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ ان کو کبھی دینی معاملات کو دنیا کی نظر سے دیکھ کر اس میں غور و خوض کرنا سکھایا ہی نہیں گیا۔ ان کو دوران تعلیم دین کے معاملے میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات دینا سکھایا ہی نہیں گیا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب ان کے ذہن میں کئی دینی معاملات کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں یا کوئی ان کے سامنے ایسے سوالات کرتا ہے جو انہوں نے کبھی دینی مدارس میں سنے ہی نہ تھے، توپھر نتیجتاً وہ اپنی عقل سے اس دائرے سے نکلنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں، جس دائرے میں دینی مدارس میں رہ کر بند ہوگئے تھے، اس کے نتیجے میں وہ بہت دور تک چلے جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسی سوچ کے افراد کی اگر تربیت کی جائے تو دینی مدارس کے لیے بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کی سوچ دیگر فضلاءسے زیادہ وسیع ہوتی ہے۔ جو ایک عام روایتی طالب علم سے کئی گناہ زیادہ، بہتر اور دور جدید کی سوچ میں ڈھال کر کام کرسکتے ہیں۔ دینی مدارس کو بہرحال اس جانب توجہ دینی چاہیے۔
(عابد محمود عزام)