ذیشان الحسن عثمانی
ہمارے معاشرے میں کرنے کے اولین کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ مخدومیت کے مزاج کو توڑا جائے۔ ہم میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بہت سے کام کوئی اور کر دے۔ کوئی پانی لا دے، کوئی چائے پلا دے، کوئی دروازہ کھولے، کوئی سالن کا ڈونگہ پکڑ کر بازو میں کھڑا رہے، کوئی گرم گرم روٹیاں لالا کر دیتا رہے، کوئی ٹی وی کا ریموٹ ڈھونڈ دے، کوئی موبائل چارجر پر لگا دے، کوئی گاڑی گھر کے اندر پارک کروا دے کوئی کپڑے استری کر دے، کوئی باتھ روم تیار کر دے کوئی پائوں دبا دے تو کوئی بستر کے ساتھ پانی اور جوتیاں رکھ دے۔
اپنے بڑے پاک یا مقدس ہونے کا گھمنڈ اور یہ روش آدمی کو دو ٹکے کا نہیں چھوڑتی۔ اس مزاج پہ کام کریں اسے توڑیں۔ اپنا کام خود کریں کہ یہی تقویٰ ہے اور یہی حضرت رسالت پناہ ﷺ کا طریقہ تھا۔
آپ کی رائے آخر میں پوچھی جائے، کھانا سب سے پہلے آپ کو پیش کیا جائے، آپ روٹی کے کنارے چھوڑ دیں اور آپ کی بات کے جواب میں کوئی کچھ نہ کہے، یہ تکبر نہیں تو اور کیا ہے؟
اپنے خیالی پلائو، جھوٹی تمنائوں اور من گھڑت پاکیزگی کی بنا پر لوگوں کو حقیر سمجھنا کہاں کا انصاف ہے؟ ڈریں ان آہوں سے جو رات کی تاریکی میں سفر کرتی ہیں آسمانوں کی طرف جاتی ہیں، نظر نہیں آتیں مگر آپ کا بیڑہ غرق ضرور کروا دیتی ہیں۔ یاد رکھیں کسی کی آہ آپ کی دعائوں کو روک دیتی ہے۔ کسی دن کوئی صاحب حال آپ کی تیز طرار زبان کے نیچے آگیا تو آہوں کے حصار میں دعائیں راکھ کر دے گا۔
اپنی نیکیوں، شہرت، کارناموں کو ایسے چھپائیں جیسے کوئی اپنی برائی چھپاتا ہے۔ انسان کو انسان سمجھیں۔ نوکروں، مالیوں، ڈرائیوروں اور ہر عام و خاص کا یکساں خیال رکھیں۔ کسی کو گالی مت دیں۔ آپ کو کام نہیں پسند، نوکری سے نکال دیں مگر گالی مت دیں۔
کبھی ایسے شخص کو کچھ نہیں کہنا چاہئے جس کا اللہ کے سوا کوئی نہ ہو۔ چار ٹائروں سے زیادہ چار آدمیوں کا خیال رہے(جو آپ کے جنازے کو لے کر چلیں گے) تو آدمی کبھی اپنی گاڑیوں کا تذکرے نہیں کرتا۔
یہ مزاج آرام سے نہیں ٹوٹتا، کسی ایسی جگہ جائیں جہاں نفس پرچوٹ پڑے، مزید تعریفیں نہ ہوں، تعریف و تذلیل دونوں سے آدمی کو بچنا چاہئے، یہ صلاحیتوں کو زنگ لگا دیتی ہیں۔
آئیے! وعدہ کریں کہ اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرنے کی عادت ڈالیں گے کہ آدمی ایسے ہی بڑا ہوتا ہے۔