قربانی کے اسباق
پہلا سبق:
قربانی عقل ونقل کے آئینے میں
(مفتی) محمدانس عبدالرحیم
دارالافتاء جامعۃ السعیدکراچی پاکستان
قربانی کی تاریخ:
قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی ۔حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل اور قابیل نےبارگاہِ خداوندی میں قربانی پیش کی تھی جس کا ذکر خود قرآن میں ہے ۔ محمد فرید وجدی کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام نے ایک مذبح بنایاتھا جس میں وہ بہت سارے جانور اللہ کے نام پر قربان کرتے تھے ۔
اسرائیلی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی جانوروں کی قربانی کیا کرتے تھے ، توریت میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی قربان گاہ کا تذکرہ ملتا ہے ، شریعت موسویہ میں قربانی کی اتنی ہی اہمیت حاصل رہی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور اہم اور افضل عبادت ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کی دیگر تمام ہی اقوام ومذاہب میں قربانی کا رواج رہاہے ۔ فرید وجدی صاحب کے بیان کے مطابق بعض اقوام نے قربانی میں اتنا غلو کیا کہ انسانوں کو ذبح کرنے لگے ۔چنانچہ قدیم زمانے کےاہل فارس، اہل روما ،اہل مصر اورکنعانیوں کا یہی طریقہ رہا ،بعد میں ساتویں صدی عیسوی کے بعد یورپ میں “روحانی شیوخ کمیٹی ” کو اس کے اِبطال کا حکم صادر کرنا پڑا، معلوم ہوا کہ قربانی کا طریقہ محض ایک ہزار سال پہلے ایجاد ہونے والی رسم نہیں۔ بلکہ اس کا رشتہ قدیم تریم مذہبی عبادات سے جڑتا ہے جو دنیا میں آنے والی تقریبا ہر قوم کا ایک مذہبی فریضہ رہا ہے ۔
اسلام اور قربانی:
اسلام نے قربانی کو ایک مذہبی شعار قراردیا ہے ۔قرآن واحادیث وکتب فقہ اس کے احکام سے بھری پڑی ہیں ۔قرآن میں متعدد جگہ قربانی کا ذکر ہے،جن میں سے بعض جگہ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ قربانی کو اللہ پاک نے ہر امت کو قربانی کو اللہ پاک نے ہرامت کے لیے مذہبی عبادت بنایاہے اور بعض جگہ حضور ﷺ کے واسطے سے امت کو قربانی کرنے اور نماز عید پڑھنے کا حکم دیا ہے ۔حجۃ الوداع میں حضور ﷺ نے اپنے دست اقدس سے تریسٹھ (63) اونٹ ذبح کیے اور سینتیس (37) اونٹ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اپنی ہی نیابت میں ذبح کرائے۔کیا اس کے بعد بھی یہ کہنے کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ ” قربانی محض ایک ہزار سال پرانی رسم ہے “
قربانی پراشکال اور ان کا جواب:
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جانوروں کو ذبح کرنا بے رحمی ہے۔ہم انہیں سمجھا سکتے ہیں کہ قربانی اللہ پاک کا حکم ہے اور اللہ پاک ارحم الراحمین ہے۔سگی ماں سے بھی زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا۔ جب اس نے قربانی کا حکم دے دیا تو ہم کون ہوتے ہیں کہ قربانی نہ کرکے اللہ پاک سے زیادہ رحم کے اظہار کا بھونڈا دعویٰ کریں۔ ہم اس کے یہ جانور اس کے،اس کی یہی مرضی ہے کہ کائنات کی ہر چیز انسان کی خدمت گار اور اس کی تابع رہے!!!
دوسری بات یہ ہے کہ ہر سال لاکھوں جانور ذبح ہوتے ہیں ،اگر ان کی قربانی روک دی جائے تو چند سالوں میں ان کی تعداد بے تحاشا بڑھ جائے گی اور ہر طرف جانور ہی جانور نظر آئیں گے ۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہی پیسہ جو قربانی پر لگتا ہے اسے غریبوں میں تقسیم کردیا جائے تو امت کے غریبوں کا بھلا ہوجائے۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ قربانی سے غریبوں کا ہی بھلا ہوتا ہے۔آپ کےغریب پڑوسی اور محتاج رشتہ دار جنہیں عام دنوں میں دال روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے ،ان کے پاس گوشت کا اسٹاک جمع ہو جاتا ہے جو بعض اوقات تین تین چار چار مہینے ان کے کام آتا ہے۔قربانی کے جانور فروخت کرنے والے، انہیں منڈیوں میں لانے لے جانے والے ٹرانسپورٹر اکثر غریب طبقے سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔رسیاں، چٹائیاں بناکر بیچنا،چھری تیز کرنا، روغن، ہڈیاں بیچناان سب پیشوں کا تعلق مزدور طبقے سے ہی ہے۔قربانی کی کھالیں جہاں مدارس کے لیے باعث ِ رحمت ہیں وہاں بہت سے اسکولز، ہسپتال اور فلاحی ادارے بھی اس سے کثیر مالی فوائد حاصل کرتے ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قربانی کرتے رہنے سے جانور کم ہوجائیں گے ۔اس کے بارے میں یہ بات سمجھ لیں کہ ہزاروں سالوں سے قربانی ہوتی چلی آرہی ہے ،مگرکبھی جانوروں میں کمی نہیں ہوئی ، جب اللہ پاک نے جانورں کی قربانی کا حکم دیاہے تو وہی اس کا ضامن بھی ہے کہ قربانی ہونے والے جانوروں کی تعداد کم نہ ہونے دے اور ہر سال آسانی سے قربانی کے جانور مہیا ہوجائیں ، آج تک دنیا کا مشاہدہ یہی ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں قربان ہونے والے جانور کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی ہیں،کبھی کم نہیں ہوتے جبکہ جو جانور قربان نہیں ہوتے ان کی نسلیں ختم ہونے کو ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ انہیں اگر اللہ پاک کی خاطر قربان نہ کیاجائے تو بوڑھے ہو کر سسک سسک کر نڈھال اور معذور ہو کر سخت کرب واذیت میں مریں گے ، نیز لوگوں کی مار پیٹ اور بے رحمی بھی برداشت کرنی پڑے گی ،کیا ان تمام سختیوں اور مشقوں سے یہ بہتر نہیں کہ سکون اور راحت سے عزت واکرام کے ساتھ اپنے خالق کے نام پرقربان ہوجائیں !!!
بالوں میں جوئیں پڑجائیں تو انہیں مار ڈالا جاتا ہے ، زخم میں کیڑے پڑجائیں تو انہیں بھی مارڈالا جاتا ہے ، عقل پرست اسے بے رحمی سے کیوں تعبیر نہیں کرتے ؟ فوج اپنی قوم اور وطن کی خاطر اپنی جان قربان کردیتی ہے۔اپنے قیمتی اعضا قربان کردیتی ہے ، کیا یہ بے رحمی نہیں جو قوم اور قوم کے رہنما ان کے ساتھ کرتے ہیں ؟ جسم کا کوئی عضو مسموم ہوجائے تو اسے جسم کے دوسرے اعضا کی اصلاح کی خاطر کاٹ دیاجاتا ہے ۔ یعنی جسم کا ایک عضو دوسرے اعحاء جسمانی کے لیے قربانی دے دیتا ہے عید اور تہوار میں مزدور طبقہ اپنی خوشیوں کو دوسروں پر قربان کردیتے ہیں ۔کیا یہ ان کے ساتھ بے رحمی نہیں؟
دیکھیے!دنیا تو قربانی پر ہی چل رہی ہے ۔ غریب قربانی دیتا ہے امیر کے لیے ،فوجی قربانی دیتا ہے اپنی قوم اور وطن کے لیے مجاہد قربانی دیتا ہے اپنے دین کی سر بلندی اور اپنے خدا کی رضا کے لیے ، جسم کا ایک عضو قربانی دیتا ہے دوسرے اعضا کے لیے ۔والدین اورا ساتذہ قربانی دیتے ہیں اپنی اولاد اور شاگردوں کے لیےجب یہ قربانی بے رحمی نہیں تو جانور جنہیں خدا نے ( جو ان کو پیدا کرنے والا ہے ) انسان کے نفع کے لیے ہی پیدا کیا ہے ،اگر انسان کے نفع کے لیے قربان ہوجائیں تو اس میں کون سی بے رحمی کی بات ہے ؟