کالم: مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتہم العالیہ
جامعہ دارالعلوم کراچی کے عصری تعلیم کے ادارے ’’حرا فاؤنڈیشن سکول‘‘ کی ایک تقریب کی رپورٹ اخبارات میں نظر سے گزری جو سکول کے 31 حفاظ قرآن کریم کی دستار بندی کے حوالہ سے منعقد ہوئی۔ اس میں حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے علاوہ مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور مولانا مفتی محمد نے بھی شرکت کی۔ تقریب میں اپنے خطاب کے دوران مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے کہا کہ:
’’ہمیں ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس میں دینی اور دنیوی تعلیم اکٹھی دی جائے، جہاں دین کی بنیادی معلومات سب کو پڑھائی جائیں۔ اس کے بعد ہر ہر شعبہ میں اختصاص کے مواقع دیے جائیں۔ یہ نظام تعلیم ہمارے اسلاف کی تاریخ سے مربوط چلا آرہا ہے۔‘‘
مفتی صاحب محترم کا یہ ارشاد پڑھ کر دل سے بے ساختہ ’’تری آواز مکے اور مدینے‘‘ کی صدا بلند ہوئی اور ماضی کی بعض یادیں تازہ ہوگئیں۔ یہ بات سب سے پہلے حضرت مفتی صاحب کے والد گرامی مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز نے اب سے کوئی چھ عشرے قبل فرمائی تھی۔ جبکہ گزشتہ صدی کے آخری عشرہ کے آغاز میں وفاقی حکومت کے قائم کردہ ’’قومی تعلیمی کمیشن‘‘ کی ایک خصوصی کمیٹی کے کنوینر جسٹس (ر) محمد ظہور الحق کے استفسار کے جواب میں راقم الحروف نے بھی یہی گزارش تحریر کی تھی۔ اس وقت مجھے حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ کے ارشاد کا علم نہیں تھا، بعد میں ایک موقع پر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی زبان سے اس کا تذکرہ سنا تو دل کو اطمینان ہوا کہ
متفق گردید رائے بو علی با رائے من
اس سوال نامہ کا جواب قومی تعلیمی کمیشن کو بھجوانے کے علاوہ ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے جنوری 1992ء کے شمارہ میں شائع ہوگیا تھا۔ اسے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے سے قبل یہ عرض کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پرائیویٹ دائرہ میں اس سمت کام کا آغاز پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی ہوگیا تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق سب سے پہلے ٹیکسلا میں حضرت مولانا محمد داؤدؒ اور ان کے رفقاء نے شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی سرپرستی اور راہ نمائی میں ’’تعلیم القرآن ہائی سکول‘‘ کے نام سے یہ سلسلہ شروع کیا تھا جس کے نظام میں دینی و عصری علوم کو جمع کیا گیا تھا، تب سے اس پہلو پر ملک کے مختلف حصوں میں تجربات کا سلسلہ جاری ہے۔
اس رخ پر ایک اعلیٰ سطحی کوشش گزشتہ صدی کے چھٹے عشرہ کے دوران لاہور کے قریب سرائے مغل میں ’’جامعہ حمیدیہ‘‘ کے نام سے بھی کی گئی تھی جس کے محرکین میں حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ، آغا شورش کاشمیریؒ اور مولانا محمد اکرمؒ (الہلال فونڈری) بھی شامل تھے۔
گوجرانوالہ میں ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے عنوان سے یہی تجربہ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ کی سرپرستی اور راہ نمائی میں کیا گیا جو اب ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے مصروف کار ہے۔ جامعہ خالد بن ولیدؓ وہاڑی، جامعہ حنفیہ بورے والا، ادارہ علوم اسلامی بہارہ کہو اسلام آباد، اور جامعۃ الرشید کراچی اسی محنت کی ارتقائی صورتیں ہیں جبکہ ان کی طرز پر ملک کے مختلف حصوں میں ہماری معلومات کے مطابق بیسیوں ادارے اس سمت محنت اور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس حوالہ سے حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے کسی پیش رفت کی تو بظاہر کوئی توقع نہیں ہے، البتہ پرائیویٹ سطح پر اس دائرہ میں کام کرنے والے ادارے باہمی مشاورت کا کوئی نظام وضع کر لیں تو اس محنت کو نہ صرف مربوط بنایا جا سکتا ہے بلکہ بہتر پیش رفت کے راستے بھی نکالے جا سکتے ہیں۔ اس لیے ہماری رائے میں دینی و عصری تعلیم کے امتزاج کے دائرہ میں کام کرنے والے اداروں کا کوئی مشترکہ مشاورتی اجلاس وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کیا جائے اور باہمی مشاورت کے ساتھ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز کے اس حسین خواب کی عملی تعبیر کی کوئی شکل اختیار کی جائے۔ دروازہ تو ہم نے کھٹکھٹا دیا ہے دیکھیں کنڈی کھولنے کے لیے کون آگے بڑھتا ہے؟
ان گزارشات کے ساتھ 1992ء کے قومی تعلیمی کمیشن کی خصوصی کمیٹی کا سوالنامہ اور اس کا جواب قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
سوالنامہ
محترم و مکرم السلام علیکم! حکومت پاکستان نے شریعت کے نفاذ کے لیے اپنی کاوشوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ شریعت بل 1991ء کے تحت قومی تعلیمی کمیشن برائے اسلامائزیشن تشکیل دیا گیا ہے۔ اس کمیشن کی پہلی نشست 3 ستمبر 1991ء کو ہوئی تھی او رکمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ کمیٹی نمبر 5 کا میں کنوینر ہوں۔ یہ کمیٹی دینی مدارس کے مسائل، ضروریات اور سہولتوں کے مسائل پر غور و فکر کر رہی ہے۔ دینی مدارس کے مسائل کا علم آپ کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ تعلیم کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے میں کمیشن کی اعانت فرمائیں، اور دینی مدارس کو کیا سہولتیں حکومت سے درکار ہو سکتی ہیں، اس کی وضاحت فرما دیں۔
سفارشات 5 دسمبر سے پہلے ارسال فرما دیں۔
1- دینی مدارس کو حکومت کی مالی معاونت کی ضرورت سے متعلق آپ کی تجاویز۔
2- دینی مدارس کے مسائل اور ضروریات۔
3- دینی مدارس کو حکومت کس طرح کی سہولتیں مہیا کرے؟
4- جدید نظام تعلیم کو اسلامی خطوط پر کس طرح استوار کیا جائے؟
5- دینی مدارس میں جدید علوم کو کس طرح متعارف کرایا جائے؟
یہ بھی درخواست ہے کہ دینی مدارس اور عام مدارس کے نصاب اور نظام میں کس طرح ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں بھی اپنی تجاویز تحریر فرما دیں، نوازش ہوگی۔
تعاون کا پیشگی شکریہ، والسلام
جسٹس (ریٹائرڈ) محمد ظہور الحق، کنوینر نیشنل ایجوکیشن کونسل، اسلام آباد
جواب
حکومت پاکستان کے قائم کردہ نیشنل ایجوکیشن کمیشن کی کمیٹی نمبر 5 نے دینی مدارس اور مروجہ تعلیمی اداروں کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے جو سوالنامہ جاری کیا ہے، اگرچہ اس مین چھ سوالات ہیں، لیکن یہ سب سوالات بنیادی طور پر دو سوالوں پر مشتمل ہیں۔ ایک یہ کہ عصری، اسکولوں اور کالجوں کے نصاب و نظام کے ساتھ دینی مدارس کے نصاب و نظام کو کس طرح زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے؟ اور دوسرا یہ کہ دینی مدارس کو درپیش مسائل و ضروریات میں حکومت کیا تعاون کر سکتی ہے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، اس ضمن میں یہ گزارش ہے کہ اگرچہ یہ بظاہر ایک دلکش اور خوشنما تصور ہے لیکن اصولی طور پر یہ غلط اور غیر منطقی سوچ ہے۔ کیونکہ اس سوچ کی بنیاد ان دونوں نظام ہائے تعلیم کی جداگانہ ضروریات و اہمیت کو تسلیم کرنے پر ہے، اور یہ ضرورت و اہمیت بجائے خود محل نظر ہے۔
عصری اسکولوں اور کالجوں کا نظام تعلیم مستقل حیثیت کا حامل ہے، جبکہ دینی مدارس کا نظام تعلیم اس سے بالکل مختلف اور الگ حیثیت رکھتا ہے۔ ان دونوں کا آغاز 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اس دور کی قومی ضروریات کے پیش نظر ہوا تھا۔ دونوں تعلیمی نظاموں کی بنیاد خوف اور تحفظات پر تھی۔ جدید تعلیم کا نظام کھڑا کرنے والوں کے سامنے یہ خوف تھا کہ اگر مسلمانوں نے انگریزی تعلیم حاصل نہ کی تو وہ نئے قومی نظام میں شریک نہیں ہو سکیں گے اور ان کے ہندو معاصرین اس دوڑ میں آگے بڑھ کر قومی زندگی پر تسلط جما لیں گے جس سے مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن کر رہ جائیں گے۔ جبکہ دینی تعلیمی نظام کے بانیوں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر قرآن و سنت اور عربی علوم کی تعلیم کا اہتمام نہ کیا گیا تو مسلمانوں کا رشتہ اپنے مذہب اور اعتقاد سے کٹ جائے گا اور وہ دینی تشخص سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ دونوں خوف اپنی اپنی جگہ صحیح تھے اور انہی کی بنیاد پر دو الگ اور مستقل نظام ہائے تعلیم وجود میں آگئے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ان میں سے کسی خوف کے تسلسل کا کوئی جواز باقی نہیں رہ گیا تھا اور قومی دانشوروں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان خدشات کی نفی کرتے اور دونوں محاذوں پر قوم کو خوف سے نجات دلا کر خوف اور تحفظات کی بنیاد پر تشکیل پانے والے دونوں تعلیمی نظاموں کے یکسر خاتمہ کی راہ ہموار کرتے، لیکن بدقسمتی سے اب تک ایسا نہیں ہوا۔ اور ہم حصول آزادی کے تقریباً نصف صدی بعد بھی تعلیمی پالیسیوں کے لحاظ سے ابھی تک انیسویں صدی کے اواخر کے ذہنی دائروں میں کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹ رہے ہیں۔
کالجوں اور دینی مدارس کے نصاب و نظام میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہماری بنیادی تعلیمی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض ایڈہاک ازم ہے جو کسی ٹھوس اور واضح تعلیمی پالیسی کے جڑ پکڑنے تک ایک عبوری اور عارضی انتظام کا درجہ تو پا سکتی ہے لیکن یہ ہمارے تعلیمی مسائل کا حل نہیں ہے۔ اور اگر سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو دونوں نصابوں کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنا قابل عمل اور ممکن بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اگر دونوں نصاب پورے کے پورے یکجا کر دیے جائیں تو طلبہ کی میسر کھیپ میں سے شاید پانچ فیصد اسے بمشکل کور کر سکیں۔ اور اگر ایک کو بنیاد بنا کر دوسرے نصاب کی چند چیزیں اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کی پالیسی اختیار کی جائے تو اسے ’’ہم آہنگی‘‘ قرار دینا مشکل ہو جائے گا۔ اس لیے ہمارے نزدیک یہ تصور ہی سرے سے غلط ہے کہ دونوں نظام ہائے تعلیم کو یکجا کرنے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ جرأت و حوصلہ سے کام لے کر ان دونوں نظام کی نفی کرتے ہوئے ایک نئے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جائے۔ ان دو نظام ہائے تعلیم کی نفی کا مطلب ان کے قومی کردارکی نفی نہیں ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے دائرے میں قوم کی خدمت کی ہے اور ان میں سے کسی کے کردار کی اہمیت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ان کی ضرورت اور اہمیت کا دور گزر چکا ہے اور دونوں نظام اپنی طبعی عمر پوری کر چکے ہیں۔ اس لیے انہیں مصنوعی تنفس کے ذریعے سے زندہ رکھنے کی کوشش نہ عقل و دانش کا تقاضا ہے اور نہ ہی ایسا کرنا نئی نسل کے ساتھ انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوگا۔ ہمارے خیال میں قومی تعلیمی کمیشن کا اصل رول یہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک نئے اور انقلابی تعلیمی نظام کے لیے قوم کی ذہن سازی کرے اور دونوں طبقوں کے ماہرین تعلیم کو اعتماد میں لے کر نئے تعلیمی نظام کا ڈھانچہ تشکیل دے۔
نئے تعلیمی نظام کو بنیادی شخصی ضروریات اور قومی تقاضوں کے دو دائروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک تعلیمی نظام کا پہلا حصہ بنیادی شخصی ضروریات پر مشتمل ہونا چاہیے جبکہ دوسرے حصے میں قومی ضروریات کو ایک حسین توازن و تناسب کے ساتھ سمو دینا چاہیے۔ مثلاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر شہری کی بنیادی ضروریات مندرجہ ذیل ہیں:
1- اس کی مادری اور علاقائی زبان پر اسے عبور ہو اور وہ اسے لکھنے پڑھنے پر قادر ہو۔
2- قومی زبان اردو پر بھی اسے یہی قدرت حاصل ہو۔
3- دینی زبان عربی کے ساتھ اس کا اتنا تعلق ضرور ہو کہ وہ قرآن و حدیث کو سمجھ سکے۔
4- بین الاقوامی زبان انگریزی پر بھی اسے دسترس حاصل ہو۔
5- عقائد، عبادات، اخلاق اور معاملات کے بارے میں اسے اتنا دینی علم حاصل ہو کہ وہ ایک صحیح مسلمان کی حیثیت سے زندگی بسر کر سکے۔
6- اتنا حساب کتاب جانتا ہو کہ روز مرہ کے معاملات میں اسے دقت پیش نہ آئے۔
7- ملکی اور بین الاقوامی حالات اسے اس قدر ضرور واقف ہو کہ قومی تقاضوں کو سمجھ سکے۔
8- وہ جدید سائنسی علوم کے بارے میں بھی بنیادی معلومات سے بہرہ ور ہو۔
ہماری تجویز یہ ہے کہ ان بنیادی ضروریات پر مشتمل نصاب تعلیم کو میٹرک تک از سر نو مرتب کیا جائے اور اسے ہر شہری کے لیے قانوناً لازمی قرار دے دیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے کے تعلیمی نظام میں قومی تقاضوں کو سامنے رکھ کر شعبوں کی تقسیم کی جائے۔ مثلاً ہمیں اچھے علماء کی ضرورت ہے، بہترین سائنس دانوں کی ضرورت ہے، قابل ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، ماہر انجینئروں کی ضرورت ہے، اسی طرح زندگی کے دوسرے شعبوں میں ماہرین درکار ہیں۔ اس لیے میٹرک کے بعد ہر طالب علم کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنے ذوق اور صلاحیت کے مطابق ان میں سے کسی ایک شعبہ میں تعلیم و مہارت حاصل کرے۔ اور قومی پالیسی کے طور پر ایک ایسا توازن قائم کیا جائے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کی ضروریات تناسب کے ساتھ پوری ہوتی رہیں۔
دوسرا اہم سوال دینی مدارس کی ضروریات و مسائل میں حکومت کے ممکنہ تعاون کی صورت کے بارے میں ہے۔ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ دینی مدارس معاشرہ میں قرآن و سنت اور دیگر دینی علوم کی ترویج اور بقا و تحفظ کا جو کردار ادا کر رہے ہیں وہ بہت بڑی قومی خدمت ہے۔ اور جب تک دینی تعلیم کی تمام ضروریات کو اپنے اندر سمونے والا کوئی ہمہ گیر نظام تعلیم وجود میں آکر مستحکم نہیں ہو جاتا، اس وقت تک دینی مدارس کی ضروریات اور ان کا کردار بہرحال ایک ناگزیر قومی تقاضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ دینی مدارس کا یہ کردار ان کے اس آزادانہ نظام کی بدولت ہی تاریخ میں اپنی جگہ بنا سکا ہے جو ہر دور میں حکومت کی سرپرستی اور دخل اندازی سے بے نیاز رہا ہے۔ اگر دینی مدارس کو وقت کی حکومتوں کی دخل اندازی سے آزادی اور بے نیازی حاصل نہ ہوتی تو ان کی خدمات اور جدوجہد کے نتائج کی موجودہ شکل سامنے نہیں آسکتی تھی۔ اس لیے ہمارے نزدیک دینی مدارس کا سب سے بڑا مسئلہ اور ان کی سب سے اہم ضرورت ان کے آزادانہ تعلیمی کردار کا تحفظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو دینی ادارے اپنے معاشرتی کردار کی اہمیت سے شعوری طور پر آگاہ ہیں وہ ہر دور میں سرکاری امداد قبول کرنے سے گریزاں رہے ہیں، اور آج بھی بے نیازی کی اسی روش پر گامزن ہیں۔ محتاط دینی اداروں کی سوچ یہ ہے کہ پاکستان میں قائم ہونے والی حکومتوں کا اسلام کے ساتھ تعلق مخلصانہ اور نظریاتی نہیں بلکہ مصلحت پرستانہ ہے، اور وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی سرکاری امداد حکومت کی پالیسیوں اور مصلحتوں کے ساتھ کسی نہ کسی درجے میں وابستگی کا احساس ضرور پیدا کر دیتی ہے۔ پھر بعض تجربات نے اس احساس کو بھی جنم دیا ہے کہ حکومت کی سرپرستی میں آنے کے بعد دینی مدارس شاید اپنے موجودہ کردار کو برقرار نہ رکھ سکیں گے۔ جیسا کہ محکمہ تعلیم کی تحویل میں آنے والے جامعہ عباسیہ بہاولپور اور محکمہ اوقاف کے کنٹرول میں آنے والے جامعہ عثمانیہ اوکاڑہ کے انجام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے اگر حکومت دینی مدارس کو ان کے آزادانہ کردار کے تحفظ کا یقین اور اعتماد دلا سکے تو یہ ان مدارس کے ساتھ حکومت کا سب سے بڑا تعاون ہوگا۔ اور پھر آزادانہ کردار کے تحفظ کے ساتھ دینی مدارس کے اخراجات میں بھی ان سے تعاون، ان کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے میں ماہرین کے ذریعے سے ان کی راہنمائی، ان کی سندات کی مسلمہ حیثیت کو یقینی اور قابل عمل بنانے اور ان کے درمیان رابطہ و تعاون کی فضا کو بہتر بنانے کے اقدامات کے ذریعے سے حکومت دینی مدارس کی بہتر خدمت کر سکتی ہے۔
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت:
۲۰ مارچ ۲۰۱۶ء