فتویٰ نمبر:450
تعزیر مالی
سوال: تعزیر مالی یعنی جرمانے کا کیا حکم ہے؟ اگر یہ جائز ہے تو کس حد تک جائز ہے؟ اور اگر ناجائز ہے تو امام مالکؒ اور امام ابو یوسفؒ کے مسلک پر فتوی دینا کیسا ہے؟ نیز جو علماء کرام تعزیر مالی کے جواز کے قائل ہیں ان کے دلائل کی حیثیت اور ان کا جواب بھی واضح کیجیے۔ موجودہ دور میں جب کہ جرمانہ مالی کی ضرورت بہت زیادہ ہو چکی ہے، اس بارے میں کیا فتوی دیا جائے؟ جواب بالتفصیل مطلوب ہے۔ بینوا تؤجروا۔
الجواب باسم ملہم الصواب
تعزیر مالی کا مطلب:
فقہاء کرام نے تعزیر مالی کے دو مطلب لیے ہیں:
1۔ گناہ کا آلہ یا سبب بننے والی چیز کو ضائع کرنے کا حکم دینا۔ یہ تعزیر فی المال ہے جس کی یہاں بحث نہیں۔
2۔ کسی پر کسی عمل کی وجہ سے کچھ مال کی ادائیگی لازم کرنا۔ اسے جرمانہ کہا جاتا ہے اور اس کا حکم مطلوب ہے۔
جرمانے کا حکم:
مالی جرمانے کے مذکورہ طریقے پر تعزیر مالی کے حکم میں فقہاء کرامؒ کے درمیان اختلاف ہے اور اس بارے میں دو مذاہب ہیں جن کی وضاحت مع دلائل فریقین درج ذیل ہے:
مالی جرمانے کے جواز و عدم جواز کے بارے میں دو قول معروف ہیں:
قول اول: ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء و علماء کرام رحمہم اللہ کے نزدیک مالی جرمانہ لازم کرنا جائز نہیں 3۔ امام مالکؒ کا صحیح مذہب یہی ہے4 اور امام ابو یوسفؒ کی روایت کا صحیح محمل بھی یہی ہے5۔
قول ثانی: حنفیہ میں طرابلسیؒ 6اور حنابلہ میں ابن تیمیہؒ7 و ابن قیمؒ 8کا مسلک یہ ہے کہ مالی جرمانہ لازم کرنا جائز ہے اور یہ قاضی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ امام مالکؒ9، امام ابویوسفؒ 10اور مالکیہ میں ابن فرحونؒ 11کی جانب بھی اس قول کی نسبت کی گئی ہے۔ متاخرین میں سے علامہ شمس الحق افغانیؒ 12 نے اس مسلک کو اختیار کیا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کا رجحان بھی اسی جانب معلوم ہوتا ہے13۔
ادلہ مذاہب:
مجوّزین کے دلائل:
1۔ نبی کریم ﷺ نے زکوۃ ادا نہ کرنے والوں سے مالی جرمانہ لینے کا عزم کیا تھا14 نیز حرم مدینہ میں شکار کرنے والے کے مال و اسباب کوہر اس شخص کے لیے حلال قرار دیا تھا جو اس کو پالے15۔
2۔ عبد الرحمان بن حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے غلاموں نے ایک اونٹ چُرایا تھا۔ اس قصہ میں یہ مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمان رضی اللہ پر مالی جرمانہ نافذ کیا تھا16۔
3۔ مختلف جرائم پر نبی کریم ﷺ اور خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم نے مال کو ہلاک کرنے کے احکامات دیے17۔
4۔ دیت، کفارات، عقر و متعہ فی النکاح بھی تعزیرات مالی کے نظائر ہیں18۔
5۔ امام مالکؒ اور امام ابو یوسفؒ کا یہ مسلک ہے19۔
مانعین کے دلائل:
1۔ وہ آیات جن میں مسلمان کا مال اس کی رضا کے بغیر لینے سے روکا گیا ہے20۔
2۔ وہ روایات جن میں مال مسلم کو حرام قرار دیا گیا ہے21۔
3۔ ائمہ کرام کے صحیح اقوال کے مطابق ائمہ اربعہؒ و صاحبینؒ کے نزدیک تعزیر مالی جائز نہیں ہے22۔
راجح قول:
ہماری تحقیق کے مطابق قول اول یعنی عدم جواز کا قول راجح ہے۔ جہاں تک قول ثانی یعنی مجوزین کے دلائل مذکورہ بالا کا تعلق ہے تو ان سب کا جواب دیا گیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
جواب دليل 1: امام طحاویؒ اور ابن رشدؒ نے تعزیر مالی کو ابتداء اسلام کا عمل اور منسوخ قرار دیا ہے23۔ تعزیر باخذ المال کے حوالے سے ان کا قول قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کیوں کہ حرمت اموال مؤمنین والی روایت حجۃ الوداع کے موقع کی ہے اور ظاہر یہی ہے کہ عدم اداء زکاۃ وغیرہ پر جرمانہ کا حکم اس سے پہلے کا ہے۔لیکن اگر انہیں غیر منسوخ تسلیم کر لیا جائے تو بھی یہ اخبار آحاد اور آثار ہیں جن سے حضرات احنافؒ کے اصول کے مطابق آیات قرآنی کے عموم میں تخصیص درست نہیں ہے24۔ نیز ان پر ان خاص حالات کے علاوہ جرمانہ مالی کو قیاس کرنا خلاف قاعدہ ثابتہ ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے25۔
جواب دليل 2: یہ اثر صریح ہے لیکن آیات و احادیث کے عموم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مرجوح ہے۔
جواب دليل 3: آلہ جرم یا سبب جرم کو ہلاک کرنا مالی جرمانہ کے تحت نہیں آتا نہ اس پر مالی جرمانہ کو قیاس کرنا درست ہے۔
جواب دليل 4: یہ تمام احکام خلاف قیاس ہیں اس لیے ان پر مالی جرمانہ کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ نیز اس صورت میں یہ قیاس عموم نصوص کے خلاف ہو جائے گا جو کہ درست نہیں۔
جواب دليل 5: امام مالکؒ کا مسلک صحیح قول اور مالکیہ کی نقول کے مطابق تعزیر مالی کے عدم جواز کا ہے۔ امام ابو یوسفؒ کے قول کے بارے میں دو جوابات دیے گئے ہیں:
الف۔ علامہ شامیؒ نے اسے ضعیف روایت قرار دیا ہے26۔
ب۔ بزازیہ، مجتبیٰ اور مجمع الانہر میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہےکہ حاکم مجرم سے مال لے کر اپنے پاس رکھ لے اور جب مجرم توبہ کر لے اور جرم ترک کر دے تو اسے واپس کر دے۔ یہ مطلب کئی علماء نے ان سے آگے نقل کیا ہے27۔
موجودہ دور میں حکم:
موجودہ دور میں مالی تعزیر کے بارے میں علماء کرام دونوں آراء رکھتے ہیں اور اپنی اپنی رائے پر مختلف دلائل بیان فرماتے ہیں۔ عرب علماء کی ایک کثیر تعداد تعزیر مالی کی قائل ہےلیکن مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ مالی تعزیر جاری نہ کی جائے۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ عموم آیات و روایات کے خلاف ہے۔
2۔ ائمہ اربعہ اور مذاہب مشہورہ میں سے کسی کے قول سے اس کو تائید حاصل نہیں ہے۔
3۔ ظالم حکمرانوں کے لیے ظلم کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس بات پر اگرچہ یہ اشکال کیا گیا ہے کہ ” ظلم تو تعزیر کی دیگر قسموں کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے” لیکن یہ اشکال درست نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تعزیر بالضرب وغیرہ کا اطلاق اس قدر سہل نہیں جس قدر تعزیر مالی کا ہے۔ موجودہ دور میں لگنے والے بے شمار غیر معقول چالان اور پنالٹیز اس کی واضح دلیل ہیں ۔
4۔ اس میں عموماً امیرو غریب کا لحاظ نہیں رکھا جاتاجس کی وجہ سے ایک فریق ظلم کا شکار ہوتا ہے تو دوسرا آسانی سے ادائیگی کر کے جرم پر قائم رہتا ہے۔
5۔ عدالت اور خوف خداکی واضح کمی کی وجہ سے اکثر جج اور حَکَم کا تعصب ، ذاتی منافرت یا ضد کا شکار ہونا بعید از امکان نہیں ہے۔
ان وجوہات کو دیکھتے ہوئے تعزیر مالی کا جائز قرار نہ دیا جانا اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ البتہ چونکہ یہ مجتہد فیہ مسئلہ ہے اس لیے اگر کوئی عادل قاضی مالی جرمانہ لگائے تو اسے ختم نہیں کیا جائے گا۔
1،2: قال الدسوقي المالكي في حاشيته: “(قوله: وتصدق بما غش) أي جوازا لا وجوبا خلافا لعبق لما يذكره المصنف آخرا من قوله، ولو كثر فإن هذا قول مالك والتصدق عنده جائز لا واجب وما ذكره المصنف من التصدق هو المشهور وقيل: يراق اللبن ونحوه من المائعات وتحرق الملاحف والثياب الرديئة النسج قاله ابن العطار وأفتى به ابن عتاب وقيل: إنها تقطع خرقا خرقا وتعطى للمساكين وقيل: لا يحل الأدب بمال امرئ مسلم فلا يتصدق به عليه ولا يراق اللبن ونحوه ولا تحرق الثياب ولا تقطع الثياب ويتصدق بها، وإنما يؤدب الغاش بالضرب حكى هذه الأقوال ابن سهل، قال ابن ناجي: واعلم أن هذا الخلاف إنما هو في نفس المغشوش هل يجوز الأدب فيه أم لا، وأما لو زنى رجل مثلا فلا قائل فيما علمت أنه يؤدب بالمال، وإنما يؤدب بالحد وما يفعله الولاة من أخذ المالفلا شك في عدم جوازه، وقال الونشريسي أما العقوبة بالمال فقد نص العلماء على أنها لا تجوز وفتوى البرزلي بتحليل المغرم لم يزل الشيوخ يعدونها من الخطأ اهـ
(الشرح الكبير و حاشية الدسوقي،3/46، ط: دار الفکر)
3: “التعزير قد يكون بالحبس وقد يكون بالصفع وتعريك الأذن وقد يكون بالكلام العنيف وقد يكون بالضرب وقد يكون بنظر القاضي إليه بنظر عبوس كذا في النهاية وعند أبي يوسف – رحمه الله تعالى – يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة الثلاثة لا يجوز كذا في فتح القدير. ومعنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنده مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.”
(الفتاوی الھندیۃ، 2/167، ط: دار الفکر)
قال الدسوقي المالكي في حاشيته: “(قوله: وتصدق بما غش) أي جوازا لا وجوبا خلافا لعبق لما يذكره المصنف آخرا من قوله، ولو كثر فإن هذا قول مالك والتصدق عنده جائز لا واجب وما ذكره المصنف من التصدق هو المشهور وقيل: يراق اللبن ونحوه من المائعات وتحرق الملاحف والثياب الرديئة النسج قاله ابن العطار وأفتى به ابن عتاب وقيل: إنها تقطع خرقا خرقا وتعطى للمساكين وقيل: لا يحل الأدب بمال امرئ مسلم فلا يتصدق به عليه ولا يراق اللبن ونحوه ولا تحرق الثياب ولا تقطع الثياب ويتصدق بها، وإنما يؤدب الغاش بالضرب حكى هذه الأقوال ابن سهل، قال ابن ناجي: واعلم أن هذا الخلاف إنما هو في نفس المغشوش هل يجوز الأدب فيه أم لا، وأما لو زنى رجل مثلا فلا قائل فيما علمت أنه يؤدب بالمال، وإنما يؤدب بالحد وما يفعله الولاة من أخذ المال فلا شك في عدم جوازه، وقال الونشريسي أما العقوبة بالمال فقد نص العلماء على أنها لا تجوز وفتوى البرزلي بتحليل المغرم لم يزل الشيوخ يعدونها من الخطأ اهـ
(الشرح الكبير و حاشية الدسوقي،3/46، ط: دار الفکر)
قال الإمام الشافعيؒ: ” لا يعاقب رجل في ماله وإنما يعاقب في بدنه وإنما جعل الله الحدود على الأبدان وكذلك العقوبات فأما على الأموال فلا عقوبة عليها.”
(الأم للشافعي، 4/265، ط: دار المعرفۃ)
ف: ھذا مذھبہ الجدید و ھو المفتی بہ. وھذا في غیر اخذ سلب من اصطاد في حرم المدينة لأن المفتى به فيه مذهبه القديم.
قال النوويؒ:” ولا بأس بتسويد وجهه والمناداة عليه ويحرم حلق لحيته وأخذ ماله.”
(المجموع شرح المھذب،20/125، دار الفکر)
قال ابن قدامة الحنبليؒ:”والتعزير يكون بالضرب والحبس والتوبيخ. ولا يجوز قطع شيء منه ولا جرحه، ولا أخذ ماله؛ لأن الشرع لم يرد بشيء من ذلك عن أحد يقتدى به؛ ولأن الواجب أدب، والتأديب لا يكون بالإتلاف.”
(المغني،9/178، ط:مکتبۃ القاھرۃ)
قال البهوتي الحنبليؒ: “(ويحرم تعزير بحلق لحية وقطع طرف وجرح) لأنه مثلة (و) يحرم تعزير (بأخذ مال أو إتلافه) لأن الشرع لم يرد بشيء من ذلك عمن يقتدى به.”
(شرح منتهي الإرادات، 3/366، ط: عالم الکتب)
4: کما مر قول الدسوقيؒ تحت 3.
و قال الصاوي المالكيؒ: “قوله: [وبالتصدق عليه بما غش] : أي وأما التعزير بأخذ المال فلا يجوز إجماعا، وما روي عن الإمام أبي يوسف صاحب أبي حنيفة من جواز التعزير للسلطان بأخذ المال فمعناه كما قال البرادعي من أئمة الحنفية أن يمسك المال عنده مدة لينزجر ثم يعيده إليه لا أنه يأخذ لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة، إذ لا يجوز أخذ مال مسلم بغير سبب شرعي وفي نظم العمليات:
ولم تجز عقوبة بالمال … أو فيه عن قول من الأقوال.”
(حاشية الصاوي علی الشرح الصغیر، 4/505، ط:دار المعارف)
قال الزرقانيؒ: “وهل يكون التعزير بأخذ المال في معصية لا تعلق لها بالمال أم لا والأوّل مذهب الحنفية قاله عج وتوقفه في مذهبه فيه قصور فإن النهر مختصر البحر للحنفية عزًا للأئمة الثلاثة والصاحبين أنه لا يكون بالمال ونصه وما في الخلاصة سمعت من ثقة أنه يكون بأخذ المال أيضًا إن رأى القاضي ذلك ومن جملة ذلك من لا يحضر الجماعة مبني على اختيار من قال بذلك كقول أبي يوسف فإنه روي عنه أنه جوز للسلطان التعزير بأخذ المال كذا في الفتح ومعناه كما قال البزازي أن يمسكه عنده مدة لينزجر ثم يعيده إليه لا أنه يأخذه لنفسه أو لبيت المال كما توهمه الظلمة إذ لا يجوز أخذ مال مسلم بغير سبب شرعي أي كشراء أو هبة اهـ.
ثم إنها ترد إليه إذا تاب فإن أيس من توبته صرفه الإمام إلى ما يرى وفي شرح الآثار التعزير بأخذ المال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ كذا في المجتبى وعندهما وباقي الأئمة الثلاثة لا يجوز التعزير به انتهت عبارة النهر وانظر قوله وعندهما مع ما نقله قبل عن أبي يوسف.”
قال البناني في حاشيته: “وهل يكون التعزير بأخذ المال في معصية لاتعلق لها بالمال أم لا الخ. يدل على قصوره ما ذكره ابن رشد في رسم مساجد القبائل من سماع ابن القاسم من كتاب الحدود في القذف ونصه مالك لا يرى العقوبات في الأموال وإنما كان ذلك في أول الإسلام من ذلك ما روي عن النبي – صلى الله عليه وسلم – في مانع الزكاة أنها تؤخذ منه وشطر ماله عزمة من عزمات ربنا وما روي عنه عليه الصلاة والسلام في حريسة الجبل أن فيها غرامة مثلها وجلدات نكال وما روي عنه عليه الصلاة والسلام إن سلب من أخذ وهو يصيد في الحرم لمن أخذه كان ذلك كله في أول الإسلام وحكم به عمر بن الخطاب ثم انعقد الإجماع على أن ذلك لا يجب وعادت العقوبات على الجرائم في الأبدان اهـ.
وراجع ما تقدم صدر البيوع عند قوله وتصدق بما غش الخ. وفي نظم صاحب العمل:
ولم تجز عقوبة بالمال … أو فيه عن قول من الأقوال
لأنها منسوخة إلا أمور … ما زال حكمها على اللبس يدور
كأجرة الملد في الخصام … والطرح للمغشوش من طعام
(شرح الزرقانی علی مختصر الخلیل و حاشیۃ البنانی،8/201، ط: دار الکتب العلمیۃ)
5: سيأتي قريباً.
6: قال: “يجوز التعزير بأخذ المال وهو مذهب أبي يوسف وبه قال مالك، ومن قال: إن العقوبة المالية منسوخة فقد غلط على مذاهب الأئمة نقلا واستدلالا وليس بسهل دعوى نسخها. وفعل الخلفاء الراشدين وأكابر الصحابة لها بعد موته – صلى الله عليه وسلم – مبطل لدعوى نسخها، والمدعون للنسخ ليس معهم سنة ولا إجماع يصحح دعواهم إلا أن يقول أحدهم: مذهب أصحابنا لا يجوز، فمذهب أصحابه عنده عياء على القبول والرد.”
(معین الحکام، 1/195، ط:دار الفکر)
7: قال: “” التعزير بالعقوبات المالية ” مشروع أيضا في مواضع مخصوصة في مذهب مالك في المشهور عنه؛ ومذهب أحمد في مواضع بلا نزاع عنه؛ وفي مواضع فيها نزاع عنه. والشافعي في قول، (1) وإن۔۔۔.
(الحسبۃ (بتحقیق “الشحود”)، 1/348)
8: قال: “وأما التعزير بالعقوبات المالية، فمشروع أيضًا في مواضع مخصوصة في مذهب مالك وأحمد ، وأحد قولي الشافعي۔۔۔.”
(الطرق الحكمية في سياسة الشرعية، 2/688، ط:دار عالم الفوائد)
9: كما مر تحت 7 و 8.
10: قال الطرابلسيؒ: “يجوز التعزير بأخذ المال وهو مذهب أبي يوسف وبه قال مالك، ومن قال: إن العقوبة المالية منسوخة فقد غلط على مذاهب الأئمة نقلا واستدلالا وليس بسهل دعوى نسخها. وفعل الخلفاء الراشدين وأكابر الصحابة لها بعد موته – صلى الله عليه وسلم – مبطل لدعوى نسخها، والمدعون للنسخ ليس معهم سنة ولا إجماع يصحح دعواهم إلا أن يقول أحدهم: مذهب أصحابنا لا يجوز، فمذهب أصحابه عنده عياء على القبول والرد.”
(معین الحکام، 1/195، ط:دار الفکر)
“التعزير قد يكون بالحبس وقد يكون بالصفع وتعريك الأذن وقد يكون بالكلام العنيف وقد يكون بالضرب وقد يكون بنظر القاضي إليه بنظر عبوس كذا في النهاية وعند أبي يوسف – رحمه الله تعالى – يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة الثلاثة لا يجوز كذا في فتح القدير. ومعنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنده مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.”
(الفتاوی الھندیۃ، 2/167، ط: دار الفکر)
11: قال: “والتعزير بالمال: قال به المالكية فيه، ولهم تفصيل ذكرت منه في كتاب الحسبة طرفا، فمن ذلك سئل مالك عن اللبن المغشوش أيهراق؟ قال: لا، ولكن أرى أن يتصدق به إذا كان هو الذي غشه.
وقال في الزعفران والمسك المغشوش مثل ذلك قليلا أو كثيرا، وخالفه ابن القاسم في الكثير.
وقال يباع المسك والزعفران على من لا يغش به ويتصدق بالثمن أدبا للغاش.
مسألة: وأفتى ابن القطان الأندلسي في الملاحف الرديئة النسج بأن تحرق، وأفتى عتاب بتقطيعها والصدقة بها خرقا. مسألة: وإذا اشترى عامل القراض من معتق على رب المال عالما بأنه قريبه، فإنه إن كان موسرا عتق العبد وغرم العامل ثمنه، وحصة رب المال من الربح إن كان في المال يوم الشراء ربح وولاؤه لرب المال، وذلك لتعديه فيما فعل.
مسألة: ومن وطئ أمة له من محارمه ممن لا يعتق عليه بالملك، فإنه يعاقب وتباع عليه وإخراجها من ملكه كرها من العقوبة بالمال.
مسألة: والفاسق إذا آذى جاره ولم ينته، تباع عليه داره وهو عقوبة في المال والبدن.
مسألة: ومن مثل بأمته عتقت عليه وذلك عقوبة بالمال.”
(تبصرۃ الحکام ، 2/293، ط: مکتبۃ الکلیات الازھریۃ ۔و۔2/221، ط: دار عالم الکتب)
ف: و الممکن أن يحمل علی إتلاف المال الذي كان سبباّ للجريمة.
12: قال: “يجوز التعزير بأخذ المال وهو مذهب أبي يوسف وبه قال مالك، ومن قال: إن العقوبة المالية منسوخة فقد غلط وفعل الخلفاء الراشدين وأكابر الصحابة لها بعد موته – صلى الله عليه وسلم – مبطل لدعوى نسخها، والمدعون للنسخ ليس معهم سنة ولا إجماع.”
(معین القضاۃ و المفتین،1/70، ط: میر محمد کتب خانہ)
وقال: “حاکم کو اختیار ہے کہ وہ جرمانہ کی سزا مجرم کو دیدے۔ یہی (قول) امام ابو یوسفؒ، امام مالکؒ کا ہے اور خلفاء راشدین کا معمول ہے۔ جو لوگ سزا جرمانہ کو منسوخ سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔”
(شرعی ضابطہ دیوانی، 1/212، ط: کتب خانہ مظہری)
13: کما ھو ظاھر من نقلہ الأدلة و النظائر لجواز التعزير في كتابه “جديد فقهي مسائل، 3/150، ط:زمزم پبلشرز”.
14: عن بهز بن حكيم، عن أبيه عن جده أن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – قال: “في كل سائمة إبل في أربعين بنت لبون، لا تفرق إبل عن حسابها، من أعطاها مؤتجرا – قال ابن العلاء: مؤتجرا بها – فله أجرها، ومن منعها، فإنا آخذوها وشطر ماله، عزمة من عزمات ربنا عز وجل، ليس لآل محمد منها شيء” (قال المحقق ارنؤوط: إسناده حسن.)
(سنن أبي داود، 3/26، ط: دار الرسالۃ العالمیۃ)
15: عن عامر بن سعد، أن سعدا ركب إلى قصره بالعقيق، فوجد عبدا يقطع شجرا، أو يخبطه، فسلبه، فلما رجع سعد، جاءه أهل العبد فكلموه أن يرد على غلامهم – أو عليهم – ما أخذ من غلامهم، فقال: «معاذ الله أن أرد شيئا نفلنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبى أن يرد عليهم»
(صحيح مسلم، 2/993، دار احیاء التراث العربی)
16: “عن يحيى بن عبد الرحمن بن حاطب , أن غلمة , لأبيه عبد الرحمن بن حاطب سرقوا بعيرا , فانتحروه , فوجد عندهم جلده , ورأسه , فرفع أمرهم إلى عمر بن الخطاب «فأمر بقطعهم» , فمكثوا ساعة , وما نرى إلا أن قد فرغ من قطعهم , ثم قال عمر: «علي بهم» , ثم قال لعبد الرحمن: «والله , إني لأراك تستعملهم , ثم تجيعهم , وتسيء إليهم , حتى لو وجدوا ما حرم الله عليهم , لحل لهم» , ثم قال لصاحب البعير: «كم كنت تعطى لبعيرك؟» قال: أربع مائة درهم , قال لعبد الرحمن: «قم فاغرم لهم ثمان مائة درهم».”
(مصنف عبد الرزاق، 10/239، المجلس العلمی۔الھند)
17: وقد جاءت السنة عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – وعن أصحابه بذلك في مواضع:
منها: إباحته – صلى الله عليه وسلم – سلب الذي يصطاد في حرم المدينة لمن وجده.
ومثل: أمره – صلى الله عليه وسلم – بكسر دنان الخمر وشق ظروفها
ومثل: أمره لعبد الله بن عمرو بأن يحرق الثوبين المعصفرين
ومثل: أمره – صلى الله عليه وسلم – يوم خيبر – بكسر القدور التي طبخ فيها لحم الحمر الإنسية، ثم استأذنوه في غسلها ، فأذن لهم. فدل على جواز الأمرين، لأن العقوبة بالكسر لم تكن واجبة.
ومثل: هدمه مسجد الضرار.
ومثل: تحريق متاع الغال
ومثل: حرمان السلب الَّذي أساء على نائبه
ومثل: إضعاف الغرم على سارق ما لا قطع فيه من الثمر والكَثَر
ومثل: إضعافه الغرم على كاتم الضالة
ومثل: أخذه شطر مال مانع الزكاة، عزمة من عزمات الرب تبارك وتعالى
ومثل: أمره لابس خاتم الذهب بطرحه، فطرحه، فلم يعرض له أحد
ومثل: تحريق موسى عليه السلام العجل وإلقاء برادته في اليم
ومثل: قطع نخيل اليهود، إغاظة لهم
ومثل: تحريق عمر وعلي – رضي الله عنهما – المكان الَّذي يباع فيه الخمر
ومثل: تحريق عمر قصر سعد بن أبي وقاص، لما احتجب فيه عن الرعية
وهذه قضايا صحيحة معروفة، وليس يسهل دعوى نسخها.
(الطرق الحکمیۃ، 2/689، ط:دار عالم الفوائد)
18: “جديد فقهي مسائل، 3/150، ط:زمزم پبلشرز”.
19: قال الطرابلسيؒ: “يجوز التعزير بأخذ المال وهو مذهب أبي يوسف وبه قال مالك، ومن قال: إن العقوبة المالية منسوخة فقد غلط على مذاهب الأئمة نقلا واستدلالا وليس بسهل دعوى نسخها. وفعل الخلفاء الراشدين وأكابر الصحابة لها بعد موته – صلى الله عليه وسلم – مبطل لدعوى نسخها، والمدعون للنسخ ليس معهم سنة ولا إجماع يصحح دعواهم إلا أن يقول أحدهم: مذهب أصحابنا لا يجوز، فمذهب أصحابه عنده عياء على القبول والرد.”
(معین الحکام، 1/195، ط:دار الفکر)
20: قول اللّه تعالى: وَلاَ تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ.
وقوله تعالى: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لاَ تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ .
21: “عن عمرو بن يثربي , قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بمنى فسمعته يقول: «لا يحل لامرء من مال أخيه شيء إلا ما طابت به نفسه» , فقلت حينئذ: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم أرأيت إن لقيت غنم ابن عم لي فأخذت منها شاة فاجتزرتها أعلي في ذلك شيء؟ , قال: «إن لقيتها نعجة تحمل شفرة وأزنادا فلا تمسها».” (قال الزیلعي في نصب الرايه: اسناده جيد.)
(سنن الدارقطنی، 3/423، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)
22: كما مر تحت 3.
23: قال الطحاوي ؒ: “فكانت العقوبات جارية فيما ذكر في هذه الآثار على ما ذكر فيها حتى نسخ ذلك بتحريم الربا , فعاد الأمر إلى أن لا يؤخذ ممن أخذ شيئا إلا مثل ما أخذوإن العقوبات لا تجب في الأموال بانتهاك الحرمات التي هي غير أموال. فحديث سلمة – عندنا – كان في الوقت الأول فكان الحكم على من زنى بجارية امرأته مستكرها لها , عليه أن تعتق عقوبة له في فعله , ويغرم مثلها لامرأته. وإن كانت طاوعته ألزمها جارية زانية وألزمه مكانها جارية طاهرة ولم تعتق هي بطواعيتها إياه. وفرق في ذلك , بينما إذا كانت مطاوعة له , وبينما إذا كانت مستكرهة ثم نسخ ذلك فردت الأمور إلى أن لا يعاقب أحد بانتهاك حرمة لم يأخذ فيها مالا بأن يغرم مالا , ووجبت عليه العقوبة التي أوجب الله على سائر الزناة. فثبت بما ذكرنا ما روى النعمان ونسخ ما روى سلمة بن المحبق.”
(شرح معانی الآثار،3/146، ط: عالم الکتب)
قال ابن رشد ؒ: “وقول ابن القاسم في أنه لا يتصدق من ذلك على الغاش إلا بالشيء اليسير أحسن من قول مالك؛ لأن الصدقة بذلك من العقوبات في الأموال،والعقوبات في الأموال أمر كان في أول الإسلام، من ذلك ما روي عن النبي – عَلَيْهِ السَّلَامُ – في مانع الزكاة: «إنما آخذها منه وشطر ماله عزمة من عزمات ربنا» ، وما روي عنه فيه: «حريسة الجبل أن فيها غرامة مثليها وجلدات نكال» ، وما روي عنه من «أن من أخذ بصيد في حرم المدينة شيئا، فلمن أخذه سلبه» ، ومن مثل هذا كثير، ثم نسخ ذلك كله بالإجماع على أن ذلك لا يجب، وعادت العقوبات في الأبدان، فكان قول ابن القاسم أولى بالصواب استحسانا، والقياس أن لا يتصدق من ذلك بقليل ولا كثير، وبالله التوفيق.”
(البیان و التحصیل، 9/320، ط:دار الغرب الإسلامي)
24: قال العلاء الدين البخاريؒ: “قوله (العام الذي لم يثبت خصوصه) يعني العام من الكتاب والسنة المتواترة لا يحتمل الخصوص أي لا يجوز تخصيصه بخبر الواحد والقياس لأنهما ظنيان فلا يجوز تخصيص القطعي بهما لأن التخصيص بطريق المعارضة والظني لا يعارض القطعي هذا أي ما ذكرنا من عدم جواز التخصيص بهما هو المشهور من مذهب علمائناونقل ذلك عن أبي بكر الجصاص وعيسى بن أبان وهو قول أكثر أصحاب أبي حنيفة وهو قول بعض أصحاب الشافعي أيضا وهو قول أبي بكر وعمر وعبد الله بن عباس وعائشة – رضي الله عنهم – فإن أبا بكر جمع الصحابة وأمرهم بأن يردوا كل حديث مخالف للكتاب وعمر – رضي الله عنه – رد حديث فاطمة بنت قيس في المبتوتة أنها لا تستحق النفقة وقال لا نترك كتاب الله بقول امرأة لا ندري أصدقت أم كذبت وردت عائشة – رضي الله عنها – حديث تعذيب الميت ببكاء أهله وتلت قوله سبحانه {ولا تزر وازرة وزر أخرى} [الأنعام: 164] أورد هذا كله الجصاص ذكره أبو اليسر في أصوله (واختاره القاضي الشهيد) يعني الحاكم أبا الفضل محمد بن محمد بن أحمد السلمي المروزي صاحب المختصر هكذا ذكر في بعض الشروح وظني أنه أراد به القاضي الشهيد أبا نصر المحسن بن أحمد بن المحسن بن أحمد بن علي الخالدي المروزي لأنه هو المعروف بالقاضي الشهيد فأما أبو الفضل فمعروف بالحاكم الشهيد.”
(کشف الأسرار شرح اصول البزدوي، 1/294، دار الکتاب الاسلامی)
25: قال عبد العلي اللكنويؒ: “فصل: في شرائط القياس۔۔۔۔۔۔وكذا الإخراج عن قاعدة عامة ۔۔۔۔۔۔ومنه ترخص المسافر، فإن العلة المرخصة الشقة، و لم تعتبر في غيره و إن كان فوقه في المشقة كالأعمال الشاقة، فإذا لم تعتبر في غيره كان الحكم مختصاً به۔۔۔.”
(فواتح الرحموت،2/302، ط: دار الکتب العلمیۃ)
26: “مطلب في التعزير بأخذ المال: (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ.”
(الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، 4/61، ط: دار الفکر)
27: وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ.”
(الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین، 4/61، ط: دار الفکر)
“وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرىوفي شرح الآثار التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ.
والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال.”
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق، 5/44، ط: دار الکتب الاسلامی)
“وما في (الخلاصة) سمعت من ثقة أنه يكون بأخذ المال أيضا إن رأى القاضي ذلك، ومن جملة ذلك من لا يحضر الجماعة مبني على اختيار من قال بذلك لقول أبي يوسف فإنه رأى عنه أنه يجوز للسلطان التعزير بأخذ المال. كذا في (الفتح)، ومعناه كما قال البزازي: إمساكه عنده مدة لينزجر ثم يعيده إليه، لا أنه يأخذ لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز أخذ مال مسلم بغير سبب شرعي انتهى. ثم إنما يرده إليه إذا تاب فإن آيس من توبته صرفه الإمام إلى ما يرى.
وفي شرح الآثار: التعزير بأخذ المال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ، كذا في (المجتبى) وعندهما وباقي الأئمة الثلاثة لا يجوز التعزير به.”
(النہرالفائق شرح کنز الدقائق، 3/156، ط: دار الکتب العلمیۃ)
“وبقي التعزير بالشتم وأخذ المال فأما التعزير بالشتم فهو مشروع بعد أن لا يكون قذفا كما في البحر عن المجتبى وأما بالمال فصفته أن يحبسه عن صاحبه مدة لينزجر ثم يعيده إليه كما في البحر عن البزازية اهـ. ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه.”
(درر الحکام شرح غرر الاحکام لملا خسرو، 2/75، ط: دار احیاء الکتب العربیۃ)
“وفي البحر ولا يكون التعزير بأخذ المال من الجاني في المذهب لكن في الخلاصة سمعت عن ثقة أن التعزير بأخذ المال إن رأى القاضي ذلك، أو الوالي جاز ومن جملة ذلك رجل لا يحضر الجماعة يجوز تعزيره بأخذالمال ولم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يؤخذ فيمسك مدة للزجر ثم يعيده لا أن يأخذه لنفسه أو لبيت المال، فإن آيس من توبته يصرف إلى ما يرى.”
(مجمع الانھر،1/609، دار احیاء التراث العربی)
“التعزير قد يكون بالحبس وقد يكون بالصفع وتعريك الأذن وقد يكون بالكلام العنيف وقد يكون بالضرب وقد يكون بنظر القاضي إليه بنظر عبوس كذا في النهاية وعند أبي يوسف – رحمه الله تعالى – يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال وعندهما وباقي الأئمة الثلاثة لا يجوز كذا في فتح القدير. ومعنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنده مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق.”
(الفتاوی الھندیۃ، 2/167، ط: دار الفکر)
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
محمد اویس پراچہ
شریک تخصص فی فقہ المعاملات المالیہ، جامعۃ الرشید 1438ھ