اجتماعی قربانی  اور ا س میں ہونے والی کوتاہیوں کا حکم

دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:56

 کیا فرماتے ہیں علماء  کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں  کہ:

آج کل عموماً رفاہی اداروں  ومدارس کی جانب سے اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے  ان کی کیا حیثیت  ہے ؟آیا وہ حصہ داروں کی جانب سے وکیل ہیں یا امین یا ضامن ؟

بندہ کو مجروجہ اجتماعی قربانی  میں کچھ قباحتیں  نظر آتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں امید ہے کہ مفصلل ومفلل جواب عنایت  فرمائیں  گے :

  • کچھ افراد محض پیسہ کمانے کی خاطر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرتے ہیں اور اسی لیے  سستے سے سستا اور کمزور سے کمزور جانور خریدا جاتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ منافع حاصل ہو ( حصہ دارویسے ہی اپنے جانور دیکھنے کی زحمت نہیں کرتے )
  • اب جو پیسہ بچ گیا وہ اصولاًکس کا ہوا حصہ دار کا یادارہ کا ؟
  • عموماً پیسے بچتے ہیں جو ادارہ والے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اس کے مالک کو اطلاع نہیں دی جاتی۔ ( حالانکہ لا یحل مال امر امسلمالابطیب نفس منہ  ۔ ارشاد نبوی ہے )
  • بسااوقات حرام آمدنی والوں کا  حصہ بھی ضم ہوجاتا  ہے ۔
  • ایک شخص کا حصہ گائے نمبر 1 میں دیاگیا پھر اس سے زیادہ اہم شخص کے آنے پر پہلے والے کو اطلاع دیئے بغیر اس کا حصہ ( مثلا ً) گائےنمبر 5 یا 6 میں کردیاجاتا ہے ( چونکہ  گوشت  لینے کا ٹائم  احتیاطاً مؤخر  کر کے لکھا جاتا ہے اس لئے  کسی حصہ دار کو اس  تبدیلی کا گمان  نہیں ہوتا )
  • کھال میں سب سے حصہ دار شریک ہیں اور کھال ان کی ملکیت ہے حالانکہ ادارہ والوں کی جانب سے تاثر یہ دیاجاتا ہے کہ حصہ دار کا اس میں کوئی حق نہیں ۔
  • حصہ کی قیمت تمام حصہ داروں سے ایک ہی وصول کی جاتی ہے  جب کہ گوشت میں کافی فرق ہوتا ہے ( مثلاً ایک گائے کے حصہ داروں کو فی حصہ 15 کلو ملتا ہے  جبکہ دوسری گائے کے حصہ  داروں کو فی حصہ 8کلو ملتا ہے  )
  • اداروں کے زیر انتظام اجتماعی قربانی عام ہوجانے کی وجہ سے لوگ اتنی بڑی اہم عبادت کو بنفس نفیس اداکرنے سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔

یہ تو ان قباحتوں کا ذکر ہوا جو عموماً پائی جاتی ہیں مزید برآں مخصوص  جگہوں پر اور بھی کافی بے احتیاطیاں  نظر آتی ہیں اب سوال یہ ہے  کہ کیا مندرجہ بالا چیزیں  جن کو بندہ نے قباحت کا نام دیاہے واقعی یہ چیزیں  قباحت  بھی ہیں یا نہیں ؟ اگر ہیں رو اجتماعی قربانی  بزیرا نتظام  ادارہ یا مدرسہ  کی صحت مشکوک ہے یا غیر مشکوک  ؟ امید ہے کہ دلائل وبراین   کی روشنی میں کما حقہ  وضاحت  فرمائیں گے  ۔

المستفتی  :۔ حفیظ الرحمٰن  الحنفی

 الجواب حامداومصلیا

 دینی مدارس اور رفاہی اداروں  کی جانب سے  آج کل جو اجتماعی قربانی  کا اہتمام کیا جاتا ہے  اس میں ان کی حیثیت مجموعی طور پر  حصہ داروں  کی طرف سے وکیل  کی ہوتی ہے ا ورا ن پر معاملہ  میں وکالت  ہی  کے احکام لاگو ہوں گے  ،ا س اصولی تمہید کے بعد اجتماعی قربانی  میں ہونے والی  کوتاہیوں  کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے ان کے بارے میں شرعی حکم درج ذیل ہے  :

  1 تا 3 ۔۔ محض پیسہ کمانے کی خاطر  اجتماعی قربانی  کا اہتامم کرنا پھر اس مقصد  کی تکمیل کے لیے  سستا اور کمزور جانور خریدنا اور حصہ داروں  کے بچ جانے وا لی رقم ان کو واپس  کرنے کے بجائے  بلاا جازت  اپنے پاس  رکھ لینا یہ سب امور   شرعاً ناجائز ہیں اجتماعی قربانی  کا اہتمام کرنے والوں  کو  درج ذیل  امور کا اہتمام  کرناچاہیے  ۔

  • حصہ داروں سے اجتماعی قربانی میں شریک  ہونے سے پہلے  ہی دریافت کرلیاجائے  کہ وہ اپنے حصہ کی کھال ادارے  کو دینے پر راضی ہیں یا نہیں؟ اگر راضی  ہوں  تو کھال ادارہ خود  رکھ سکتا ہے  ورنہ جائز نہیں  اس کی مزید  تفصیل  نمبر 6  کے تحت آرہی ہے ۔
  • قربانی کاجانور خریدنے اور اس پرآنے والے تمام اخراجات  کے بعد جو رقم  بچ جائے  وہ حصہ داروں کو واپس کی جائے  اس رقم کو ان کی اجازت  کے بغیر  اپنے پاس رکھ لینا  بالکل ناجائز ہے  ہاں اگر وہ خود ہی خوشدلی  سے  باقی  بچ جانے والی  رقم ادارہ  کو عطیہ کردیں   تو اس صورت میں یہ  رقم لینا درست ہے  ۔
  • حصہ اداروں کی رقم  سے حتی الامکان  فربہ  اور صحت مند جانور خریدنے  کی کوشش کی جائے  ، کیونکہ احادیث طیبہ  میں اس کی ترغیب  دی گئی ہے  لہذا اس کا لحاظ رکھنا چاہیے  باقی پیسہ  اپنے لیے  یا ادارے  کے لیے بچانے  کی غرض  سے سستا  اور کمزور   جانور خریدنا  اور حصہ داروں  کو نقصان  پہنچانا  شرعاً جائز نہیں ۔
  • قربانی کے جانور میں کسی کو  شریک  کرنے سے پہلے  ا س سے یہ پوچھنا  ضروری نہیں کہ اس کی آمدنی  حلال ہے  یا حرام  ، بلکہ مسلمانوں  کے  بارے میں  اچھا گمان  رکھنا چاہیے  ہاں اگر قرائن سے  سے کسی  کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے  کہ اس کی کل یا اکثر آمدنی  حرام ہے  تو  پھر اسے قربانی  کے جانور میں  شریک نہ کیاجائے  ایسا ساتھی  اگر اصرار  کرے تو اس کو یہ کہاجاسکتا ہے  کہ کسی اور سے حلال رقم قرض  لے کر  قربانی کے حصہ کے  لیے دیدے  ۔
  • ایک گائے  میں کسی کا  حصہ متعین  کردینے  کے بعد کسی  دوسرے  گائے  میں یہ حصہ  منتقل کرنا  جائز نہیں اور مؤکل  یعنی حصہ دار کے حق میں  یہ تبدیلی  نافذ  بھی نہیں ہوتی  ، اس لیے  کہ کسی  جانور میں ایک مرتبہ  حصہ مقرر  ہونے کے بعد وکیل کو شرعاًا س بات کا اختیار  نہیں ہوتا  کہ وہ اس میں کوئی تبدیلی  اور تصرف کرے ، چنانچہ  حصہ متعین  کرنے کے بعد اگر کوئی جانور    ہلاک ہوگیا  تو یہ نقصان  انہی حصہ داروں کا ہوگا جن کے  حصےا س جانورمیں  تھے ۔ لیکن  اگر حصے متعین  کرنے سے  پہلے جانور ہلاک  ہوگیا تو  یہ نقصان  انہی حصہ داروں کا ہوگا جن کے  حصے اس جانور میں تھے ۔ لیکن اگر حصہ متعین کرنے سے  پہلے  کوئی جانور ہلاک  ہوگیا تو وہ اس  وقت تک اجتماعی قربانی   میں شریک  ہونے والے تمام  لوگوں کی طرف سے ہلاک ہوجائے گا اور ہر حصہ دار پر اس کے  حصوں  کے تناسب  سے اس جانور  کی قیمت  لازم ہوگی ، پھر اس حاصل شدہ رقم سے ہلاک  ہونے والے جانور  کا متبادل  جانور خریداجائے گا  ۔

 فی شرح المجلۃ للاتاسی ؒ ( 4/470)

لووکل شخصیان کل منھما علی حدۃ واحداً بان  یشتری  شیئاً  فلا یھما قصد الوکیل واراد عبدا شتراء ذلک الشئی یکون لہ ۔

وفیہ ایضاً  ( /465)

ثم ان  تقید الشراء  بکونہ لنفسہ یشیر الی انہ لیس لہ ان یشتریہ لمؤکل آخر  لانہ اژا لم یملک  الشراء  لنفسہ  فاولیٰ ان لا یملک  الشراء  لغیرہ  فلو اشتراء للمؤکل  الثانی  کان للاول ۔

 وفیہ ایضاً  ( 4/462)

الوکیل بشراء شئی اذا بادل  علیہ بشئی آخر لاینفذ فی حق المؤکل  ویبقی  علی ذمۃ الوکیل ۔

وفیہ ایضا  ( 4/482)

لیس للوکیل بالشراء ان یقبل  البیع  بدون اذن المؤکل وھذا بالاجماع ۔

وفیہ ایضاً ( 4/458 )

اذا قید الوکالۃ بقید فلیس للوکیل  مخالفتہ فان  خالف  لایکون  شراء ہ نافذا  علی المؤکل  ویبقی المال الذی  اشتری علیہ  ۔

وفی المحیط  البرھانی  ( 10 / 81)

فالمذکور فی الکتب  الظواھر  ان الکوکیل اذا خالف ان کان الخلاف من حیث الجنس لا ینفذ علی الامرو ان کان الماتی  بہ انفع من المامور  بہ۔۔۔ وان کان الخلاف من حیث الوصف  والقدر لا من حیث الجنس ان  کان الماتی  بہ انفع  من المامور   بہ ینفذ علی الآمر ۔ وان کان الماتی  بہ اضر  من المامور  بہ لاینفذ علی الآمر ۔

وفی الھندیۃ ( 5/306 )

وان وکلہ بان  یشتری لہ کبشا اقرن  اعین  للاضحیۃ فاشتری  کبشا اجم لیس اعین  لا یلزم  الآمر لان  ھذا مما یرغب  فیہ الناس للاضحیۃ فخالف  ما امر بہ وفی خلاصۃ الفتاویٰ (4/316 )

اربعۃ نفر   لکل واحد منھم شاۃ جسوھا فی بیت  فماتت واحدۃ  ولا یدری  لمن ھی ؟  یباع ھذہ الاغنام  جملۃ ویشتری  بثمنھا اربع  شیاۃ  لکل واحد منھم شاۃ ثم یؤکل  کل واحد منھم  صاحبہ  یذبح  کل واحد منھا  ویحلل کل واحد صاحبہ  ایضا ً حتی یجوز عن الاضحیۃ ۔ کذا فی المحیط  البرھانی  (8/483) والھندیۃ  ( 5/302۔308)

  • اجتماعی قربانی  کے جانور کی کھال بلاشبہ  تمام  شرکاء  کی ملکیت ہے ادارہ کے لیے ان میں سے کسی  کے حصہ کی کھال اس کی رضامندی  کے بغیر اپنے  پاس رکھ لینا ہر گز جائز نہیں ، البتہ اجتماعی  قربانی کا اہتمام  کرنے والا ادارہ  اگر حصہ داروں کو شریک  کرتے وقت ہی  ان سے یہ دریافت  کرلے کہ وہ اپنے  حصہ کی کھال  ادارے کو دینے پر راضی  ہیں یا نہیں اور پھر وہ ادارے کو اپنے حصہ کی کھال دینے پر رضامندی  ظاہر کردیں توادارہ  کے لیے کھال رکھنا جائز ہے لیکن اگر وہ ادارے  کو اپنے حصہ کی کھال نہ دینا چاہیں توان کے جانور کی کھال انہیں واپس  کرنا اور ادارے پر لازم ہے  ایسے افراد کے یہ صورت اختیار  کی جاسکتی ہے  کہ  جس جانور میں یہ افراد شریک  ہوں اس جانور  کی کھال  اس کے حصہ داروں  کے  حوالے کردی جائے  پھر  اگر بعض  حصہ دار  اپنے حصہ کی کھال ادارے کو دیناچاہیں  تو اس کھال کو فروخت  کرکے اپنے حصہ کی قیمت  ادارے کو دے سکتے ہیں اور اگر ادارہ  چاہے تو یہ صورت اختیار  کرسکتا ہے  کہ ایسے تمام   حصہ دار جو اجتماعی قربانی  میں شریک ہوتے وقت ہی یہ  واضح کرچکے   ہیں کہ وہ کسی  بھی وجہ سے  ادارے کو کھال دینے پرراضی نہیں ہیں تو ان کو جانوروں میں ایسے حصہ داروں کے ساتھ  شریک نہ کرے جو ادارے کو اپنے حصہ کی کھال دینا چاہتے ہیں بلکہ ادارے کو کھال نہ دینے والے افراد یکجا کردے مثلا ً اگر سات  حصہ دار  اپنے  حصہ کی کھال ادرے کو نہ دینا چاہیں تو ان سات حصہ داروں کو ایک جانور  میں شریک  کر کے جانور  کی کھال ان کے حوالے کردے  اس صورت میں وہ حصہ دار جو ادارے کو اپنے حصہ کی کھال نہیں دینا  چاہتے  مشترک طور پر کسی بھی جانور  میں جمع نہیں ہوں گے اورا یسا کرنے سے ادارہ کسی اضافی دشواری سے  بھی بچ جائےگا ۔
  • تمام حصہ داروں سے حصوں کی مساوی قیمت وصول کرنے کے بعد اگر کسی جانور میں گوشت  کچھ کم نکلے  جیسا کہ عام طور پر  جانوروں میں ہوتا ہے تو اس سے  بچنا ممکن نہیں اور چونکہ مارکیٹ  میں جانوروں کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے  ہر مرتبہ ایک جیسے جانور  خریدنا ممکن نہیں اس لیے ادارے  پر شرعاً اس کی  ذمہ داری بھی نہیں اتی ، تاہم چونکہ اس معاملہ کا مدار اجتماعی قربانی  کرنے والے  ادارے کی دیانت  وامانت  پر ہے اس لیے  ادارے کو حتی الامکان  تمام حصہ داروں  کے لیے صحت مند اور تندرست  جانور خریدنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
  • یہ کہنا کہ ” لوگ اجتماعی  قربانی کی وجہ سے اہم عبادت کو بنفس  نفیس ادا کرنے سے محروم ہوتے جارہے ہیں ” ان  لوگوں  کے  بارے میں  تو کسی حد تک  درست ہے  جن کےپاس خود قربانی کرنے کے لیے جگہ  اور وسائل  موجود ہیں لیکن وہ اس وجہ سے کہ اجتماعی  قربانی  میں حصہ سستا پڑتا ہے  یا کسی اور وجہ سے  اس کا اہتمام  نہیں کرتے  لیکن دوسرے  بہت سے افراد  کے لیے یہ بات درست نہیں  بالخصوص ان صورتوں میں جو آگے  آرہی ہیں  :

1۔۔۔گنجان آبادی والے شہروں اور علاقوں میں جہاں کی اکثر آبادی چھوٹے چھوٹے  فلیٹس میں رہتی ہے وہاں انفردای  قربانی میں  بہت سی دشواریاں  ہوتی ہیں تو اگر ان کے لیے اجتماعی  قربانی کا اہتمام   نہ ہوتو ممکن ہے کہ بہت   سے لوگ اپنے ذمہ  عائد ہونے والےا س واجب کی ادائیگی  سے ہی قاسر رہیں اور کوتاہی کریں اور گناہ  کے مرتکب ہوں ۔

2۔ عوام کا ایک طبقہ  ایسا ہوتا ہے  جس پر قربانی تو واجب ہوتی ہے لیکن جانوروں کی قیمتوں کی گرانی  اور محدود ذرائع  آمدنی کی وجہ سے و ہ اس  فریضہ   کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں اور اجتماعی قربانی میں شریک ہوکر یہ طبقہ  بھی قدرے سہولت  سے اپنا  فریضہ ادا کرلیناہے  ۔

3۔ بعض لوگ جانور کی خریداری ، اس کی دیکھ بھال اور پھر ذبح وغیرہ کی دشواریوں کی وجہ سے اس اہم عبادت کی ادائیگی سے پس وپیش  کرتے ہیں اور ان کے بارے میں غالب گمان  یہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے قرب وجوار میں اجتماعی قربانی  کا اہتمام نہ ہو تو وہ فریضہ کی ادائیگی نہیں کر پائیں گے ، اجتماعی قربانی میں شریک ہوکر یہ لوگ  ہوکر یہ لوگ بھی اپنے اس فریضہ سے سبکدوش ہوجاتے ہیں لہذا اجتماعی قربانی کو  علی الاطلاق ” بنفس نفیس قربانی سے محرومی ” سے تعبیر کرنا درست  نہیں ۔

واللہ سبحانہ اعلم

محمود الحسن شجاع  آبادی

دارالافتاء دارالعلوم کراچی

20/1/1427

اپنا تبصرہ بھیجیں