فتویٰ نمبر:623
بتایا گیاہے انکم ٹیکس سیونگ اکاؤنٹ کی سودی رقم سے بھر سکتے ہیں تو کیا الگ الگ ٹیکس جیسے سیل ٹیکس ، ویٹ ٹیکس، سروس ٹیکس بھی سیونگ اکاؤنٹ کی سودی رقم سے بھر سکتے ہیں؟
2) سیل ٹیکس وقت پر نہ بھر سکے تو اس پر سود کا جرمانہ لگ کے اکاؤنٹ ڈبل ہوجاتاہے تو جتنا سود اس پر لگا ہے کیا اسے سیونگ اکاؤنٹ کے سود سے بھر سکتے ہیں؟ ویسے ہم سیونگ اکاؤنٹ کی رقم کو غریب کو بنا ثواب کی نیت سے دیدیتے ہیں ۔ براہ کرم، جواب دیں۔
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
انکم ٹیکس کی طرح سیل ٹیکس، ویٹ ٹیکس اور سروس ٹیکس بھی غیر شرعی ٹیکس ہیں؛ کیوں کہ ان سب ٹیکسس میں ٹیکس ادا کرنے والے کو حکومت کی طرف سے کوئی ایسی منفعت حاصل نہیں ہوتی جسے ان ٹیکسس کا عوض قرار دیا جاسکے؛ اس لیے انکم ٹیکس کی طرح درج بالا غیر شرعی ٹیکسس میں بھی سرکاری بینک کا سود بھر سکتے ہیں، گنجائش ہے؛ کیوں کہ ان سب صورتوں میں رد الی رب المال پایا جاتا ہے، ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم، وإلا تصدقوا بہا؛ لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ (شامی ۹: ۵۵۳، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند)، قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقہائنا کالہدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنہ الرد إلی المالک، فسبیلہ التصدقُ علی الفقراء۔۔۔۔
قال: والظاھر إن المتصدق بمثلہ ینبغي أن ینوي بہ فراغ ذمتہ، ولا یرجو بہ المثوبة (معارف السنن، أبواب الطہارة، باب ما جاء: لا تقبل صلاة بغیر طہور، ۱: ۳۴، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)۔ ویبرأ بردھا ولو بغیر علم المالک، فی البزازیة: غصب دراہم إنسان من کیسہ، ثم ردہا فیہ بلا علمہ برئ، وکذا لو سلمہ إلیہ بجہة أخریٰ کہبة وإیداع وشراء، وکذا لو أطعمہ فأکلہ، …، زیلعي (در مختار مع شامی ۹: ۲۶۶، ۲۶۷)۔
سیل ٹیکس یا کوئی بھی ٹیکس وقت پر نہ بھر نے کی صورت میں سود یا جرمانہ کے نام سے جو اضافہ لاگو کیا جاتا ہے، از روئے شرع وہ بھی ناجائز ہے اس لیے سرکاری بینک کا سود اس سود یا جرمانے میں بھرسکتے ہیں گنجائش ہے۔ اور اگر کوئی شخص بینک کا سود بلا نیت ثواب غربا ومساکین ہی کو دیدیا کرے اور اوپر ذکر کردہ ٹیکسس یا ان کے جرمانے میں نہ بھرے تو یہ اعلی درجہ کی بات ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاءدارالعلوم دیوبند