وقت کے حالات کے پیش نظر، یہ مطالبہ، خود علمائے کرام بھی کررہے ہیں اور ممکن حد تک کافی تبدیلی ہوگئ ہے۔ انگریزی سیکھنا ضروری ہوتا جارہا اور اب مدرسے میں داخلہ، میٹرک کے بعد ہی ملتا ہے-
مگر جب بعض لبرل حضرات مدارس کے نصاب پہ ہرزہ سرائی فرماتی ہے تو الجھن ہوتی ہے کہ کیا مدارس میں انجینرنگ پڑھانا شروع کردیں؟
مدارس ،قانونِ اسلام کے محافظ ہیں -کسی بھی قانون کو سمجھنے کے لئے، لغت، اصول تفقہ، منطق، زباندانی اور تاریخ ہی کو پڑھنے کی ضرورت ہے-پروفشنل تعلیم ،جیسے سڑک کیسے بنائی جائے؟ جہاز کیسے اڑایا جائے؟ زکام کی دوا کیا ہو؟ وغیرہ، یہ انکا موضوع ہی نہیں-
مدارس کے نصاب کا لاء کالج کے نصاب سے ہی موازنہ ہوگا اور یہی کرکے دیکھ لیجئے-
تو جنابِ من :اپنے وکیل حضرات کی تعلیمی استعداد یہ ہے کہ آج تک انڈین ایکٹ 1935 کو ہی پڑھ رہے ہیں اور پروفیشل استعداد یہ کہ باہر بیٹھے عرضی نویسوں سے مغلوں کے دور والی فارسی ملی اردو میں اسٹام لکھوانے کے سوا،خود کوئی عرضی نہیں لکھ سکتے-
مدارس کے تعلیمی نظام سے پہلے، خود اپنا تعلیمی نظام ٹھیک کرلیں-60 سال ہوگئے،طلباء چھٹی کی درخواست لکھتے ہیں جو بخدمت جناب ہیڈ ماسٹر سے شروع ہوکر فدوی پہ ختم ہوتی ہے-معلوم بھی ہے کہ فدوی کا کیا معنی ہے؟ درخواست لکھنے تک کا طریقہ تو آپ بدل نہیں سکے اور مشورے مدارس کو-ہیں جی!
محترم کبھی ریاضی ،طب اور فلکیات مدارس کے نصاب کا حصہ تھا جو بوجوہ ختم ہوگیا-ادھر مدرسہ کی بنیاد ہی اس پر ہے کہ حکومتی امداد نہیں لی جائے گی-(اس لئے کہ مدارس، تعلیم گاہوں سے زیادہ تربیت گاہیں ہیں)-
مدارس کی اس کسمپرسی میں بھی ، ایک مولوی، تقی عثمانی صاحب نے معاشی نظام پہ مقالے لکھے اور میزان بنک کی صورت، آپکو ایک متبادل بنکنگ کا نظام دیا-جبکہ نصف صدی بنکاری کرنے والےجناب مشتاق یوسفی صاحب صرف مزاحیہ ادب میں ہی قابل قدر اضافہ فرمایا کئے-(اگرچہ یوسفی صاحب کا دلی احترام کرتا ہوں)-
ہمارے علاقے یعنی ڈیرہ کے مولوی جناب موسی روحانی کی فلکیات پہ کتاب،پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں داخل ہے-آپ کا حال یہ ہے کہ فزکس پروفیسر ہود بھائی، ہمیں ویلناٹئن کے فضائل سمجھا رہے اور انکے پچھواڑے میں آغا وقارنامی مکیکنک، نیوٹن کے سینے میں انگارے چھوڑتا پانی سے گاڑی چلا رہا ہے-
مدارس کے تعلیمی نظام پہ کڑھنے والے دانشوروں کو نصیحت ہے کہ آپ اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیر لیں مدارس کے نظام کو علماء خود سنبھال لیں گے-
جناب عالی! ہمارا تو یہ موقف ہے کہ درسی نصاب وغیرہ ضمنی چیزیں ہیں اوراصل چیز تربیت ہے-لیکن اگر آپ بضد ہیں کہ زیادہ بڑی ڈگری ہی زیادہ بڑی دانش کا ثبوت ہے تو بارہویں جماعت پاس جناب زرداری صاحب اورایم بی بی ایس ڈاکٹر، مرزرمہ فردوس عاشق اعوان کے فہم کا موازنہ فرمالیں-رہے نام اللہ کا-
(سلیم جاوید)