سانحہ احمد پور شرقیہ بہاولپور نے تقریباً دو سو افراد کی جان لے لی۔ جہاں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع نے پوری قوم کو افسردہ کیا وہاں بہت سوں کو دکھ اس بات کا ہوا کہ مرنے والوں میں اکثریت علاقہ کے اُن افراد پر مشتمل تھی جو آئل ٹینکر کے ایکسیڈنٹ پر لیک ہوتے پیٹرول کو اکھٹا کرنے میں مصروف تھے۔ ارد گرد رہنے والوں نے جہاں اپنے گھروں سے بوتلیں، بالٹیاں، ڈرم ، کین بلکہ جو برتن ملا اٹھا لائے اور کوشش کی جتنا ہو سکے اس مفت کے مال کو سمیٹ لیں۔ اس کے علاوہ وہاں سے گزرنے والے کئی موٹر سائیکل سوار حتیٰ کہ کچھ گاڑیوں والے بھی رُکے اور کوشش میں لگ پڑے کہ جو اُن کے ہاتھ میں آئے لے اُڑیں۔ خبروں کے مطابق آئیل ٹینکر کا ڈرائیور سب کو خطرہ سے آگاہ کرتا رہا کہ جان چلی جائے گی دور ہو جائو لیکن کسی نے نہ سنی۔ چند پولیس والے بھی وہاں پہنچے۔ اُنہوں نے بھی مفت کا پیٹرول جمع کرنے کی ریس میں شامل افراد کو منع کیا کہ زندگی چلے جائے گی ایسا مت کرو لیکن کسی نے نہ سنی۔ جو حالت کچھ ویڈیوز کے ذریعے سامنے آئی تو محسوس ایسا ہوا جیسے جشن کا ماحول ہو۔ افسوس اس بات ہے کہ مفت کا مال اکھٹا کرنے والوں میں سے کسی نے یہ نہ سوچا کہ جو کام وہ کر رہے ہیں اس کی اخلاقی حیثیت کیا ہے۔ کیا یہ چوری نہیں۔ جو مال آپ کا نہیں اُسے لینے کے لیے سب کیوں اس قدر بے چین تھے۔ افسوس کہ اسی دوران ٹینکر میں دھماکہ ہوا اور پورا علاقے جہاں پیٹرول پھیلا ہوا تھا وہاں آگ لگ گئی جس کے نتیجے میں تقریباً دو سوا افراد کی جان چلی گئی اور ایک سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ بڑی تعداد میں مرنے والے جل کر کوئلہ ہو گئے اور اُن کی میتوں کو پہچاننامشکل ہو گیا۔ اس سانحہ کی تشہیر خوب ہوئی ۔اس واقع سے ہر کوئی افسردہ تھا۔ جہاں یہ بحث ہوئی کہ پیٹرول لیک ہو تو اُس کے قریب جانا خطرہ سے خالی نہیں تو وہاں اس واقعے کے اخلاقی پہلو کو بھی ڈسکس کیا گیا۔ کچھ افراد نے اس کو غربت سے جوڑا۔ اس واقع کے تین دن بعد حیدرآباد میں ایک اور آئل ٹینکر کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ وہ ٹینکر نہ الٹا نہ اُس سے تیل لیک ہوا۔ لیکن علاقہ کے لوگ وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے اُس آئل ٹینکر کا پیٹرول چوری کرنا شروع کر دیا۔ نہ اپنی جانوں کی فکر تھی نہ کسی نے بہاولپور سانحہ سے سبق حاصل کیا۔ مفت کے مال کو سمیٹنے کی لالچ نے اس لوٹ مال میں شامل تمام افراد کو جیسے اندھا کر دیا ہو۔ اللہ کا شکر کہ حیدر آباد میں کوئی سانحہ نہیں ہوا لیکن اس واقع نے بھی ہماری قوم کی اخلاقی گراوٹ کو بے نقاب کر دیا۔ اس واقع کے بعد ایک اور ویڈیو سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آئی جس میں مشروب لے جانے والی ایک گاڑی کی روڈ پر ٹکر ہوئی تو وہاں موجود افراد اور گزرنے والے سواروں نے اُس گاڑی سے مشروب کی بوتلیں لوٹنا شروع کر دیں اور پل بھر میں سارا مال لوٹ لیا۔ یہ واقعات ہمارے معاشرے کے کھوکھلے پن اور اخلاقی پستی کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ کسی بھی شعبہ کو دیکھ لیں، ہر طرف ایسی ہی لوٹ مار جاری ہے۔ عمومی طور پر ہمارے ہاں حلال حرام، اچھے بُرے، حق و باطل اور ثواب گناہ کے درمیان تمیز ختم ہو چکی ہے۔چوری چکاری، ڈکیتی، دھوکہ بازی، فراڈ کی صورتیں تو مختلف ہو سکتی ہیں لیکن بحیثیت قوم ہم سب ایسے ہی کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس اخلاقی پستی کو روکنے کے لیے کوئی کچھ نہیں کر رہا۔ حکومت، میڈیا، سیاستدان، پارلیمنٹ، عدلیہ گویا کسی کی اس اہم ترین معاملہ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ معاملہ قوم کی تربیت کا ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں ہر سطح پر تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کو لازم قرار دینا ہو گا۔ اپنے عوام کی کریکٹر بلڈنگ (شخصیت سازی) کے لیے ہمیں تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذریعے مہم چلانی ہو گی۔ میں نے کچھ عرصہ قبل ہی وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبر پختون خوا حکومتوں کے اہم ذمہ داروں کی توجہ اس طرف دلوائی کہ ہمارے تعلیمی نظام میں تربیت اور شخصیت سازی کااہم ترین عنصربالکل غاہب ہو چکا اس لیے اگر ہمیں اپنی قوم کے مستقبل کو تباہی سے بچانا ہے تو تعلیم کے ساتھ تربیت کو لازم کرنا ہو گا۔ میں نے ان حکومتوں کے اہم ترین ذمہ داروں سے درخواست کی کہ تربیت اورکرکٹر بلڈنگ کے لیے باقاعدہ کورس بنانے کے لیے اسلامی تعلیمات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس مسئلہ پر ماضی میں میں نے اپنے کالمز کے ذریعے بھی مختلف اسٹیک ہولڈرز سے بھی درخواست کی کہ خدارا کچھ کریں لیکن ابھی تک کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔ جو نظر آ رہا ہے وہ بحیثیت قوم ہمارے لیے شرمندگی کا ہی باعث ہے.
انصار عباسی