بسلسلہ قرآن اور جدید سائنس
أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ ، بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ (سورۃا لقیامۃ، آیت 3،4)
ترجمہ: کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کریں گے ؟ کیوں نہیں کریں گے ضرور کریں گے ۔ہم تو اس پر بھی قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کردیں۔
1400سال پہلے کفارمکہ نے اعتراض کیا تھا (اور یہی اعتراض آج کا ملحد بھی کرتا ہے) کہ اگر قیامت آئے گی تو انسان کے مرنے کے بعد جب ہڈیاں تک گل سڑ جاتی ہیں توقیامت میں وہ دوبارہ کیسے یکجا ہوں گی؟ اور انسان کی شناخت کیسے ہوگی؟
اس آیت میں اسی کا واضح جواب دیاگیا ہے کہ اللہ تعالی نہ صرف پورا انسان دوبارہ بنانے پر قادر ہے بلکہ اللہ تعالی تو ہر انسان کی انگلیوں کے پوربھی ٹھیک ٹھیک پہلے کی طرح بنانے پر قادر ہے ۔جب اس نے پہلی بار انسان کی تخلیق کی تو دوبارہ اس کی تخلیق کوئی مشکل نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب قرآن پاک انسانوں کی انفرادی شناخت کی بات کررہاہے تو انگلیوں کی پوروں کا خصوصیت سے تذکرہ کیوں کررہاہے؟ سرفرانسس گولڈ (Frances Gold) کی تحقیق کے بعد١٨٨٠ء میں نشانات انگشت( finger prints) کو شناخت کے سائنسی طریقے کا درجہ حاصل ہوا ۔ آج ہم یہ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں کوئی سے بھی دو افراد کی انگلیوں کے نشانات کا نمونہ بالکل ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ حتٰی کہ ہم شکل جڑواں افراد کابھی نہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مجرموں کی شنا خت کے لیے ان کے نشا نا ت ِا نگشت ہی استعمال کیے جا تے ہیں ۔
کیا کوئی بتاسکتاہے کہ آج سے ١٤٠٠سال پہلے کس کو نشانات انگشت کی انفرادیت کے بارے میں معلوم تھا؟ یقینا یہ علم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کی نہیں ہو سکتی ۔قرآن کریم یقینا اسی کی کتاب ہے۔
ترتیب وپیشکش:
محمدانس عبدالرحیم