تحریر : محمد رضوان سعید نعمانی
“بھائی خیریت تو ہے آج بجھے بجھے سے لگ رہے ہو”زبیر نے اپنے بچپن کے لنگوٹی دوست سلمان سے پوچھا۔بس بھائی کیا بتاؤں مسائل وپریشانیاں اتنی ہیں کہ جی چاہتا ہے جیتے جی مر جاؤں۔۔۔۔بیس سال کا طویل عرصہ اعلی تعلیمی اداروں کی خاک چھانتا رہا ، والد ین نے اپنی ساری پونچی میرے تعلیمی اخراجات پر صرف کردی،خداخدا کرکےانجینیئرنگ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہاتھ آئی۔۔۔۔والدین کوآس ہونے لگی کہ اب صاحبزادہ بیس سال کی لٹی دولت چند ہی مہینوں میں واگزار کروالے گا ۔۔۔۔۔۔ بس خالی آسامیاں آنے کی دیر ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے سارے خواب پورے ہوجائیں گے۔ ۔بیٹیوں کی شادیاں بھی دھوم دھام سے کریں گے۔۔۔۔۔صاحبزادے کی برات کے تو کیا کہنے!
میری پر وقار تقریب تقسیم اسناد سے والدصاحب کا دل کو باغ باغ ہوگیا ، وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے۔میرے نیک دل والد نے میری والدہ سے اپنے یہ جذبات جنہیں وہ صدیوں سے دل کے نہاں خانوں میں چھپائے ہوئے تھے شیئر کیے ۔
آہ !
سلمان نے ٹھنڈی سانس لی۔ زبیر بھائی تم میرے بچپن کے ساتھی ہو اچھی طرح جانتے ہو یونیورسٹی سے فارغ ہوئے مجھے ڈھائی سال ہوچکے ہیں ۔والد صاحب کو فوت ہوئے بھی دوسال بیت گئے ہیں۔۔۔۔میرے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں ۔۔۔۔کا ش میں والدکی زندگی میں ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرسکتا۔۔۔کیا ہی اچھا ہوتاکہ والدصاحب اپنی زندگی میں ہی بیٹیوں کے فرائض سے سبکدوش ہوجاتے ۔۔۔۔۔جو دولت میری تعلیم پر انہوں نے بہائی ہے اس سے تو دونوں بہنوں کی شادیاں پرتپاکی سے ہوجاتیں۔۔۔۔سلمان پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔۔
“سلمان ذرا حوصلہ کرو ،تم یہ کیا کہہ رہے ہو ؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے “؟زبیر نے سلمان کو دلاسہ دینا چاہا،اس کی ڈھارس بندھائی ۔بھائی زندگی موت کامالک تو اللہ ہی ہے۔تمہارے والد اللہ کی امانت تھے ،اللہ نے انہیں فانی دنیا کی مشکلوں اور تکلیفوں سے چھٹکارا دے دیا ہے ۔۔۔۔وہ تو اب نعیم جنت کے مزے لوٹ رہے ہوں گے ۔۔۔۔رزق کا مالک بھی اللہ ہی ہے ،اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں وہ ضرور تمہاری اور تمہارے گھر والوں کی ضرورتوں کو پورا کرے گا۔۔۔۔جو چرند پرند ،کیڑے مکوڑوں جیسی کمزور وناتواں مخلوق کو بھوکا نہیں مارتا ،وہ اشر ف المخلوقات کے ساتھ کیوں کر ایسا برتاؤکرے گا۔۔۔۔رہی ہمشیرگان کی شادی تو رشتے اللہ کی طرف سے طے ہوتے ہیں ۔۔۔۔اللہ کا اصول ہے “پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے اور پاک مردپاک عورتوں کے لیے ہیں ” تمہارے والد صاحب مرحوم نے جیسے تمہاری اچھی تربیت کی ہے تمہاری بہنوں کی تربیت میں بھی انہوں نے کوئی فروگذاشت نہیں کی ۔۔۔۔ پر امید رہو جلد ہی منجانب اللہ ان کے لیے نیک صالح رشتے کا بندو بست ہوجائےگا۔
“بھائی آپ کے پاس اتنی بڑی ڈگری ہے ،جاب کے لیے کہیں اپلائی کیوں نہیں کر لیتے “؟ زبیر نے سلمان کو برادرانہ مشورہ دیتے ہوئے کہا زبیر بھائی کیوں زخموں پر نمک پاشی کرتے ہو؟ابھی یہی داستان تو آپ کے گوش گذارکی ہے ۔۔۔۔اخبارکی شہ سرخیاں اور ٹی وی پروگرام کی ہیڈ لانئز پڑھ پڑھ کےچھ نمبر کی عینک لگارکھی ہے.کسی سرکاری ،نیم سرکاری ادارے کو نہیں چھوڑا ہر جگہ اپنی سی وی اور ڈاکومنٹس جمع کراچکا ہوں ،کہیں سے امید کی کرن نہیں پھوٹی .SSC کا ٹیسٹ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ؟ اگر میں اتنا نکمہ ہوتا ،تو ڈاکٹریٹ کی ڈگری A-1اے ون گریڈ سے کیسے حاصل کرتا!
“جب تم اتنے قابل ہو تو پھر تمہیں نوکری کیوں نہیں ملتی؟ آپ کی نظر میں آپ میں کونسی ایسی کمی ہے ؟”زبیر نے سلمان سے درد مندانہ انداز سے سوال کیا آہ بھائی! سلمان نے ایک بار پھر ٹھنڈی سانس بھری جیسے اس کی روح نکلنے کو ہو۔۔۔۔لگتاہے تم سیدھے سادھے انسان ہو، کبھی آپ کو معاشرے سے واسطہ ہی نہیں پڑا۔دیکھتے نہیں شرافت وذلت کا معیارمال وزرہے ،غریب کا کوئی کفیل نہیں،دوغلے اورمنافق کی عزت ہے ایماندار کو ذلیل ورسوا کیا جارہا ہے ۔میرے اندر بھی یہی کمی ہے دولت نہیں غریب ہوں ،خود کفیل نہیں بے سہارا ہوں ،منافق نہیں ایماندار ہوں ۔ بغیر رشوت کے ملازمت کا خواہشمند ہوں اس لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہوں۔۔۔اب معاشرے کے نباض مرزا محمود سرحدی مرحوم متوفی 1967ء کا یہ قطعہ میرے درد کا مداوا ہے ۔
نوکری کے لیے اخبار کے اعلان نہ پڑھ
جان پہچان کی باتیں ہیں ،کہا مان ، نہ پڑھ
جن کو ملنی ہو، انہیں مل جاتی ہے
بس دکھا وے ہی کے ہوتے ہیں یہ فرمان، نہ پڑھ