تحریر : اسماء اہلیہ فاروق
حضرت الیاس علیہ السلام اللہ کے عظیم المرتبت اور معزز نبی ہیں اور حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ۔
حضرت الیاس ؑ کا مقام پیدائش :
آپ ؑ اردن کے علاقے جلعاد میں پیدا ہوئے اس وقت جس بادشاہ کی حکمرانی تھی وہ آپ ؑکا ہم عصر تھا۔ بائبل میں اس کانام ” اخی اب ” تھا اس کی بیوی ” الیزبل ” “بعل ” نامی بت کی پوجا کرتی تھی ۔
حضرت الیاس ؑحضرت الیسعؑ کے چچازاد بھائی تھے ۔ ان کی بعثت حضرت “حزقیل ؑ” کےبعد ہوئی ۔
قرآن میں ان کا نام الیاس بتایاہے ۔ا نجیل بنی یومنہ میں “ایلیایبنی ” کہاگیاہے ۔ بعض آثار میں ہے کہ الیاس وادریس ایک ہی نبی کے دو نام ہیں لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ قرآن میں سورۃ الصفت اور سورۃ الانعام میں الیاس ؑ کے جو حالات وواقعات بیان کئے ہیں ان میں کسی ایک جگہ بھی یہ ارشاد نہیں ملتا کہ الیاس ؑ کو ادریسؑ بھی کہا جاتا ہے ۔ مؤرخین نےا دریس ؑ والیاس ؑ کے جو نسب نامے بیان کیے ہیں اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان دو نبیوں کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے ۔
قوم الیاسؑ :۔ ملک شام میں کفرسراٹھارہاتھا ۔ لبنان کے علاقوں میں بتوں کی پوجا شروع ہوگئی تھی ۔ اللہ کی طرف سے ہدایت آجانے کے بعد وہ پھر سے خباثتوں پر اتر آئے تھے ان حالات میں بعلبک شہر میں بنی اسرائیل کا ایک گروہ ظاہر ہوا جو بعل نامی بت کی پوجا کرتے تھے اس کے نام پر شہر کا نام بعلبک ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف معزز پیغمبر الیاسؑ کو مبعوث فرمایا۔ آپ ؑ کا سلسلہ نسب یوں ہے ۔ا”الیاس بن یاسین بن قحاص بن عیزار بن ھارون ؑ “
الیاسؑ کی تبلیغ :۔ مؤرخین اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ الیاسؑ شام کے باشندوں کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے اور مشہور شہر بعلبک ان کی رسالت وتبلیغ کا مرکز تھا ۔الیاس ؑ کی قوم مشہور بت لعل کی پرستار تھی اور توحید سے بے زار اورشرک وکفر میں مبتلا تھی ۔ اللہ کے بر گزیدہ رسول الیاس ؑ نےا نھیں سمجھایا اور راہ ہدایت انھیں دکھائی اور بت پرستی کے خلاف انھیں نصیحت کی ۔” تم ڈرتے کیوں نہیں اس سے جوسب سے بہتر ہے جوتمہارا اور تمہارے باپ دادا کا رب ہے ۔ اس کے چھوڑ کر تم لعل کو پکارتے ہو ۔”
وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ﴿١٢٣﴾ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ ﴿١٢٤﴾ أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ﴿١٢٥﴾ اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ ﴿١٢٦﴾
فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ﴿١٢٧﴾ إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿١٢٨﴾ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ﴿١٢٩﴾ سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ﴿١٣٠﴾ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣١﴾ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٣٢﴾ ( سورۃ الصفت)
ترجمہ : اور الیاس بھی پیغمبروں میں سے تھےجب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ڈرتے کیوں نہیں؟
کیا تم بعل کو پکارتے (اور اسے پوجتے) ہو اور سب سے بہتر پیدا کرنے والے کو چھوڑ دیتے ہو
(یعنی) خدا کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پروردگار ہے
تو ان لوگوں نے ان کو جھٹلا دیا۔ سو وہ (دوزخ میں) حاضر کئے جائیں گے
ہاں خدا کے بندگان خاص (مبتلائے عذاب نہیں) ہوں گے
اور ان کا ذکر (خیر) پچھلوں میں (باقی) چھوڑ دیا
کہ اِل یاسین پر سلام
ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں
بےشک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے ( سورۃ الصفت )
بتوں کی تاریخ میں ہے کہ بعل نامی بت سونے کا تھا ا س کا قد 20 گز تھا اس کے چار منہ تھے اس کی خدمت پر چار سو خادم مقرر تھے ( روح المعانی جلد 23ص 627 )
یمن وشام کا محبوب دیوتا یہی بت تھا اور بعض مورخین کا خیال ہے کہ حجاز کا مشہور بت حبل بھی یہی بت تھا سورۃ الانعام میں الیاسؑ کا جن آیات میں ذکر آیا ہے وہ نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کیا ولاد اور ان کی نسل کے انبیاء ورسول کی ایک مختصر فہرست ہے ۔
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿٨٤﴾
وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ﴿٨٥﴾
وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ﴿٨٦﴾
اور ہم نے ان کو اسحاق اور یعقوب بخشے۔ (اور) سب کو ہدایت دی۔ اور پہلے نوح کو بھی ہدایت دی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلا دیا کرتے ہیں
اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی۔ اور ان سب کو جہان کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی”
قرآن اور حضرت الیاس علیہ السلام :۔
قرآن میں حضرت الیاس ؑ کا ذکر دو جگہ آیاہے ۔ سورۃ الانعام اور سورۃ الصفٰت ۔الیاس ؑ اور اب کی قوم کا وقاعہ اگر چہ قرآن میں بہت مختصر ہے تاہم اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہےکہ بنی اسرائیل کے یہود کی ذہنیت اس درجہ مسخ ہوچکی تھی کہ دنیا کی کوئی برائی ایسی نہ تھی جو انھوں نے اپنائی نہ ہو۔ انبیاء کرام کے ایک طویل سلسلے کے باوجود بت پرستی ، توہم پرستی ، عناصر پرستی غرض غیر اللہ کی پرستش کا کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس کے یہ پرستار نہ ہوں۔
یہ لوگ اعلیٰ درجے کے جھوٹے ، بد عہد اور رشوت خور بھی تھے۔ا للہ کے مقدس نبیوں کو ایذائیں دینا اور ان کو قتل کردینا ان ظالموں کا محبوب مشغلہ تھا۔