“اِمام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ معراج کی تاریخ میں روایات بہت مختلف ہیں، موسٰی بن عقبہ کی روایت یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرتِ مدینہ سے چھ ماہ قبل پیش آیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات نمازوں کی فرضیت نازل ہونے سے پہلے ہو چکی تھی،اِمام زہری فرماتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کا واقعہ بعثت ِنبوی کے سات سال بعد ہوا ہے، بعض روایات میں ہے کہ واقعہ معراج بعثت ِنبوی سے پانچ سال بعد ہوا ہے ، اِبن اسحٰق کہتے ہیں کہ واقعہ معراج اُس وقت پیش آیا جبکہ اِسلام عام قبائلِ عرب میں پھیل چکا تھا ۔اِن تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ واقعہ معراج ہجرت مدینہ سے کئی سال پہلے کا ہے ۔ حربی کہتے ہیں کہ واقعۂ اسراء و معراج ربیع الثانی کی ستائیسویں شب میں ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا ہے اور اِبن قاسم ذہبی کہتے ہیں کہ بعثت سے اَٹھارہ مہینے کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ہے۔حضراتِ محدثین نے روایاتِ مختلفہ ذکر کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کن چیز نہیں لکھی اور مشہور عام طورپر یہ ہے کہ ماہِ رجب کی ستائیسویں شب ، شب ِمعراج ہے۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔
(معارف القرآن ج٥ ص٤٤٢ و ٤٤٣)
حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہم فرماتے ہیں :
“”٢٧ رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِمعراج ہے اور اِس شب کو بھی اِسی طرح گزرانا چاہیے جس طرح شب ِقدر گزاری جاتی ہے اور جو فضیلت شب ِقدر کی ہے ،کم و بیش شب ِمعراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ “”شب ِمعراج کی فضیلت شب ِقدر سے بھی زیادہ ہے۔ “”اور پھر اِس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کردیے کہ اِس رات میں اِتنی رکعات پڑھی جائیں اور ہر کعت میں فلاں فلاں خاص سورتیں پڑھی جائیں ۔خدا جانے کیا کیا تفصیلات اِس نماز کے بارے میں لوگوںمیں مشہور ہو گئیں ۔خوب سمجھ لیجیے ! یہ سب بے اَصل باتیں ہیں، شریعت میںاِن کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں ۔
سب سے پہلی بات تویہ ہے کہ ٢٧رجب کے بارے میں یقینی طورپر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ وہی رات ہے جس میں نبی کریم ۖ معراج پر تشریف لے گئے تھے کیونکہ اِس باب میں مختلف روایتیں ہیں۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ۖ ربیع الاوّل کے مہینے میںتشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میںرجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے ۔ اِس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ کون سی رات صحیح معنٰی میں معراج کی رات تھی جس میں آنحضرت ۖ معراج پر تشریف لے گئے ۔ اِس سے آپ خود اَندازہ کرلیں کہ اگر شب ِمعراج بھی شب ِقدر کی طرح کوئی مخصوص رات ہوتی اور اُس کے بارے میں کوئی خاص اَحکام ہوتے جس طرح شب ِقدر کے بارے میں ہیں تو اِس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا لیکن چونکہ شب ِمعراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طورسے ٢٧رجب کو شب ِمعراج قرار دینا درست نہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ آپ ۖ ٢٧ رجب ہی کو معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ۖ کو یہ مقامِ قرب عطا فرمایااور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا اور اُمت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجاتو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت والی تھی ،کسی مسلمان کو اِس کی فضیلت میں کیا شبہہ ہوسکتا ہے ؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ٢٧رجب کی شب کو حاصل نہیں۔
تحریر: مفتی انس عبدالرحیم