شب معراج عبادت کی رات نہیں ہے:
پہلے تو یہ بات حتمی نہیں ہے کہ واقعہ معراج 27 رجب کو ہوا۔اگر تسلیم کربھی لیا جائے کہ 27 رجب کو ہی واقعہ معراج ہوا ہے تب بھی ستائیس رجب کی رات عبادت کی رات نہیں بنتی ، مفتی بغدادعلامہ آلوسیؒ نے تصریح کی ہے کہ” جس رات حضور صلی اﷲ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے وہ شب یقیناًتمام راتوں سے نہایت فضیلت والی رات تھی لیکن اس میں اور دوسری فضیلت والی راتوں میں یہ فرق ہے کہ شب معراج میں کسی قسم کی کوئی عبادت مشروع اور ثابت نہیں۔ اس میں عبادت سے متعلق ایک حدیث ہے جسے محدثین نے من گھڑت اور خودساختہ قرار دیا ہے۔”
(روح المعانی: ۱۵/۱۱رشیدیہ)
اس لیے اس رات میں عبادت کے لیے مسجد میں خصوصی اجتماع اور وعظ و نصیحت کی مجلسیں درست نہیں۔
قال ابن حجر عن ابن دحية: “وذكر بعض القصاص أن الإسراء كان في رجب ، قال: وذلك كذب”(تبيين العجب ، ص 6.) ،
وقال ابن رجب: “وروي بإسناد لا يصح ، عن القاسم بن محمد ، أن الإسراء بالنبي -صلى الله عليه وسلم- كان في سابع وعشرين من رجب ، وأنكر ذلك إبراهيم الحربي وغيره”
زاد المعاد لابن القيم ، 1/2755 ، وقد ذكر ابن حجر في فتح الباري (7/242 2433) الخلاف في وقت المعراج ، وأبان أنه قد قيل: إنه كان في رجب ، وقيل: في ربيع الآخر ، وقيل: في رمضان أو شوال ، والأمر كما قال ابن تيمية.
وقال ابن تيمية: “لم يقم دليل معلوم لا على شهرها ، ولا على عشرها ، ولا على عينها ، بل النقول في ذلك منقطعة مختلفة ، ليس فيها ما يقطع به”( لطائف المعارف ، لابن رجب ، ص 233.).
على أنه لو ثبت تعيين ليلة الإسراء والمعراج لما شرع لأحد تخصيصها بشيء؛ لأنه لم يثبت عن النبي -صلى الله عليه وسلم- ولا عن أحد من صحابته أو التابعين لهم بإحسان أنهم جعلوا لليلة الإسراء مزية عن غيرها ، فضلاً عن أن يقيموا احتفالاً بذكراها ، بالإضافة إلى ما يتضمنه الاحتفال بها من البدع والمنكرات ، ذكر بعض تلك المنكرات: ابن النحاس في تنبيه الغافلين ، ص 4977 ، وابن الحاج في المدخل ، 1/211 212 ، وعلي محفوظ في الإبداع ، ص 272.
نوافل کی جماعت:
فقہ حنفی کی رو سے نوافل کے لیے تداعی (یعنی اہتمام کرکے لوگوں کا اجتماع بنانا ) مکروہ ہے چنانچہ تہجد، صلوۃ التسبیح وغیرہ کی جماعت فقہ حنفی کی رو سے اسی لیے مکروہ ہے۔
چراغاں کرنا:
مساجد میں نمازیوں کی ضرورت سے زیادہ روشنی، اسراف اور حرام ہے اس رات چراغاں کرنا نمازیوں کی ضرورت سے زائد ہے اس لیے یہ بھی اس حکم میں داخل ہے اور جائز نہیں۔ واﷲ اعلم