1۔البرٹ آئن اسٹائن دنیا کا عظیم سائنس دان گزرا ہے ۔ نظریہ اضافیت اور ایٹم بم کا موجد ہے ۔آ ئن اسٹائن کے نظریہ کے مطابق کسی بھی مادی چیز کی تیز رفتاری کی آخری حد روشنی کی رفتار یعنی تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ کے برابر ہے ۔اگر کوئی شخص اس رفتار پر قابو پالے تو وقت اس کے لیے تھم جائے گا ، کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے ۔ جس رفتار سے وقت چل رہا ہے یہ شخص بھی ا سی رفتار سے چلے گا تو وقت کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ حالانکہ خود وہ شخص یہ محسوس کر رہا ہوگا کہ میں سفر کر رہا ہوں اور جب وہ واپس اپنی جگہ پر آئے گا تو وہی وقت ہوگا جو وہ چھوڑ کے گیا تھا۔ اگر یہ حقائق واقعتا درست ہیں تو واقعہ معراج ، سائنس کی رو سے نہایت واضح حقیقت کے طور پر سامنے آتا ہے اور سائنسی نکتہ نظر سے واقعہ معراج میں تیز رفتار ی کے حوالے سے تقریبا کوئی اعتراض نہیں رہتا ۔
2۔فلاسفہ کا اس پر اتفاق رہاہے کہ حرکت کی تیز رفتاری کی کوئی حد مقرر نہیں۔ مشرق میں بجلی کوندتی ہے تو وہ لاکھوں میل کی مسافت سیکنڈوں میں طے کر کے مشرق میں گرتی ہے اور راستے کی کوئی بڑی سے بڑی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتی ۔انسانوں کی بنائی ہوئی مشینیں ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے چاند، مریخ اور زہرہ تک پہنچ گئیں ۔ان خلائی جہازوں کی رفتار میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے .ہوا چند سیکنڈ وں میں کتنی مسافت طے کر لیتی ہے اور یہ رفتار کی آخری حد ہے ۔کیا انہوں نے آنکھ کی بصارت کی رفتار کا اندازہ نہیں کیا؟ وہ تو لمحہ بھر میں اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جنہیں وہ ابھی تک نہیں پاسکے ۔ تو جب رفتار کی کوئی حد مقرر نہیں تو واقعہ معراج کی تیز رفتاری پر شبہ کیوں ؟
3۔اس دنیا میں کچھ واقعات عام قوانین فطرت سے بالا بالا وقوع پذیر ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ موجودہ سائنس Supernaturalاور Supernormal واقعات کو تسلیم کر چکی ہے۔ واقعہ معراج، انبیاء کرام علیہم السلام کے تمام معجزات اور اولیائے کرام کی کرامات بھی ماورائے فطرت اور ماورائے عقل واقعات ہیں۔ مستشرقین اور اہل سائنس کو چاہئے کہ غیر جانب داری اور حق شناسی کا ثبوت دیں اور ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں !