تحریر : محمد رضوان سعید نعمانی
نام ونسب :
ابوحنیفہ نعمان(699 – 767 ء / 80 – 150 ھ) بن ثابت بن نعمان بن مرزبان ،تیمی ،کوفی۔آپ کے پوتے اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ کی تصریح کےمطابق:”نعمان بن مرزبان”فارس کے معززین میں سے تھے ۔آپ کا خاندان کبھی غلام نہیں بنا۔اسما عیل کہتے ہیں میرے دادا ابو حنیفہ 80 ہجری میں پیدا ہوئے ۔ میرے پردادا “ثابت” کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ رضی اللہ نے ان کے لیے اور ان کی اولاد کے لیے خیر وبرکت کی دعا کی ۔ہمیں قوی امید ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی کی یہ دعا ہمارے خاندان کے حق میں قبول فرما لی ہے ۔امام صاحب کے دادا نعمان بن مرزبان نے فارسی تہذیب کے مطابق نوروز کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو “فالودہ ” پیش کیا تو آپ نے کہا :”ہمارا ہر دن نوروز ہوتاہے”۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ،صیمری، ص : 16)
آپ کےخاندان نے قبیلہ بنی تیم اللہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا ،پھر اسی خاندان سے ولاء اسلام کرلی تھی ۔اس لیے آپ تیمی کہلاتے ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم سے 17 ہجری میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے شہر کوفہ کو آباد کیا ۔اس کے وسط میں جامع مسجد اور دارالامارۃ کی بنیاد رکھی ،اس کے مشرقی جانب یمنی قبائل آباد ہوئے بنو تیم بھی انہی میں سے تھےجن کے حِلف وولاء میں امام صاحب کا خاندان تھا ،قرین قیاس یہ ہے کہ آپ کے خاندان کا مکان بھی اسی قبیلہ کے پڑوس میں رہا ہوگا۔(سیرت ائمہ اربعہ : قاضی اطہر مبارکپوری ، ص : 34)
اس سے معلو م ہواکہ امام ابوحنیفہ کاخاندان معاشرے میں اعلی مقام ومرتبہ رکھتا تھا ، جبکہ فضیلت کا دارو مدار دینداری پر تھا ،اسی وجہ سے آپ کے دادا “نعمان بن مرزبان” کوخلیفہ وقت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاں ہدیہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
آپ کا شمار تابعین میں ہے ۔آپ محدث ،فقیہ ،مجتہد اور اسلامی قانون کے مدون اول کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ امت کا ہرطبقہ آپ کے فضائل ومناقب پر متفق ہے آپ کا مشہور لقب “امام اعظم ” ہے ۔
حلیہ مبارک:
آپ خوشحال ومالدار خاندان کے چشم وچراغ تھے ، خاندانی شرافت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،اسی لیے آپ رہن سہن اور لوگوں سے میل جول میں انتہائی محتاط تھے۔متانت وسنجیدگی اور بہادری آپ کا طرہ امتیازتھا۔ابو نعیم کا بیان ہے کہ امام صاحب خوب رو تھے،اچھا لباس زیب تن کرتے ،عمدہ جوتے استعمال کرتے اور ہر ایک کے ساتھ ہمدردی وغمخواری کرتے تھے ۔عبدا للہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں کہ: ” امام صاحب کی مجلس پروقار تھی ،فقہاء آپ کی مشابہت اختیار کرتے تھے۔آپ کے چہرے کے نقش ونگار خوبصورت تھے ،اچھا کپڑا زیب تن کرتے تھے۔ایک مرتبہ ہم جامع مسجد میں تھے کہ سانپ امام صاحب کی گو د میں آگرا ،سب لوگ ڈر کے بھاگ نکلے ،آپ نے بغیر کسی خوف کے سانپ کو اپنے دامن سے جھاڑدیااور اپنی جگہ پر متانت سے بیٹھے رہے۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ،ص : 17)
تابعیت :
اللہ تعالی تکوینی طورپر جس کے لیے جو مقام متعین کردیتے ہیں ظاہر میں اس کے وسائل بھی مہیا کردیتے ہیں ۔آپ ﷺ کی زبانی اللہ تعالی نے یہ پیشین گوئی کردی تھی کہ “اگر ایمان ثریا ستارے کے قریب بھی ہوگا تواہل فارس میں سے بعض لوگ اس کو حاصل کرلیں گے”۔(بخاری)اہل فارس میں اس کا مصداق اللہ رب العزت نےعالم تکوین میں آپ ہی کو ٹھہرایا تھااس لیے آپ کے خاندان کے لیے ہجرتِ کوفہ کے اسباب پیداکرکے 80 ہجری میں جب کوفہ میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کی کثرت تھی آپ کی دنیا میں تشریف آوری مقدور کردی تاکہ تابعیت کے اعلی شرف سے مشرف ہوں۔اور دین کو براہ راست ان لوگوں سے سیکھ کر آگے پھیلائیں جنہوں نے براہ راست شارع علیہ السلام سے سیکھا ہے۔تمام ناقدین رجال کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ائمہ متبوعین ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ ،امام مالک ، امام شافعی ،امام حمد بن حنبل)میں سے تابعیت کا شرف صرف امام ابوحنیفہ کو ہی حاصل ہوا۔امام دارالہجرۃ حضرت امام مالک رحمہ اللہ بھی اس شرف سے محروم رہے۔جن صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی آپ کو زیارت نصیب ہوئی ان میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ متوفی 90 یا 93 ھ اور عبد اللہ بن ابی اوفی سر فہرست ہیں ۔نیز محدثین کی ایک جماعت نے ۸ صحابہٴ کرام سے امام ابوحنیفہ کا روایت کرنا ثابت کیا ہے؛ البتہ بعض محدثین نے اس سے اختلاف کیا ہے؛ مگر امام ابوحنیفہ کے تابعی ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے۔
علم کی طرف رغبت :
امام صاحب نہایت ذہین فطین اور نابغہ روزگار شخصیات میں سے تھے ،جوانی کا زمانہ بڑی خوشحالی اور فارغ البالی میں گذررہا تھا۔اپنے آبائی پیشے تجارت کے ساتھ ساتھ حصول علم کا شغف بھی رکھتے تھے ۔چنانچہ ابتدائی زمانہ تقریبا 22 سال کی عمر تک علم الکلام اور دیگر علوم آلیہ سے وابستہ رہے ۔مناظرہ ومجادلہ آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔مناظرہ کی خاطر خواہ افادیت نہ ہونے کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس سے بیزار ہونے لگے۔انہی دنوں آپ کا گذرعامر بن شراحیل شعبی کی درسگاہ سے ہوا ،تو انہوں نے دریافت کیا “تم کس کے ہاں آتے جاتے ہو”آپ ؒ نے جواب دیا فلاں شخص کے پاس جا رہاہوں ۔انہوں نے کہا میری مراد یہ ہے کہ آپ کس کے حلقہ علم میں جاتے ہو ” ۔آپ نے فرمایا :” اناقلیل الاختلاف الیہم” کہ اہل علم کے ہاں میرا زیادہ آنا جانا نہیں ہوتا۔عامر بن شراحیل نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا :تم ایسے نہ کرومیں تمہارے اندر ذہنی وفکری بیداری اور حرکت دیکھ رہا ہوں ،تم دین اور علماء دین کی مجلس اختیار کرو”۔امام شعبی کی یہ بات آپ کے دل میں گھر کر گئی اسی وقت سے بازار میں اور دکان میں آنا جانا بند کرکے “حماد بن ابی سلیمان “کے پاس علم دین کی تحصیل میں لگ گئے ۔(تصرف کے ساتھ سیرت ائمہ اربعہ سے)
علمی مقام ومرتبہ :
علمی دنیا میں امام صاحب ؒ انتہائی اعلی مقام رکھتے تھے ۔آپ کے معاصرین اور بعدمیں آنے والے ائمہ نے آپ کے علمی تفوق کا اقرار کیا ہے ۔آپ حضرت عمر بن الخطاب ،علی بن ابی طالب ،عبد اللہ بن مسعود اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے علوم کا سرچشمہ تھے ۔(تاریخ بغداد : 13/334) مولانا عبد الرشید نعمانی متوفی 1420ھ نے امام صاحب کے بارے میں نویں صدی کے معروف اسلامی مؤرخ ،نقاداور معتبر سوانح نگار علامہ ذہبی ؒ متوفی 748ھ کے اقوال کی روشنی میں مندرجہ ذیل تبصرہ کیا ہے :
- امام ابوحنیفہؒ نے قرآن ،حدیث ،فقہ ،نحو اور اس وقت کے مروجہ علوم پر دسترس حاصل کی۔
- امام ابوحنیفہ ؒ نے احادیث کےحصول کے لیے مختلف اسفار کیے جن میں زیادہ تر احادیث سن 100 ہجری کے بعد جمع کیں ۔اور اس دورمیں فقہا ء کے لیے قرآن کے بعد علم حدیث ہی دوسرامآخذ ہے ۔
- امام صاحب ؒ حضرت علی ،ابن مسعود اور کوفہ کے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے اقوال وآثار سے خوب واقفیت رکھتے تھے ۔
- امام صاحب ؒ کا شمار اپنے زمانہ کے ان دس ائمہ میں ہوتا ہے جن پر علم کی انتہا ء تھی ۔آپ قرآن وحدیث کے علوم میں امام مالک،اوزاعی ،ثوری ، لیث ،ابن عیینہ ، معمر ،شعبہ اور دونوں حماد کے ہم پلہ تھے ۔
- امام صاحب کا شمار ان بڑے ائمہ میں ہوتا ہے جن پر فقہ کی منتہا ء ہے ۔سب لوگ علم فقہ میں آپ ؒ کے محتاج ہیں ۔(مکانۃ الامام ابی حنیفۃ: ص47)
امام ابو حنیفہ عظیم محدث وعظیم فقہ :
امام ابوحنیفہ ؒ کا فقیہ ہونا تو روزروشن کی طرح عیاں ہے ،عوام وخواص سبھی آپ کو قانون اسلامی کے مدون اول کی حیثیت سے جانتے ہیں،آج تک اسلامی ممالک میں ٪90 دیوانی وفوجداری مقدمات آپ کے اور آپ کے شاگردوں کی مرتب کردہ فقہ اسلامی کے مطابق سر انجام دئیے جاتے ہیں۔تاہم آپ کی علم حدیث سے وابستگی اوراس میں رسوخ کو عوام تو کجا اکثر خواص بھی اس سے ناواقف ہیں ۔بعض نے تو اتنا بھی کہدیا کہ آپ ؒ کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں!!!یہ سب یا تو لاعلمی کی وجہ سے ہے یا سراسر عناد ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ قرون اولی میں فقیہ ہونے کے لیے علم حدیث میں رسوخ شرط اول تھی کیونکہ قرآن کے بعد یہ فقہ کا دوسرا مآخذ ہے ۔چنانچہ امام صاحب کے دادا استاذ حضرت “ابراہیم نخعی رحمہ اللہ متوفی 95ھ ” فرماتے تھے:” لَا يَسْتَقِيمُ رَأْيٌ إِلَّا بِرِوَايَةٍ، وَلَا رِوَايَةٌ إِلَّا بِرَأْي”(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم : 4/251) فقہ میں بغیر حدیث کے اور حدیث میں بغیر فقہ کے رسوخ نا ممکن ہے ۔توحدیث وفقہ لاز م وملزوم ٹھہرے۔اس سے معلوم ہواکہ آپ ؒ جس فقہی سلسہ سے منسلک تھے ان کے ہاں داخلے کی شرط ہی محدث ہونا تھا۔ذیل میں بطور نمونہ کے آپ ؒ کےحدیثی ذوق پر خامہ فرسائی کی جاتی ہے۔
طلب حدیث اور اسفار:
علامہ ذہبی ؒ متوفی 748ھ تراجم ِرجال پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔فرماتے ہیں :” امام صاحب ؒنے طلب حدیث کے لیے مختلف علاقوں کے اسفار کیے اورزیادہ تر حدیث کا ذخیرہ 100 ہجری کے بعد جمع کیا ۔(سیر اعلام النبلاء : 6/392) امام صاحب نے جو زمانہ پایا اس دور میں کسی کے علمی مرتبے کو جاننے کا ایک ذریعہ کثرت اساتذہ بھی تھا ۔ابو حفص الکبیر کے حکم سے جب آپؒ کے اساتذہ وشیوخ کی فہرست تیار کی گئی تو چار ہزار نکلےاس سےآپ ؒ کے حدیثی ذوق کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔عقود الجمان میں حروف تہجی پر آپ ؒ کے شمار کیے گئے اساتذہ کی تعداد دوسو اسی 280 سے متجاوز ہے ۔(عقود الجمان : 63 – 87)مسند امام اعظم میں آپ کے بلاواسطہ شیوخ کی تعداد تقریبا چالیس ہے ۔جن میں ایوب سختیانی ،عامر بن شراحیل الشعبی ،امام اعمش ،عطاء بن ابی رباح ،حسن بصری اور دیگر سر فہرست ہیں ۔ آپؒ فہم حدیث میں اپنے بعض اساتذہ سے بھی آگے تھے ۔
ایک مرتبہ آپ ؒ اپنے استاذ حدیث سلیمان بن مہران الاعمش متوفی 147/148ھ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔استاذ نے آپ سے کچھ علمی سوالا ت کیے ۔امام صاحب ؒ نے ان کے جوابات دئیے۔ہر سوال کے جواب پر امام اعمش کہتے تھے تم یہ جواب کس دلیل سے دے رہے ہو ؟آپؒ کہتے تھے آپ ہی کی بیان کردہ حدیث سے دے رہاہوں ۔آخر میں امام اعمش نے کہا : ” يَا معشر الْفُقَهَاء أَنْتُم الْأَطِبَّاء وَنحن الصيادلة “اے فقہا ء کی جماعت آپ لوگ طبیب ہیں اور ہم دوا فروش ہیں “۔
دوسرےموقعہ پر امام اعمشؒ نے امام صاحب ؒکے شاگر د رشید قاضی ابو یوسفؒ سے پوچھا تمہارے استاذِ فقہ ابو حنیفہ نے یہ قول کیوں ترک کردیا ” عتق الْأمة طَلاقهَا”باندی کی آزادی اس کے حق میں طلا ق ہے “امام ابو یوسف نے جواب دیا : ” تَركه لحَدِيث حدثتناه عَن إِبْرَاهِيم عَن الْأسود أَن بَرِيرَة حِين اعتقت خيرت” اس حدیث کی وجہ سے جو آپ نے ہمیں ابراہیم سے ،انہوں نے اسود سے ،انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاسے روایت کی ہے کہ بریرۃ رضی اللہ تعالی عنہا کو جب آزادی حاصل ہوئی تو انہیں اختیار دیا گیا تھا۔یہ جواب سن کر امام اعمش نے کہا ” إِن أَبَا حنيفَة لحسن الْمعرفَة بمواضع الْعلم فطن لَهَا واعجبه مَا أَخذ بِهِ أَبُو حنيفَة من الْعلم وَبَيَان مَا أَتَى بِهِ”ابوحنیفہ حدیث کے موقع ومحل کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور اس میں بڑا شعور رکھتے ہیں ۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص : 27-26)
امام صاحب بحیثیت جا رح ومعدل :
صرف فہم حدیث ہی امام صاحب کا طرہ امتیاز نہیں بلکہ آپ ؒ حدیث کے مشکل ترین فن راویوں کے احوال سے بھی خوب واقفیت رکھتے تھے ۔اور کئی راویوں پر آپنے جرح وتعدیل بھی کی ہے ۔
- حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ کے بارے میں آپ ؒ نے فرمایا :” ان سے افضل میں نےکسی کو نہیں دیکھا”۔
- جابر جعفی کے بارے کہا کہ میں نے اس سے بڑا جھوٹا نہیں دیکھا۔
- سفیان ثوری ؒ کے بارے میں کسی نے آپ سے دریافت کیا تو فرمایا : “سفیان ثوری سے احادیث لکھ لیا کرو علاوہ جابر جعفی کی احادیث اور ان احادیث کے جن کو وہ ابو اسحاق عن الحارث عن علی کی سند سے ذکر کرتےہیں۔(مکانۃ الامام ابی حنیفۃ ص : 78-72)
امام صاحب کا منہج حدیث :
امام صاحب ؒ کامطمح ِ نظر محدثین کے روایتی طرز پر محض احادیث کو جمع کرنا نہیں ،بلکہ ان احادیث سے مسائل کا استنباط کرنا آپ کی اولین ترجیح تھی ۔ظاہر ہے ہر حدیث قابل استدلا ل نہیں ہوتی اس لیے بعض احادیث کو آپ نے کسی نہ کسی وجہ سے ترک کردیا۔وہی وجو ہ آپ کا منہج حدیث قرار پائیں ۔
- امام صاحب کے ہاں ثقہ راویوں کی مرسل احادیث مقبول ہیں ۔
- امام صاحب خبر واحد کا اصول مسلمہ قرآن ،احادیث متواترہ ومشہورہ اور اجماع کے ساتھ موازنہ کرتےہیں۔اگر خبر واحد ان اصول کے موافق ہو تو مقبول بصورت دیگر مقبول نہیں ۔
- ایسے ہی خبر واحد کا کتاب اللہ کے عام اور ظاہر سے موازنہ کرتے ہیں ۔اگر خبر واحد اس کے موافق ہو تو قبول کرتے ہیں ورنہ کتاب اللہ کو اس کی بنسبت قوی ہونے کی وجہ سے تر جیح دیتے ہیں ۔اگر خبر واحد کتاب اللہ کے اجمال کا بیان ہو تو اسے قبول کرلیتے ہیں ۔
- اگر خبر واحد سنت مشہورہ کے مخالف ہوتو اس سے بھی استدلا ل نہیں کرتے ۔
- اگر دوخبر واحد آپس میں متعارض ہوجائیں تو وجہ ترجیح معلوم ہونے تک توقف کرتے ہیں ۔
- اگر خبر واحد راوی کے عمل کے مخالف ہوتو اس پر بھی عمل نہیں کرتے ۔
- جس خبر واحد کے متن یا سند میں کسی راوی کی طرف سے زیادتی ہوئی ہو تو اس کی روایت کو قبول نہیں کرتے ،اس کے مقابلے دوسرے راوی کی روایت کو لیتے ہیں۔
- جو خبر واحد صحابہ کے درمیان مختلف فیہ ہے کہ بعض صحابہ کرام نے اس سے استدلا ل کیا ہو ،بعض نے نہ کیا ہو اس سے بھی استدلا ل کرتے ہیں ۔
- جن مسائل میں عموم بلوی ہے عام وخاص سب کو ان سے واسطہ پڑتا ہے جیسے حدود وکفارات ایسے مسائل کے ثبوت میں خبر واحد کو قبول نہیں کرتے ۔
- اگر خبر واحد کا راوی روایت کو سننے کے زمانے سے لے کر آگے بیان کرنے تک اچھی طرح یاد رکھتا ہو تو قبو ل کرتے ہیں ،بصورت دیگر قبول نہیں کرتے ۔
- اگر خبر واحد صحابہ کرام اور تابعین عظام کے متواتر عمل کے مخالف ہو تو اسے قبول نہیں کرتے ۔(شرح مسند ابی حنیفہ لملا علی القاری:ب)
امام صاحب ؒ غیر معمولی شخصیت تھے ،پوری امت کا بوجھ آپ کے کندھوں پر تھا ۔لوگ آپ کے قول وفعل کو شریعت کا درجہ دیتے تھے اس لیے آپ نے پھونک پھانک قدم اٹھایا ۔اور حدیث کو غیر حدیث سے جداکرنے کے لیے مذکورہ بالا کڑی شرائط وضع کیں ۔ آپ کا ذخیرہ احادیث روایتی محدثین کی بنسبت کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے ۔