مولانا ابو الحسن علی ندوی رح نے اپنی خود نوشت “کاروان زندگی ” میں اپنے خاندان کی خصائص میں سے ایک خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : ” خاندان کے اکثر افراد کے حالات کے مطالعہ اور بار بار پیش آنے والے واقعات اور تجربات سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح معلوم ہوتا ہے کہ اس خاندان کے افراد میں اکثر اور بالعموم اس صفت کی کمی نظر آتی ہے جس کو چالاکی “سیاسی ذہانت ” اور عربی کے بلیغ لفظ “شطارہ ” سے ادا کیا جاتا ہے. ان میں ایک طرح کی (بغیر غباوت و بلادت کے ) سادہ دلی یا بھولاپن پایا جاتا ہے اور عام حالات میں ظالم بننے سے زیادہ مظلوم بننے، کسی کو نقصان پہنچا کر نفع حاصل کرنے سے زیادہ کھونے اور نقصان اٹھا لینے کی صلاحیت کا پتا چلتا ہے(1: 28)
مومن کی ایک صفت حدیث میں “غر کریم ” (سادہ مزاج اور کریم النفس ) اور فاسق کی “خب لئیم ” (چالاک اور کمینہ ) بتائی گئی ہے. اسی طرح مومن کی سادگی کو اس شریف مزاج اونٹ سے بھی حدیث میں تشبیہ دی گئی ہے جسے نکیل سے پکڑ کر جس پتھر پر بٹھایا جائے تو بیٹھ جاتا ہے.
اسی کے ساتھ مومن کی صفت یہ بھی ذکر کی گئی ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا نہیں جاتا.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمانی مزاج آخری حد تک چالاکی اور عیاری سے دور اور فطرت کی سادگی کے زیادہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے. اس میں پروٹوکول اور نخرہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کے لیے بلا ضرورت مسائل کھڑے کرنے کا سبب بنے. اپنے اسی مزاج کی وجہ سے وہ کسی کے حقوق پر دست درازی اور ظلم سے گریز کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ بیوقوف بھی نہیں ہوتا بلکہ اپنی ایمانی فراست سے چیزوں کے ظاہر سے جھانک کر ان کی حقیقت کا اندازہ کر لیتا ہے جس سے ان سے پہنچنے والے متوقع دینی یا دنیاوی نقصان کا ادراک کر لیتا ہے.
عام طور پر جن خاندانوں میں یہ اعلی اخلاقی اوصاف ہوتے ہیں ان میں دینی علم و عمل کی توفیق بھی میسر آتی رہتی ہے اور اللہ کے ہاں اوصاف قبولیت کے حامل افراد اٹھتے ہیں. حدیث کی تصریح کے مطابق جس طرح مختلف معدنیات کی کانوں سے مختلف قدر و قیمت کی دھاتیں نکلتی ہیں، اسی طرح خاندانی نجابت کی حیثیت بھی انہی کانوں کی طرح ہوتی ہے. کوئلے کی کان سے کوئلہ اور سونے کی کان سے سونا برآمد ہوتا ہے. رشتے ناتے استوار کرتے وقت محض دنیاوی مال و دولت سے زیادہ اس اخلاقی پوٹینشل کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے.
سیدمتین احمد