فیس بک کا فورم چونکہ افکار کی نشر و اشاعت کے حوالے سے بہت مؤثر بن چکا ہے اور رفتہ رفتہ پڑھے لکھے اور با صلاحیت ترین لوگ اس سے وابستہ ہو چکے ہیں اس لیے اس سے بننے والی کسی بھی فرد کی امیج کا اس کی سماجی زندگی پر اثر نہایت فیصلہ کن ہو چکا ہے.
مولانا وحید الدین خان نے اپنے مجلے “الرسالہ ” میں یک صفحاتی اور دو صفحاتی تحریر کا اسلوب اپنایا جو صحافت میں شاید سب سے منفرد ترین اسلوب تھا. اس کی وجہ ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ انھوں نے لکھا ہے کہ موجودہ دور کا انسان نہایت مصروف ہے اور طویل تحریریں پڑھنے کے لیے اس کے پاس وقت نہیں. اس لیے میرے دعوتی جذبے نے مجھے یہ اسلوب سکھایا کہ مختصر ترین اپنی بات قارئین تک پہنچا سکوں. الرسالہ کے صفحات سے مرتب ہونے والے اس ادب میں ایک چیز Success literature بھی ہے جو خالص مادی نقطۂ نظر سے لکھے گئے سکسس لٹریچر سے اس لیے مختلف ہے کہ اس میں اسلام کے ابدی حقائق کی روشنی میں مفید تعلیمات ہوتی ہیں. یہ لٹریچر “راز حیات ” جیسی کتابوں کی شکل میں مرتب ہو کر ریکارڈ مقبولیت پا چکا ہے.
فیس بک بھی آج کے مصروف ترین دور میں خیر کی بات پہنچانے کا بہت مؤثر ذریعہ ہے. چونکہ اس کے ساتھ بہت سنجیدہ اور پڑھے لکھے لوگ بھی وابستہ ہیں، اس لیے اس فورم کا استعمال زیادہ سے زیادہ مثبت مقاصد کے لیے کرنا چاہیے. اس فورم کی طاقت اب مسلم ہوتی جا رہی ہے. اس پر صرف کیا گیا وقت، الفاظ، تحریریں متاع زندگی کی امانت ہیں جن کی بابت اللہ کے حضور جواب دہ ہونا ہے. اس لیے اسے فضول اور لایعنی امور میں استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے. اپنا وقت اگر فضول چیزوں میں ضائع کیا جائے گا تو ایسی چیزیں جو دوسروں کی توجہ حاصل کریں گی تو ان کا وبال بھی صاحب پوسٹ کے کھاتے میں آئے گا. اس کا مطلب یہ نہیں کہ ظرافت و تفریح وغیرہ سے بالکل منہ موڑ کر بالکل ماتم کا ماحول بن جائے لیکن فضول اور لا یعنی مستقل مزاج نہیں ہونا چاہیے.