والدہ کے انتقال پر میراث کی تقسیم

فتویٰ نمبر:686

استفتاء:

میری والدہ کا ایک ماہ پہلے انتقال ہوا ہےاور،وراثت کی تقسیم کس طرح کی جائے،میں اکلوتا ہوں اور میرے نانااور والد صاحب حیات ہیں؟

الجواب حامدة و مصلیة سب سے پہلے اس عورت کا کفن دفن کیا جائے گا جو شوہر کے ذمے ہے.پھر مرحومہ کے چھوڑے ہوئے مال میں سے اس کے ذمہ کسی کا قرض ادا کرنا باقی ہو تو وہ قرض ادا کیا جائے  پھر اگر مرحومہ نے کسی ایسے شخص کے حق میں وصیت کی ہو جو اس کا وارث نہیں بن رہا تو بقیہ مال متروکہ کے تہائی سے اس وصیت کو پورا کیا جائے اس کے بعد جو مال بچے اس کے بارہ حصے کیے جائیں گیں ان میں سے تین حصے شوہر کو، دو حصے باپ کو اور بقیہ سات بیٹے کو دیئے جائیں گیں.نقشہ درج ذیل ہے:

کل حصے=12

شوہر=3

والد=2

بیٹا=7

ملاحظہ:یہ تقسیم وراثت اس بناء پر ہے جب میت کے مذکورہ بالا ورثاء کے علاوہ کوئی اور شرعی وارث نہ ہو.

==========

فان كان لهن ولد فلكم الربع مما تركن من بعد وصية يوصين بها او دين.(سورة النساء:12) 

==========

ولابويه لكل واحد منهما السدس ان كان لها ولد.(سورة النساء:12)

=========

العصبات بانفسهم أربعة أصناف…كالابن.(رد المحتار:10/518،ط:دار عالم الكتب) 

==========

العصبة:كل من يأخذ ما أبقته أصحاب الفرائض.(السراجى،باب العصبات) 

=========

واللہ خير الوارثين- بنت حفیظ الحق. دارالافتاء صفہ آن لائن کورسز. 6-جمادی الاولی-1438 ھ. 3-فروری-2017ء

اپنا تبصرہ بھیجیں