حضرت اقدس سیدی وسندی جناب مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم
ا لسلام علیکم
براہ کرم درج ذیل مسئلہ کےبارے میں شریعت کا صحیح نقطہ نظر واضح فرمائیں کہ :
آج کل دنیا بھر میں بڑی کمپنیوں کو اپنے استعمال کئے ہوئے پانی کوریسائیکل(Recycle ) کرکے استعمال کرنا پڑتا ہے اس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ جو پانی کمپنی اپنے استعمال میں لاتی ہے اسی پانی کو کیمیاوی طور پر پلانٹ میں صاف کر کے دوبارہ استعمال کرنا پڑتا ہے جس پلانٹ کے ذریعہ اس پانی کو صاف کیاجاتا ہے اسے “واٹریٹمنٹ پلانٹ ” (Water Treatment Plant ) کہتے ہیں اس پلانٹ میں سے جس قسم کابھی پانی گذرا جاتا ہے وہ ماء مطلق کی شکل میں صاف ستھرا ہوجاتا ہے اس کا مزہ اس کا رنگ اس کی بو سب کچھ ماء مطلق کی طرح ہوجاتا ہے ( حالانکہ صفائی سے پہلے اس پانی کا رنگ مزہ ، بو سب کچھ تبدیل ہوچکا ہوتا ہے اور اس میں نجاست بھی ملی ہوتی ہے لیکن اس کو اس ٹیکنالوجی کے ذریعے صاف کیاجاتا ہے کہ وہ صفائی کے بعد وہ بالکل ماء خالص کی طرح ہوجاتا ہے ) تو کیا اس ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ذریعے صاف کئے ہوئے پانی کی نجاست بھی دور ہوجاتی ہے یا نہیں ماء نجس کی تطہیر میں فقہاء کے مابین اختلاف ہے ماء نجس کی تطہیر کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟ جس کی تفصیل درج ذیل اوراق میں موجود ہے ۔
جناب والا سے اس مسئلہ میں صحیح وضاحت وترتیب مطلوب ہے کہ اس پلانٹ کے ذریعہ صاف ہونے والے پانی کی تطہیر کا کیا راستہ ہوسکتا ہے ؟
الجواب حامداومصلیا
پانی میں اصل طہارت ہے نجاست اس کو عارض ہوتی ہے چنانچہ اسیک حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ( الماء طھور لا ینجسہ شئی ) یعنی ” پانی پاک ہے اس کو کوئی شئی ناپاک نہیں کرسکتی ” اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پانی کی اصلی صفت پاک رہنا ہے البتہ بعض اوقات اس کو نجاست عارض ہوسکتی ہے لیکن اس نجاست کو دور کرنے کے بعد پانی کی صفراصلیہ دوبارہ واپس لوٹ آتی ہے ۔ چنانچہ علامہ عبدا لرحمن بغدادی ؒ مالکیہ کے مشہور متن”ارشاد السالک ” میں فرماتے ہیں۔
واذا مات بری ذو نفس سائلۃ فی بئر فان تغیر وجب نزخہ حتی یزول التغیر فان زال بنفسہ فالظاھرہ عودہ الی اصلہ
ترجمہ : جب کنویں میں کوئی ذی روح جس میں بہنے والا خون ہو ، مرجائے اور پانی متغیر ہوجائے تو اپنا پانی نکالنا لازم ہے کہ پانی کا تغیر ختم ہوجائے اگریہ تغیر خود بخود ختم ہوجائے تو ظاہر یہ ہے کہ پانی کی اپنی اصلی حالت ( طہارت ) کی طرف لوٹ آئے گا ۔
اور علامہ انور شاہ کشمیری ؒ درس تقریر ترمذی ” العرف الشذی” ج 1ص 96 میں فرماتے ہیں کہ حدیث ” ان الماء طھور لاینجسہ شئی ” کے زیادہ قریب مفہوم یہ ہے کہ :۔
“الماء طھور لایبقی نجسا ابداً بحیث لا یکون لطھارتہ سبیل “
ترجمہ: ” پانی پاک ہے ( اور اگر وہ نجس ہوجائے ) تو ہمیشہ نجس نہیں رہتا ککہ اس کی طہارت کا کوئی راستہ ہی باقی نہ ہو “
جہاں تک پانی کو پاک کرنے کے طریقہ کا تعلق ہے تو حنفیہ کے نزدیک پانی کی تطہیر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ناپاک پانی میں پاک پانی میں اس قدر اضافہ کردیاجائے کہ پانی کی مقدار ایک بڑے حوض ( جو پیمائش میں کم از کم دس ہاتھ چوڑا اوردس ہاتھ لمبا ہو ) ہوجائے ،یا ماء جاری کے حکم میں ہوجائے اور ناپاک پانی کا رنگ بوذائقہ تبدیل ہوکر پاک پانی کی طرح ہوجائے تو ناپاک پانی پاک ہوجائے گا ۔
1: المحیط البرھانی لالامام برھان الدین ابن مازۃ ( 1/243 )
2: المحیط البرھانی لالامام برھان الدین ابن مازۃ( 1/83)
3:الفتاویٰ الھندیۃ (1/17 )
4: الموسوعۃ الفقیھۃ الکویتۃ ( 20/
حضرا ت مالکیہ کے نزدیک بھی پانی کی تطہیر کا یہی طریقہ ہے البتہ ان کی کتب میں پانی کے کم یازیادہ ہونے کی تفصیل مذکور نہیں نیز مالکیہ کی بعض کتب میں ناپاک پانی میں مٹی ڈالنے سے بھی تغیر کے زائل ہونے کی صورت میں پانی کے پاک ہونے کا حکم لگایا گیا ہے ۔ جیسا کہ ” حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر ” ج 1ص 174میں مذکور ہے ۔
“فانہ اذا حلت فیہ نجاسۃ وغیرتہ یمکن تطھیرہ بصب مطلق علیہ قلیل او کثیر حتی یزول التغیر او بصب تراب او طین فیہ حتی یزول التغیر “
اور حضرت شوافع ؒ کی اکثر کتب میں پانی کی تطہیر کے متعلق یہ تفصیل مذکور ہے کہ اگر پانی دو قلے ( مٹکے جوپانچ مشکیزوں کے برابر ہوں ) ہوتو اس کی پاکی کے تین طریقے ہیں ۔
اول یہ کہ ا س میں پاک پانی ڈال کر اس کا تغیر ختم کردیا جائے ۔
دوم یہ کہ کافی عرصہ پر پڑا رہنے کی وجہ سے خود بخود تغیر زائل ہوجائے ۔
سوم یہ کہ اس میں مٹی یا چونا ڈال کر اس کے تغیر کو ختم کردیاجائے ۔ البتہ اس تیسرے طریقے سے پانی کی تطہیر میں فقہاء شافعیہ رحمہم اللہ کے دو قول ہیں لیکن ” المھذب ” اور “المجموع شرح المھذب ” میں ” حرملہ ” کے حوالے سے پاک ہونے کو اصح کہا گیا ہے ۔ ( عبارات 6۔65)