سوال: اگر حج کے دنوں میں عورت کو ایام آجائے تو اسکا حج ہو گیا یا نہیں؟
فتویٰ نمبر:220
الجواب باسم ملھم الصواب
عورت کا حج ہو جائے گا کیونکہ کیونکہ حج کے افعال میں سوائے بیت اللہ کے طواف کے کوئی چیز ایسی نہیں جس میں عورتوں کے خاص ایام رکاوٹ ہو ں اگر حج کا احرام باندھنے سے پہلے حیض آجاے تو عورت غسل کر کے حج کا احرام باندھ لے اور یہ غسل احرام کیلیے ہوگا نماز کےلیے نہیں
اگر طواف کے دوران حیض آجائے تو فورا مسجد سے باہر آجانا ضروری ہے, اس حالت میں طواف پورا نہیں ہو سکتا مسجد میں حالت حیض میں رکے رہنا گناہ ہے اگر طواف کے چار چکر ہو گئے ہیں تو طواف ادا سمجھا جائے گا اور باقی طوافوں کا صدقہ دے دیں اوراگر چار سے کم ہوئے تو طواف ادا نہیں ہو گا، پاک ہونے کے بعد انکی قضا کی جا ئے گی (طواف کا صدقہ یہ ہے کہ ہر چکر کر بدلے آدھا صاع گندم یا اس کی قیمت فقراء کو دی جائے -طواف زیارت ناپاکی کی حالت میں کرنے سے بدنہ یعنی ایک اونٹ یا ایک سالم گائے واجب ہو گی)
طواف زیارت کا حکم :یہ طواف دس تاریخ کو کیا جاتا ہے یہ فرض ہے جو کہ کرنا ضروری ہے، لیکن اگر عورت ان دنوں میں خاص ایام میں ہو تو طواف میں تاخیر کرےاور پاک ہونے کے بعد طواف کرلے، اگرحیض ونفاس کی وجہ سے پورا طواف زیارت یا اکثر چکر چھوڑ کر اپنے وطن چلی گئی تو اس پر فرض ہے کہ اسی احرام سے واپس جا کر طواف زیارت کرے اونٹ اور گاۓ کے دم دینے سے یہ فرض ادانہ ہو گا-
اگر دوبارہ آکراس فریضہ کو ادا کرنا استطاعت سے باہر ہو یا ویزا کا بڑھانا ممکن ناہو توایسی صورت میں بامر مجبوری حیض کی حالت میں طواف زیارت کر لیا جاۓ اور بطور جنایت ایک بدنہ (سالم گائےیااونٹ) دم دے جو حدود حرم میں ذبح کیا جائے
اگرمکہ میں روپے نہیں ہیں توواپس آکر روپے بھیج دیئے جائیں وہاں عورت کی طرف سے کوئی بدنہ کا دم ادا کر دے تو حج ادا ہو جاۓ گا-
طواف وداع کا حکم : یہ طواف مکہ مکرمہ سے رخصت ہونے کے وقت کیا جاتا ہے یہ واجب ہے اگر عورت خاص ایام میں ہے تو اسے چھوڑ دے اور مکہ سے رخصت ہو جائے، طواف صدر کی وجہ سے اس پر کچھ واجب نہ ہوگا؛اسلیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کو طواف صدر چھوڑنے کی اجازت دی ہے –
باقی منی ،عرفات ،مزدلفہ میں جو مناسک ادا کیے جاتے ہیں انکے لیے عورت کا پاک ہونا شرط نہیں-
واذا حاضت المراة عند الاحرام اغتسلت و احرمت وصنعت كما يصنعه الحاج، غير انها لا تطوف بالبيت حتی تطهر لحديث عائشة رضي الله عنها حين حاضت بسرف وهذا الحديث اخرجه الامام البخاري ومسلم
عن عبد الرحمن بن القاسم عن ابيه عن عائشة رضي الله عنها قالت خرجنا الي الحج فلما كنا بسرف حضت فدخلت علي رسول الله صلي الله عليه وسلم وانا ابكي فقال مالك انفست، قلت نعم، قال ان هذا امر كتبه الله علي بنات ابن ادم ،اقضي ما يقضي الحاج، غير انك لا تطوفين بالبيت حتي تطهري. ولان الطواف في المسجد والوقوف في مفازة، وهذا الاغتسال للاحرام لا للصلاة فيكون مفيدا فان حاضت بعد الوقوف وطواف الزيارة انصرفت من مكة ولا شي عليها لترك طواف الصدر لان عليه السلام رخص في طواف الصدر. (الھدایہ:کتاب الحج:باب التمتع ص256،257)-(1)
قال القاري رحمه الله تعالي:(ولوترك الطواف كله او طاف اقله وترك اكثره) اي رجع الي اهله(فعليه حتما) اي وجوبا اتفاقا(ان يعود بذلك الاحلام ويطوفه) اي لانه محرم في حق النساء ولا يجوز احرام العمره علي بعض افعال الحج من الطواف والسعي ولو بعد الحلق من التحلل الاول (ولا يجزي عنه) اي ترك الطواف الذي هو ركن الحج كله اواکثر (البدل) وهو البدنه لانه ترك ركنا فلا يقوم مقامه غيره بل يجب الاتيان بعينه ولا يجزي عنه البدل(اصلا)اي سواء عاد الي اهله او لم يعد(مناسك القاري:345)-(2)
وانكان طاف للزيارة جنبا حتى رجع الي اهله فانه يعود الي مكةليطوف طواف الزياره وليس له ان يدخل مكة بغير احرام فلزمه احرام جديد لدخول مكة وان لم يرجع الي مكة فعليه بدنة لطواف الزيارة وعلي الحائض مثل ذلك للزيارة (مبسوط للسرخسي41/4،فتح القدير462/2)
والله اعلم بالصواب
بنت حبیب
4جنوری 2017
5 ربیع الثانی1439ھ