اس وقت اردو زبان میں ترجمے کی رفتار کافی تیز ہے اور انگریزی عربی وغیرہ سے چیزیں ترجمہ ہو کر کثرت سے اشاعت پذیر ہو رہی ہیں۔ ترجمے کی حیثیت بیساکھی کی سی ہوتی ہے جو مجبوری میں استعمال کی جاتی ہے، اس لیے اگر اصل زبان میں مطالعے کی استعداد ہو تو ترجمے سے گریز مناسب ہے۔ بہت کم ایسے مترجم ہوتے ہیں جو متن کے ساتھ انصاف کر پاتے ہیں۔یہ مشکل ادبی متون کے مقابلے میں علمی متون کے ترجمے پر زیادہ صادق آتی ہے۔راقم اپنے مطالعے کی محدود سی دل چسپی کے باعث انگریزی اور عربی سے ترجمہ شدہ چیزوں کو دیکھتا رہتا ہے اور کوشش رہتی ہے کہ بعض کتابوں کے متن اور ترجمے کا تقابل کیا جائے۔ مختلف تراجم اور متون کے تقابل کے بعد یہ راے بنی ہے کہ ترجمے کے عمل میں بہت زیادہ خیانت کا دخل ہے جو ظاہر ہے شعور ی کے بجائے مختلف وجوہ سے ہوتا ہے۔بعض مقامات پر مصنف نے کچھ اور کہا ہوتا ہے مترجم نے اسے کسی اور انداز میں بیان کیا ہوتا ہے۔بعض اوقات اصل زبان کے لفظ میں معانی کے جو Dimensions ہوتے ہیں، ترجمے میں اس لفظ کے متبادل سے وہ آفاق روشن نہیں ہو پاتے جو اصل مصنف کے پیش نظر ہوتے ہیں۔کئی جگہوں پر تو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ اصل متن کا معتد بہ حصہ سرے سے ترجمے میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ ملک میں کوئی ایسا دارالترجمہ ہونا چاہیے جہاں سے معیاری تراجم شائع ہوں اور ماہرین کی جانچ پرکھ کے بعد ہی انھیں اشاعت کے مرحلے میں لایا جائے۔
سید متین احمد