دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر:42
سوال: میکٹر فارما پاکستان کی صف اول کی دواساز کمپنیوں میں سے ۔ دو سال قبل ادارے نے اپنے “vision “ سازی کے دوران مندرجہ ذیل بنیادی اقدار ادارے پرعائد کرنے پراتفاق کیا۔
1۔سچائی اوردیانتداری ۔
2۔انصاف
3۔خوش اخلاقی۔
رزق حلال
رزق حلال کے حصول کے لیے شریعت کے احکامات کی پابندی اور ادارے کے قوانین کی پابندی اصول ٹھہرائے گئے۔ اورہر ڈیپارٹمنٹ پر لازم کردیاگیا کہ اپنے دائرہ کار میں ان تمام چیزوں کی نشاندہی کریں جس میں شریعہ سے غیر مطابقت کا یقین یا شک ہو اور منصوبہ بندی کے تحت ان تمام کاموں کو شریعہ کے مطابق کیاجائے یا رد کردیاجائے۔
ادارے کے دو بنیادی ڈیپارٹمنٹ مارکیٹنگ اور فنانس ہیں۔ فنانس میں معاملہ بالکل واضح ہے ۔ہمیں سود ختم کرنا ہے اور ہمیں گورنمنٹ کے Taxes & Duties قانون اور شریعت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مکمل ادا کرنے ہیں۔
مارکیٹنگ میں چیزیں اتنی واضح نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ا س خط کے ذریعے آپ سے شریعت کی روشنی میں مدد اور مشورہ درکار ہے ۔
فارماسیوٹیکل مارکیٹنگ کے بارے میں چند الفاظ : ادویات کی مارکیٹنگ کو Indirector Marketing بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر ( جو مریض کو دوائی لکھتا ہے ) دواساز کمپنی کا کسٹمر ہوتا ہے ،لیکن Consumer مریض ہوتا ہے ۔ پاکستان میں 500 سے زائد دوا ساز کمپنیاں ہیں ہزاروں Registerd ادویات13000 ہزار سے زائد ) اور دوا ساز کمپنیوں کے ہزاروں کارندے ( Salds rep ) ڈاکٹر حضرات کو اپنی دوائی لکھوانے پر مامور ہیں ۔ا یک سروے کے مطابق ہر دن ایک مناسب پریکٹس رکھنے والے ڈاکٹر کو 20 سے زیادہ Sales Rep ملتے ہیں جو کم ازکم اپنی تین دوائیاں اس ڈاکٹر کو Promote کرتے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک ڈاکٹر کے کلینک میں ہونیوالی مارکیٹنگ کی جنگ کا آپ خوداندازہ لگاسکتے ہیں۔
غرض یہ کہ ڈاکٹر سے دوائیاں لکھوانے کے لیے دواساز کمپنیاں مختلف طور طریقے اپناتی ہیں ۔ مثلا
1۔Product Literature : دوائی سے متعلق ضروری معلومات Brochure کی شکل میں ڈاکٹر کو دیے جاتے ہیں۔ Sales Rep ان کی مدد سےڈاکٹر کوا پنی پروڈکٹ کی خصوصیات سے آگاہ کرتا ہے ۔
2۔Free of Cost Samples : ڈاکٹر کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر کو اپنی پروڈکٹ کے Samples فراہم کرتے ہیں ۔ اس کےاستعمال سے ڈاکٹر کو دوائی کی کوالٹی پر اطمینان بھی ہوجاتا ہے اور بعد میں ان Samples کے دینے سے ڈاکٹر کو دوائی یاد بھی رہتی ہے ۔
3۔Gift/Giveaway: ڈاکٹر کی عام استعمال کی چیزیں مثلاpads,pens table clocks, Files,Torches وغیرہ وغیرہ ان تحائف پر کمپنی کے پروڈکٹس کانام لکھا ہوتا ہے تاکہ ڈاکٹر کودوائی کا نام یادرکھنے میں مشکل نہ ہو۔
مندرجہ بالا Activities میں ظاہری طور پر شریعہ سے غیر مطابقت نظر نہیں آتی ۔ البتہ یہ ذمہ داری اپنی جگہ برقرار رہتی ہے کہ کمپنی اس بات کا اہتما م کرے کہ جو کچھ میڈیکل لٹریچر میں لکھا جارہاہے وہ سچ ہے اور اس میں کوئی جھوٹ نہیں۔ا سی طریقےن سے اگر کوئی دوائی کے Samples دیے جارہے ہیں ( چونکہ ان کو قانوناً فروخت نہیں کیا جاسکتا )کہیں ڈاکٹر یا Sales Rep ان کو بیچ تونہیں رہا ، یا اگر عام استعمال کے تحفے دیے جارہے ہیں توان کی قیمت مناسب ہونی چاہیے نہ کہ یہ کہ انتہائی قیمتی تحائف دیئے جائیں۔
ان Activites کے علاوہ مندر جہ ذیل Marketing Activites ہیں جو موجودہ حالات میں عام رائج ہیں۔ فارما کمپنیاں یہ Services بڑھ چڑھ کر ڈاکٹرز کو Offer کرتی ہیں یا دوسری طرف ڈاکٹرز فارما کمپنیوں سے ان کا بھرپور تقاضا کرتے ہیں ۔معذرت کرنے کی صورت میں ڈاکٹر سے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔یعنی اگر توڈاکٹرصاحب دوائی لکھ رہے تھےتولکھنا بند کردیں گے اور اگردوائی پہلے یہ نہیں لکھ رہے تھے توآئندہ بھی نہیں لکھیں گے۔
4۔Personal Services : کئی ڈاکٹرز دوائی کو لکھنے کے عوض کسی بھی قسم کی چیز کا تقاضا کرتے ہیں اس میں ڈاکٹر کے گھر یا ذاتی کلینک کے لیے A/c ,fridge,Carpet فیملی کے ساتھ سیر وتفریح کے اخراجات وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔
5۔Acadmeic Service : ان سے مرادوہ تما م تحائف جن کا تعلق میڈیکل کے علم سے ہو۔ اس میں میڈیکل کی Text Books مختلف Specialities کے چھپنے والے قومی اور بین الاقوامی ریسرچ Journals وغیرہ شامل ہیں ۔ ان کے علاوہ ملکی اور غیر ملکی ہونیوالی Medical Conferences میں ڈاکٹر حضرات کو Sponcer کرنا ۔ اندرون ملک کانفرنس میں اخراجات ( جس میں ٹکٹ،رجسٹریشن اوررہایش شامل ہے )
تقریبا 30,000 روپے فی ڈاکٹر جبکہ غیر ملکی کانفرنس میں ایک لاکھ سے تین لاکھ تک کا خرچہ آتاہے۔
6۔Ward Services : گورنمنٹ ہسپتال مسلسل فنڈز کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ ان حالات میں میڈیکل وارڈز کی مرمت ، رنگ وروغن Patient Beds یا کسی بھی قسم کے آلات،کمپیوٹر ز کی ضرورت پڑنے پر فارماکمپنیوں سے تقاضا کیا جاتاہے ۔ جو کمپنیاں Co.operate کرتی ہیں ان ہی کی دواؤں کو لکھاجاتا ہے ۔ ڈاکٹر کا کہنا یہاں یہ ہوتا ہے کہ یہ اخراجات ہماری اپنی ذات پر نہیں کئے جارہے ہیں ان سے مریضوں کا بھلا ہوتا ہے۔
دو سال سے ہم نے ایک قدم تو یہ اٹھایا کہ اپنی تمام دوائیاں جن کی قیمتیں زیادہ تھیں ان دواؤں کی قیمتوں کو جس حد تک ممکن تھا ، کم کردیا ۔ اس کے باوجود بھیڈاکٹرز کےتقاضے اپنی جگہ پر ہیں ۔ ایسے میں شریعۃ کیا رہنمائی کرتی ہے ؟ کیا Academic Serviceاور Ward Service جائز ہیں کہ ناجائز ؟ اور کسی طریقے سے یا نیت کے ساتھ کی جائیں توشرعاً جائز قرارپائیں گی ؟
مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میری اردو تحریرضعیف ہے اوراس لیے میں گزارش کرونگا ،کہ خط پڑھنے کے بعد آپ ضرور کوئی ایسا وقت طے کرلیں جس میں میں آپ سے مل کر اور تفصیل سے ان Marketing Activites کی وضاحت کرسکوں۔
الجواب حامداومصلیا
سوال میں ذکر کردہ Academic Service اور Ward Service پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ان کاتعلق ڈاکٹرز کی ذات سے ہے اسی طرح یہ اقدامات مریضوں کے علاج میں بھی بہتری پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔ جیسے میڈیکل کی درسی کتابوں Text Books, بین الاقوامی جرائد، (International Journals کا مطالعہ اور میڈیکل کے حوالے سے ملکی وغیر ملکی کانفرنسوں میں شرکت کہ ان سے استفادہ کر کے ڈاکٹرز حضرات مریضوں کا علاج زیادہ اچھے انداز میں کرسکتے ہیں۔
اسی طرح Ward Service میں میڈیکل وارڈ کے مطلوبہ سامان کی فراہمی علاج کو کامیاب بنانے میں بہت معاون ہے ۔ اس کے علاوہ بعض مرتبہ میڈیکل وارڈ کی مرمت وغیرہ کی بھی کسی حدتک واقعی ضرورت بنانے میں بہت معاون ہے ۔ لہذا اگر آپ ڈاکٹر حضرات کے لیے مذکورہ خدمات اس نیت سے سرانجام دیں کہ اس میں مریضوں کا بھی فائدہ ہے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ البتہ اس میں درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
1۔ان خدمات کی ادائیگی کا بوجھ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کر کے مریضوں پر نہ ڈالاجائے بلکہ کمپنی کے حاصل شدہ منافع سے یہ خدمات سر انجام دی جائیں ۔
2۔ان خدمات کی ادائیگی کا خرچہ وصول کرنے کے لیے ادویات کے معیار میں کمی نہ کی جائے۔
3۔ یہ خدمات سر انجام دیتے وقت یہ شرط نہ لگائی جائیں کہ ڈاکٹر حضرات ان خدمات کے بدلے اسی کمپنی کی ادویات لکھنے پر مجبور ہونگے۔ بلکہ انہیں مکمل طور پر آزادی ہو کہ وہ جس دوائی کو مریض کے لیے مفید سمجھیں ۔ وہ لکھ کردیں اورڈاکٹر حضرات بھی اس میں پابندی کریں کہ کسی دوسری کمپنی کی ادویات تجویز نہ کریں ۔
4۔محض ان خدمات کے حصول کے لیے ڈاکٹر اسی کمپنی کی غیر ضروری ، غیر معیاری اورمہنگی ادویات تجویز نہ کریں ۔ بلکہ اس کمپنی کی ادویات صرف اس وقت لکھیں جب ان کے فہم وتجربہ کی روشنی میں ادویات کا استعمال زیادہ مفید ہو۔ نیز بلا وجہ ضرورت سے زائد ادویات لکھ کر نہ دی جائیں۔
ان شرائط کے علاوہ Ward Service کے سلسلے میں بہتر یہ ہے کہ ڈاکٹر کے کسی مطالبے کے بغیر کمپنی کے افراد خود جاکر وارڈ کا معائنہ کریں اور پھر اس کے لیے مناسب خدمات سر انجام دیں ۔ واضح ہو کہ یہ ساری تفصیلات Academic Service اورWard Service کے متعلق ہیں ۔ جہاں تک ذاتی خدمات ( Persnol Services) کا تعلق ہے توڈاکٹر حضرات کی طرف سے ان کا تقاضا کرنا کسی طرح جائز نہیں اوران کے تقاضے کی وجہ سے میڈیکل کمپنی کے لیے بھی ان کو مذکورہ خدمات مہیا کرنا جائز نہیں ۔ا س سے بچنا لازم اور ضروری ہے ،کیونکہ رشوت میں داخل ہے جس کا لینا دینا حرام ہے ۔
لیکن اگر ڈاکٹر حضرات کی طرف سے کسی بھی قسم کے ( صراحتا ً یا اشارتاً ) تقاضے بغیر کمپنی اپنی طرف سے کوئی خدمت کردے اوراس میں درج بالا شرائط پائی جاتی ہیں تو اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے لیکن آج کل Persomal Service کے معاملات میں ان شرائط کی پابندی کرنا بہت ہی مشکل ہوتاہے اس لیے ان خدمات کے سر انجام دینے سے بچنا بہر حال بہتر ہے۔ واللہ اعلم
دارالافتاء دارالعلوم کراچی