ڈاکٹر محسن عثمانی
اردو بک ریویو دہلی
ہزاروں نہیں لاکھوں انسان یہ خیالِ خام رکھتے ہیں کہ وہ اردو زبان اچھی طرح جانتے ہیں وہ اردو بولتے ہیں، کیونکہ یہ ان کی مادری زبان ہے جب کہ مرزا داغ دہلوی کا کہنا ہے کہ یہ خیال محض خوش عقیدگی اور غلط فہمی پر مبنی ہے ورنہ وہ اردو زبان جو بے عیب ہو اور جس میں محاورہ اور قواعد کی غلطی نہ ہو کچھ ایسی آسان نہیں کہ اس کے جاننے کا ہر دعویٰ درست ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو زبان بڑی مشکلوں سے آتی ہے اور آتے آتے آتی ہے۔ بڑی مشق ممارست اور مزاولت کے بعد آتی ہے اور اساتذۂ سخن اور کاملین فن کی صحبت اختیار کرنے کے بعد آتی ہے اور اس کے بعد بھی زبان کی غلطیوں سے کبھی کبھی دامن بچا لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک واقعہ توضیح مدعا کے لئے بیان کیا جاتا ہے۔
جوش ملیح آبادی کا شمار ان ماہرِ فن شعرا میں ہوتا تھا جنہیں زبان و بیان کی صحت پر مکمل دسترس حاصل تھی اور جن کا فرمایا ہوا ایک ایک لفظ مستند سمجھا جاتا تھا۔ ایک بار جگن ناتھ آزاد اُن کی مجلس میں آئے اور بعد تسلیم انہوں نے دریافت کیا کہ ’’آپ کے مزاج بخیر ہیں؟ مجلس کے اختتام پر جگن ناتھ آزاد نے جوشؔ صاحب سے ان کی مہارت زبان کا اعتراف کرتے ہوئے التماس کیا کہ اگر وہ کوئی غلطی ان کی زبان میں دیکھیں تو بے تکلف آگاہ کردیا کریں۔ جوش صاحب نے جواب دیا کہ ’’میاں یہ بات لوگ کہہ تو یتے ہیں لیکن ٹوکنے پر برا بھی مانتے ہیں۔‘‘ جگن ناتھ آزاد نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ہرگز برا نہیں مانیں گے بلکہ شکر گزار ہوں گے۔ تب جوش صاحب نے کہا کہ دیکھئے ابھی آپ نے آتے ہی پوچھا تھا۔
مزاج بخیر ہیں؟ یہ لفظ مزاج اگرچہ بہت سی چیزوں کا مجموعہ ہے لیکن اس کا منفرد استعمال ہی درست ہے۔ یوں پوچھنا چاہئے تھا آپ کا مزاج بخیر ہے؟
اس واقعہ کے بہت دنوں کے بعد جگن ناتھ آزاد پھر جوش صاحب کے یہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ پروفیسر آل احمد سرور تشریف لائے اور آتے ہی انہوں نے جوش صاحب سے سوال کیا۔ ’’آپ کے مزاج بخیر ہیں؟‘‘ بعد میں جب پروفیسر آل احمد سرور گفتگو کرنے کے بعد واپس چلے گئے، جگن ناتھ آزاد نے جوش سے کہا ’’دیکھئے یہ اتنے بڑے پروفیسر ہیں اور یہ بھی ’مزاج بخیر ہیں‘ بولتے ہیں۔‘‘ جوش نے ہنس کر کہا کہ میاں آج کل اردو کے پروفیسروں کو اردو کہاںآتی ہے۔ یہ قصہ خود جگن ناتھ آزاد نے اپنے مضمون میں لکھا تھا جو ’’ہماری زبان‘‘ دہلی میں شائع ہوا تھا۔ جوش کے مقام و مرتبہ سے ہر شخص واقف ہے اور زبان کے معاملہ میں انہیں سند کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے، خود انہیں بھی اپنی زبان دانی پر فخر تھا لیکن خدائی انتظام یہ ہے کہ فوق کل ذی علم علیم ہر جاننے والے سے بڑھ کر کوئی دوسرا جاننے والا بھی ہوتا ہے۔ اس لئے اب ایک دوسرا واقعہ سن لیجئے:
سید مسعود حسین ادیب مرحوم مشہور ادیب اور زبان داں تھے۔ لفظوں کے بالکل درست مفہوم اور ان کے دروبست پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔ کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان لکھتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حسن نے اپنے ایک مضمون میں ان کا واقعہ لکھا ہے کہ جوش ملیح آبادی نے اپنی ایک مشہور نظم پڑھی جس کا ٹیپ کا مصرع تھا:
رواں دواں بڑھے چلو رواں دواں بڑھے چلو
جوش کو کلام پر خوب خوب داد مل رہی تھی۔ جلسے کے بعد مسعود صاحب نے بڑی شائستگی سے جوش سے کہا۔ ’’جوش صاحب آپ جب یہ نظم شائع کریں تو یہ نوٹ ضرور دے دیں کہ ’رواں دواں‘ کا لفظ لغوی مفہوم میں استعمال ہوا ہے محاورے کے اعتبار سے نہیں۔‘‘ جوش صاحب چوکنا ہوگئے اور پوچھا کہ محاورہ کے اعتبار سے اس کا کیا مفہوم ہے؟
مسعود صاحب نے بتایا کہ رواں دواں کا محاورہ کے اعتبار سے وہ مفہوم ہے جو صفی لکھنوی نے یتیموں کے بارے میں اپنی نظم میں ادا کیا ہے:
’’رواں دواں ہیں غریب الدیار ہیں ہم لوگ‘‘
رواں دواں یعنی مارے مارے پھرنے والے بے سہارا لوگ۔ جوش صاحب لفظوں کے اسرار و رموز سے آگاہ تھے پھر بھی ایک غلطی ان سے سرزد ہو ہی گئی ۔ محاورے کے اعتبار سے ان کے مصرع کا مطلب یہ ہوگیا کہ ’’مارے مارے پھرنے والے بے سہارا لوگوں کی طرح بس چلتے رہو۔‘‘
زبان و بیان کو غلطیوں سے پاک رکھنے کے لئے زبان و بیان کے ماہرین کی تحریریں پڑھنے کلاسیکی شاعری کا مسلسل مطالعہ کرنے اور ہوسکے تو اہل زبان کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی گفتگو سننے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اس کے بغیر زبان کا مزاج آشنا بننا اور گفتگو اور تحریر کو غلطی سے منزہ رکھنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ چونکہ اس ماحول میں نئی نسل کی پرورش نہیں ہوئی ہے اس لئے تذکیر و تانیث اور محاورے کی غلطیاں وبائی امراض کی طرح عام ہوتی جارہی ہیں۔ اب باذوق لوگ بھی گھروں میں بچوں کو زبان کی غلطیوں پر ٹوکتے نہیں ہیں۔ حالانکہ زبان کی خرابی بھی ایک طرح کی بیماری ہے اور اس کے علاج کی فکر ہونی چاہئے۔ محاورے کی غلطیوں کی چند مثالیں دیکھئے:
ایک لکھنے والے نے ایک صاحب کے علمی ذوق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’’بوڑھے ہوچکے ہیں، بیمار رہتے ہیں پھر بھی روزانہ لائبریری جاتے ہیں۔ سچ ہے چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔‘‘ لکھنے والے کو احساس نہیں ہوا کہ چور والا محاورہ ذم کے لئے آتا ہے، تعریف کے لئے نہیں آتا۔ اسی طرح سے ایک صاحب نے اپنے پڑوسی سے کہا کہ ’’آپ اپنی گاڑی مجھے دیجئے۔ میں اس پر اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ زبان سے بے خبری کی وجہ سے انہیں جملہ میں بے احترامی کے مخفی مفہوم کا اندازہ نہیں ہوسکا۔ چنانچہ غیر شعوری طور پر زبان کی بے سلیقگی پیدا ہوگئی۔ اسی طرح سے لوگ بولتے ہیں ’’میں فلاں صاحب کو اسٹیشن چھوڑنے جارہا ہوں‘‘ گویا مہمان نہ ہوا بلّی ہوئی جسے لوگ بند کرکے دور اس غرض سے چھوڑتے ہیں تاکہ وہ واپس نہ آسکے۔ یہ بھی نہیں کہنا چاہئے کہ میں بچے کو اسکول چھوڑنے جارہا ہوں۔ چھوڑنے کے بجائے پہنچانے کا لفظ مناسب ہے۔ اسی طرح یہ جملہ بھی درست نہیں کہ شہر میں تبلیغی جماعت کا اجتماع ہونے جارہا ہے۔ یہ کہنا چاہئے کہ تبلیغی جماعت کا اجتماع ہونے والا ہے یا ہوگا۔ ’’ہونے جارہا ہے‘‘ انگریزی کا لفظی ترجمہ ہے اور اردو زبان کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ ایک صاحب میرؔ سے ملنے آئے اور کہا کہ آپ کو زحمت دینے کی معافی مانگتا ہوں۔ انہیں کہنا چاہئے تھا معافی چاہتاہوں۔ میرؔ صاحب تُنک مزاج تھے اور غلط زبان نہیں سن سکتے تھے۔ انہوں نے غصہ میں کہا ’’بھیک مانگو بھیک، معافی کیا مانگتے ہو۔‘‘ ایک صاحب نے مضمون میں لکھا تھا ’’ایک بے نام سی کسک اس کے سینہ میں ٹیس مارتی تھی۔‘‘ یہاں بھی محاورہ کی غلطی ہے ’’ٹیس اٹھنا‘‘ محاورہ ہے نہ کہ ٹیس مارنا۔ بہت سے لوگ حیدرآباد میں بولتے ہیں ’’میں نے بی اے کا امتحان کامیاب کرلیا۔‘‘ یہ غلط ہے۔ صحیح محاورہ امتحان میں کامیاب ہونا ہے نہ کہ کامیاب کرنا۔ بہار میں بہت سے لوگ اس طرح بولتے ہیں میں مکہ سے مدینہ گیا (کاف اور نون پر زبر کے ساتھ) حالانکہ امالے کے ساتھ پڑھنا چاہئے صحیح یہ ہوگا میں مکے سے مدینے گیا۔ میں پٹنے سے آرہا ہوں نہ کہ پٹنہ سے آرہا ہوں۔ دلیل کے طور پر داغ دہلوی کا یہ شعر ہے:
کسی کا مجھ کو نہ محتاج رکھ زمانے میں
کمی ہے کون سی یارب ترے خزانے میں
شعر میں زمانہ اور خزانہ نہیں پڑھا جائے گا۔ بہت سے لوگ استفادہ حاصل کرنا بولتے ہیں۔ استفادہ باب استفعال سے ہے اور اس میں حصول کا مفہوم داخل ہے اس لئے کہنا چاہئے میں نے استفادہ کیا۔ کچھ لوگ بولتے ہیں میں نے یہ کام کرا۔ حالانکہ کہنا چاہئے میں نے یہ کام کیا۔
قاعدہ ہے کہ دو مختلف زبانوں کے لفظوں کے درمیان اضافی ترکیب درست نہیں ہے۔ اس لئے ’’لبِ سڑک‘‘ درست نہیں ہے۔ اسے اگر درست قرار دیا جائے گا تو فوق البھڑک اور کثیر المہک بھی درست ہوگا۔ پھر تو کوئی یوں بھی لکھ سکتا ہے کہ ’’لبِ گھڑا ایک ٹکڑائے نان رکھا ہوا تھا جسے دیکھ کر لبِ چوہے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔‘‘ یاد رکھنا چاہئے کہ خورشید الاسلام اختر الایمان اور اختر واسع یہ سارے نام قاعدے کے اعتبار سے غلط ہیں کیونکہ ان میں دو زبانوں کے لفظوں کے درمیان اضافی ترکیب ہے۔ تمام اردو اخبارات میں مرنے والے کے لئے مہلوک کا لفظ عام ہوگیا ہے۔ اہل ادب اور اہل زبان کو یہ لفظ نہیں استعمال کرنا چاہئے اور آج تک کسی مستند ادیب اور صاحب قلم نے استعمال نہیں کیا ہے۔ فعل ’’ھلک‘‘ لازم ہے نہ کہ متعدی۔ اس لئے مرنے والا ہالک ہے۔ قرآن میں آیا ہے اللہ کی ذات کے سوا ہر شئے ’’ہالک‘‘ ہے لیکن ہالک کا استعمال اردو میں نہیں ہے اس لئے فارسی ترکیب ہلاک شدگان یا کوئی اور مناسب لفظ استعمال کرنا چاہئے۔ زبان کے قاعدوں سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت سے لوگ ’’ناراضگی‘‘ کا لفظ بولتے اور لکھتے ہیں۔ صحیح لفظ ناراضی ہے جو حاصل مصدر ہے ناراض کا۔ ’’گی‘‘ کے ساتھ حاصل مصدر وہاں بنے گا جہاں آخر میں ہائے مختفی آتی ہو جیسے زندہ سے زندگی، بندہ سے بندگی وغیرہ۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ بھی بعض غلطیاں پھیلائی گئی ہیں۔ ’’آئیے پروگرام کی شروعات کرتے ہیں‘‘ اور ’’ٹرین الٹ گئی اور پچاس آدمی مارے گئے۔‘‘ یہ دونوں جملے غلط ہیں۔ ہونا چاہئے ’’پروگرام شروع کرتے ہیں اور پچاس آدمی مرے یا مرگئے۔‘‘ اسی طرح سے مرغن، مچرب اور رہائش کے الفاظ بھی غلط ہیں۔ روغن عربی زبان کا لفظ نہیں اس لئے باب تفعیل سے اس کا اسم مفعول محمد کے وزن پر مرغن اور اسی طرح چربی سے مچرب بنانا درست نہیں ہے۔ ’’رہنا‘‘ اردو کا مصدر ہے اس لئے فارسی کے حاصل مصدر آسائش اور آرائش کے وزن پر رہائش کا استعمال درست نہیں ہوگا۔ ایک معروف معاصر ادیب اور محقق نے ساڑھے آٹھ سو صفحہ کے ناول میں جو ابھی حال میں شائع ہوا ہے کئی جگہ ’’کواغز‘‘ کا لفظ کاغذ کی جمع کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کاغذ عربی کا لفظ نہیں۔ اس لئے مفاعل کے وزن پر جو عربی جمع کا وزن ہے کواغز کہنا درست نہیں ہوگا۔ مساجد مسجد کی جمع بالکل درست ہے لیکن ’’منادر‘ مندر کی جمع درست نہیں۔ زبان کی صحت کے بارے میں یہ دلیل درست نہیں کہ لوگ بولتے ہیں۔ دلیل قواعد سے دینی چاہئے یا قابل اعتبار لغت کی کتاب سے یا مستند شاعر و ادیب کے کلام سے۔ عوام کی غلطی کو فصیح قرار دینا زبان و ادب کی دنیا میں جنگل کا راج قائم کرنا ہے اور انار کی پھیلانا ہے۔
غلطی ہائے مضامین کا سلسلہ بہت دراز ہے۔ تمام غلطیوں کی نشان دہی ممکن ہی نہیں۔ صرف ایک ایسی غلطی پر یہ مضمون ختم ہوجاتا ہے جو پورے ملک میں عام ہوچکی ہے۔ عوام تو عوام ہیں اب خواص بھی کثرت سے لفظ اللہ کو جس کے ساتھ توحید کا عقیدہ وابستہ ہے بطور جمع استعمال کرنے لگے ہیں۔ واعظین شیوا بیان اور مبلغین کرام مسجدوں میں اور تبلیغی اجتماعات میں تقریروں میں پرسوز لہجہ کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘‘ شان توحید یہ ہے کہ کہا جائے ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔‘‘ وہ علما جن کی زبان سند کا درجہ رکھتی ہے جیسے مولانا آزاد، علامہ شبلی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، ابوالاعلیٰ مودودی، ابوالحسن علی ندوی اور جتنے بھی اردو زبان کے بڑے ادیب اور شاعر گزرے ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی آج تک لفظ اللہ کو صیغہ جمع میں استعمال نہیں کیا ہے۔ جواب میں یہ نہ کہا جائے کہ غایت احترام میں ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیا زبان کے ماہرین مذکور بالا علما اللہ کا احترام نہیں جانتے تھے۔ جن علما کو زبان کی صحت سے کوئی غرض نہیں اور جنہیں ادب سے سروکار نہیں، جن کی اردو مستند نہیں، ان کا نام سند اور دلیل کے طور پر نہیں لانا چاہئے۔
زبان وادب کا مناسب ذوق پیدا کرنے کے لئے ادبا اور شعرا کا کلام پڑھنا چاہئے۔ اسی کے ساتھ تھوڑی سی عربی زبان سے اور تھوڑی سی فارسی سے واقفیت ضروری ہے۔ اردو زبان کی چاشنی، شیرینی اور اس کے رنگ و روغن کی حفاظت کے لئے عربی اور فارسی کا علم بھی ضروری ہے۔ تمام اسکولوں میں اردو کے ساتھ عربی یا فارسی کا بھی ایک اختیاری مضمون ہونا چاہئے۔ عربی اور فارسی سے ناواقفیت کی وجہ سے کبھی کبھی فاش غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔ ایک ادیب، ادیب کی جمع اَدِبّا پڑھا کرتے تھے۔ الف پر زبر دال کے نیچے زیر اور ب پر تشدید اور زبر کے ساتھ اور کہتے تھے طبیب کی جمع اَطِبّاء ہے اسی وزن پر ادیب کی جمع اَدِبّاء ہے۔ ایسی غلطی عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ جو لوگ ادیب کی جمع صحیح استعمال کرتے ہیں وہ بھی عربی نہ جاننے کی وجہ سے اس سوال کاجواب نہیں دے سکتے ہیں کہ جب طبیب اور ادیب ہم وزن ہیں تو دونوں کی جمع ہم وزن کیوں نہیں ہے۔ ایک صاحب نامور (طاقتور کی طرح) کو نامور کافور کے وزن پر پڑھتے تھے اور ایک صاحب گل بداماں کا مطلب بتا رہے تھے بادام کا پھول۔ یہ غلطیاں فارسی سے نابلد رہنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ تھوڑی سی عربی اور تھوڑی سی فارسی سیکھ لینے سے اردو تحریر میں خوبصورتی اور شگفتگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اردو زبان کی باریکیوں کو سمجھنے اور اس کا مزاج آشنا بننے کے لئے ریاضت و مزاولت کی ضرورت ہے۔ نثر و شعر کے اچھے نمونے جب تک نظر نہیں گزریں گے مذاق سخن کیسے پیدا ہوگا۔ افسوس کہ دینی مدارس میں جو ہزاروں کی تعداد میں اس ملک میں ہیں باستثناء چند اردو زبان و ادب سے بے توجہی برتی جاتی ہے اور یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ ہمیں اردو آتی ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے طلبا اور یونیورسٹی کے پروردہ گورا شاہی اردو بولنے لگے ہیں جیسے ’’مجھے آفٹرنون میں جوبلی ہال جاتا ہے وہاں تھری او کلاک کو پروگرام اسٹارٹ ہوجائے گا‘‘ اردو کے ساتھ اس ظلم و جفا سے اس کا جسم لہولہان ہے۔ وہ شاخ جو کبھی شاخ نہال تھی، جس پر نواسنجان گلشن کا بسیرا تھا، شاخ بریدہ بن گئی ہے۔ اس کی شادابی ختم ہوچکی ہے۔ زبان کے بارے میں اس قدر لاپروائی اور بے توجہی سے زبان کیسے آئے گی۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے