تحریر : محمد رضوان سعید نعمانی
دوسری قسط
محبت کی اقسام :
محبت کی دو قسمیں ہیں (1) طبعی محبت (2) عقلی وشرعی محبت ۔
طبعی محبت : انسان کا کسی چیزکو طبعی طور پر چاہنا ، اس کی طرف راغب ہوناہے ،جیسے عاشق کامحبوب کو ،خاوند کا بیوی کو ، والدین کا اولاد کو،اور دوست کا دوست کو چاہنااور دوسروں پر ترجیح دینا۔
عقلی اور شرعی محبت : اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے،جو طبعی محبت سے مقدم ہےاور کمال ایمان کے لیے لازمی ہے ، اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے آپ ﷺ نے فرمایا :”جب تک میں تمہیں اپنی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤوں تب تک آپ کاایمان کامل نہ ہوگا” توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”اب آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ” آپ ﷺ نے فرمایا اب آپ کا ایمان مکمل ہوگیا”۔(صحیح البخاری : 6/2445، رقم : 6257، ناشر : دار ابن کثیر)
اللہ اور رسول کی محبت میں اللہ تعالی نے اپنی محبت کو اصل قراردیاہے اسی لیے قرآن کریم میں فرمایا “ایمان والے اللہ تعالی سے بے پناہ محبت کرتےہیں”(سورۃ البقرۃ : 165)
اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کو اپنی محبت کی کسوٹی اور معیار قراردیتے ہوئے فرمایا : ” اے پیغمبر ﷺ ! ایمان والوں سے کہدیجیے اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تمہیں اپنامحبوب بنالیں گے اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیں گے”۔(سورۃ آل عمران : 31)
اللہ اور اس کےرسول کی محبت سے مراد”اللہ کی شریعت کو اس کے رسول محمد ﷺ کے طریقےکے مطابق بجالانا اور اس پر عمل پیرا ہوناہے”۔
رہی طبعی محبت اس میں رسول اللہ ﷺ کی ذات اطہر ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے والدین ،بیویوں ،بچوں اور اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے جیسے سلوک کیا ،ان سے محبت کا اظہار کیا ، وہ ہمارے لیے ہمارے والدین اولاد ، بیویوں اور دوستوں کے معاملہ میں مشعل راہ ہے۔ذیل میں طبعی محبت کے مراتب حضور ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے عمل کی روشنی میں ذکر کیے جاتے ہیں ۔
والدین کی محبت :
دین اسلام میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے بعددوسرامرتبہ والدین کی محبت کا ہے ، اللہ تعالی نے سورۃ اسرآء ،آیت 23 ،24 میں اپنے حقوق( کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایاجائے) کے بعدوالدین سے حسن سلوک کاحکم دیا ، ان کے حقوق اور ان سے اظہار محبت کا طریقہ بتلایا۔جس کا مفہوم ذیل میں ذکر کیاجاتاہے:
- جب والدین میں سے کوئی ایک یادونوں بڑی عمر کو پہنچ جائیں ، تو انہیں اف تک نہ کہو ، یعنی ہر وقت ان کو دلی خوشی پہنچاؤ ، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے تنگ آکر ان کو نازیبا بات کہدو۔
- والدین کو ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو۔
- ہمیشہ ان سے نرم وگداز اور دل موہ لینے والے لہجے میں گفتگو کرو ان کو یہ احساس دلاؤ کہ دنیا میں ہم تمہاری ہی خدمت کے لیے جی رہے ہیں ۔
- والدین سے محبت کا برتاؤ کرتے ہوئےان کے سامنے اپنے آپ کو جھکانا ،اور ان الفاظ سے ان کے حق میں دعا گوہونا:”اے میرے پروردگار جیسے والدین نے مجھے بچپن میں پالا پوسا ،آپ ان کے ساتھ ویسا ہی رحمت کا معاملہ کیجیے۔گویا ان کے لیے دعاءِرحمت ومغفرت کرنا۔
یہ تو والدین کے بعض مشترکہ حقوق ہیں ان حقوق میں بھی والدہ کو والد پر فوقیت وبرتری حاصل ہے کیونکہ ماں پاب کی نسبت بچےکے لیے زیادہ قربانیاں دیتی ہے وہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کراسے جنتی ہے اپنا پیٹ کاٹ کر اس کا پیٹ بھرتی ہے سردی ہو یا گرمی ہر قسم کی مشقت جھیل کر اس کی پرورش میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی یہاں تک کہ وہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوجائے ۔
یہی اللہ کے رسول ﷺ کا عملی وقولی نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کی حقیقی والدہ محترمہ آپ کے پچپنے میں ہی فوت ہو گئیں تھیں اس لیے آپ ان کی خدمت کا موقع نہ پا سکے تاہم رضا عی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی جوانی میں بقید حیات تھیں۔روایات میں آپ ﷺ کا ان سے حسن سلوک مروی ہے ،جو ابناء امت کےلیے والدین کے بارے میں اسوۃ حسنہ ہے۔ بروایت ابن سعد قحط سالی کے زمانہ میں حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ آئیں۔ آپ ﷺ کو فقر وفاقہ کی خبر دی ، تو آپ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا سے چالیس بکریاں اور ایک اونٹ لے کران کے ہمراہ کردیا۔(الطبقات الکبری ،ابن سعد : 1/113 ، ناشر : دار صادر،بیروت)
ایک حدیث میں ہے:” آپ ﷺ سے کسی صحابی نے سوال کیا:”لوگوں میں سے کون میرے اچھے سلوک کا زیادہ مستحق ہے ؟آپ ﷺ نے جواب دیا:” تمہاری ماں ، اس نے کہا ماں کے بعد کون ؟ فرمایا تمہاری ماں ، تیسری بار اس نے پوچھا پھرکون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں “( صحیح مسلم : 8/2،رقم :6664، ناشر : دارالجیل بیروت)
مختصر یہ کہ اولاد کی والدین سے محبت یہی ہے کہ وہ ان کے تمام حقوق اداکریں ،ان کوکسی قسم کی پریشانی میں مبتلانہ کریں ، ہرکام میں ان کی معاونت کریں اوران کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد خیال کریں ۔ کیونکہ اس سلسلہ میں آپ ﷺ کی اولاد ہمارے لیے آئیڈیل ونمونہ ہے ،جیسے انہوں نے اپنے باپ حضرت محمد ﷺ سے محبت کانمونہ ہمارے لیے پیش کیا ہمارے لیے وہی مشعل راہ ہے ذیل میں ایک واقعہ کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتاہے۔
آپ ﷺ کی لاڈلی وچہیتی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے انتقال کے تین دن بعد آپ کے بچپن کے مربی ومشفق چچا ابوطالب کاسایہ بھی آپ سے اٹھ گیا۔ تو قریش کی ایذائیں بڑھنے لگیں۔اب ظاہر میں ان کو ٹوکنے والا کوئی موجود نہ تھا۔ایک مرتبہ کسی بدبخت وشریر نے آپ ﷺ کے سر مبارک پر کوڑاڈالدیا۔آپ ﷺ اسی حالت میں گھر داخل ہوئے تو آپ کی اولاد نے آپ کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا۔بلکہ آپ کی تکلیف کو اپنی تکلیف جانا،فورا آپ کی ایک بیٹی اٹھیں۔ وہ آپ ﷺ کا سر دھلاتی جاتیں ،اور روتی جاتی تھیں ۔آپ ﷺ نے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے فرمایا :”پیاری بیٹی ! تم کیوں روتی ہو تمہارا باپ اکیلا نہیں ،اللہ پاک خود اس کی حفاظت فرمائیں گے”۔(سیرت ابن ہشام : 1/416 )
اولاد کی محبت :
جیسے اولادپر ماں باپ کی محبت کااظہار ضروری ہے ایسے ہی ماں باپ پر اولاد کی محبت لازمی ہے ۔ مراد ان کے حقوق کی بجاآوری ہے ،اس لیے کہ کوئی آدمی اپنی اولاد سے محبت کے ہزار ہا دعوے کرے ،انہیں دنیا کی ہر چیز بہم مہیا کرے ،لیکن ا ن کی نیک تربیت نہ کرے ،ایسا شخص شرعا مجرموں کی فہرست میں ہوگا۔اسی لیے اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اولاد کے حقوق پر بہت زور دیا ہے۔ سورۃ انعام کی آیت (151) میں تیسرے نمبر پر انسان کے ذمہ اپنی اولاد کے حقوق کے متعلق فرمایا:”اور تم مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کی جان نہ لو ،کیونکہ ہم ہی تم کو اور ان کو روزی دیتےہیں”۔
قرآن کریم کے پہلے مخاطب اہل عرب ہیں ،ان میں اولاد کے حوالے سے بہت سی ایسی بے اعتدالیاں پائی جاتی تھیں جو ظلم کی حدود پھلانگ چکی تھیں ،اس لیے اللہ پاک نے سب سے پہلے ان بے اعتدالیوں سے منع کیا ، اور کہا کہ اپنی اولاد کو ایسے جینے کا حق دو جیسے خود جیتے ہو ،اس کے بعد ان کے حقوق بیان کیے ۔ذیل میں قرآن وسنت کی روشنی میں اولاد کے مختصر طور پر چند حقوق ذکر کیے جاتے ہیں جو حقیقت میں اولاد سے محبت کا ثمرہ ہیں :
- دین اسلا م نے انسان کو اپنی اولاد کی محبت اور ان کے حقوق کی بجاآوری کامکلف ،ان کے زمانہ حمل سے ہی کردیا ، والدین پر سب سے پہلی ذمہ داری یہ عائد کی کہ وہ حمل جان بوجھ کر شرعی عذر کے بغیر ضائع نہ کریں ، اور اس کے ضیاع کو گناہ قراردیا۔
- ولادت کے بعد اولاد کے قتل کا ارتکاب نہ کریں ۔ چاہے وہ کسی کی خوشنودی کے لیے ہو(جیسے زمانہ جاہلیت میں عرب اپنے دیوتاؤں کی خوشنودی اور رضا کے لیے اولاد کو ان پر قربان کردیتے تھے)، فقر وفاقہ کے خوف سے ہو،شرم وعار کی وجہ سے ہو یا کسی اور غرض سے۔
- ان کی بہتر طریقے سے جسمانی نشو ونما اور پرورش کرنا ، دوسال تک انہیں ماں کا دودھ پلانا اگر ماں کا دودھ کسی وجہ سے میسر نہ آئے تو دایاکا انتظام کرنا۔جبکہ خرچ کی ذمہ داری باپ پر ہے۔
- جب ظاہر ی نشوونما خوب ہوجائے تو روحانی وباطنی تربیت دینا ،ان کو دینی ودنیوی تعلیم کے نایاب زیور سے آراستہ کرنا۔ اس حق کو قرآن کریم کی سورۃ تحریم آیت 6 میں انتہائی مختصر الفاظ میں بیان کیاگیا ہے جس کامفہوم ہے :”اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ”۔مقصود اولاد کو ان تمام برائیوں خرابیوں ہلاکتوں اور بری عادات سے بچانا ہے جو انسان کو جہنم کی آگ کا مستحق بنادیتی ہیں ۔
- بیٹوں کو بیٹیوں پر صرف جنس کے اختلاف سے ترجیح نہ دینا۔ دونوں میں مساوات کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
- بڑی اولاد کو چھوٹی اولاد پر کسی قسم کی ترجیح نہ دینا ۔بڑوں ،چھوٹوں ،بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر کی محبت دینا ،مال وجائیداد کی تقسیم میں سب کو شریعت کے مطابق برابر حصہ دینا۔
- اولاد کی بھلائی کے لیے برابر اللہ تعالی سے یہ دعا مانگنا: “اے اللہ! ہماری اولاد کوہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا”۔
- الغرض ایک اچھےمعاشرے اور سوسائٹی کو وجودمیں لانے کے لیے ماں باپ پر لازم ہے کہ وہ نیک صالح دیانتدار اور بااعتماد افراد مہیا کریں۔تاکہ روئےزمین ہر قسم کے فسادات سے پاک ہوجائے ۔
اولاد سے محبت کے یہ وہ طریقے ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ ہمارے لیے بہترین آئیڈیل ہیں ذیل میں چند ایک واقعات کی طرف اشارہ کیا جاتاہے:
جنگ بد ر کے قیدیوں کی رہائی وبازیابی کے لیے چار ہزاردرہم فی کس طے پایا ، ان قیدیوں میں آپ ﷺ کے داماد حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے (جو ابھی تک دولت اسلام سے سرفرازنہ ہوئے تھے)ان کے پاس فدیہ کی رقم نہ تھی ،آپ ﷺ کی دوسرے نمبر پر صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنہا نے اپنے خاوند کے فدیہ میں کچھ مال اور اپنے گلے کا قیمتی ہار اتار کرآپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا ، جو ان کی والدہ حضرت خدیجۃ ام المؤمنین رضی اللہ تعالی عنہا نے انہیں جہیز میں دیا تھا۔ جب آپ ﷺ نے وہ ہار دیکھا تو آپ کا دل اولاد کی محبت میں نرم پڑگیا ، بے اختیا ر آپ کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔صحابہ سے درخواست کی اگر تمہاری اجازت ہوتو بیٹی کی یاد گار واپس کردوں ، سب نے اطاعت سے سر جھکالیے ، اور ہار واپس کردیا۔(سیرۃ ابن ہشام : 1/213-215 ، ناشر : شركۃالطباعۃ الفنيۃالمتحدة)۔اس کے علاوہ سیرت کی کتب آپ ﷺ کے اپنی چہیتی لخت جگر حضرت فاطمہ اور نواسوں حضرات حسنین کریمین رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے محبت کے واقعات سے بھری ہوئی ہیں۔
رشتہ داروں کی محبت :
قرآن کریم میں اللہ پاک نےاور رسول اللہ ﷺ نے اپنے اسوۃ حسنہ سے انسان کو رشتے داروں سے اظہار محبت کے طریقے بھی بتلائے ہیں ۔ان کے ایسے حقوق بتلائے جن کے اداکرنے سےآپس میں محبت پیداہوتی ہے۔البتہ یہ ذمہ داری تب ہے جب ماں باپ اولادبیوی اور شوہر کے حقوق اداکرنے بعدبھی صاحب ثروت ہو ۔
قرآن کریم میں “رشتے داروں ” کولفظ ” قربیٰ” اور “الارحام “سے تعبیر کیا گیا ہے ۔جس کا مطلب محبت کی فطری گرہ ہے جسے علامہ شبلی نعمانی ؒاور سید سلیمان ندویؒ نے سیرت النبی(حصہ ششم ص 391، ناشر : دار الاشاعت) میں ایک دلنشیں عبارت میں ذکرکیا ہے : ” رحم مادر(رشتہ داری) اور رحمان کے رحم وکرم کے درمیان حرفوں کا یہ اشتراک ، محبت کے معنوی اشتراک کے بھید کو فاش کرتاہے،اس سےوہ اہمیت ظاہر ہوتی ہے جو اسلام کی نظر میں اہل قرابت کی ہے”۔ اور جو اس کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ پاک نے ان کو فاسق وگناہ گار کہاہے ۔ کم ازکم بارہ آیات میں ان کے حقوق کی تلقین کی گئی ہے جن کا پورا کرنا احسان کے زمرے میں نہیں بلکہ فرض کے درجہ میں ہے۔
اس محبت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ” داعی اسلام” پیغمبر حضرت محمد ﷺ ” نے دعوت اسلام کی راہ میں پیش آنے والی تمام محنتوں ، زحمتوں ، تکلیفوں اورمصیبتوں کو خوش دلی سے جھیلتے ہوئے ہم سے ان کے بدلے اور صلہ میں صرف یہ مطالبہ کیا کہ ہم رشتہ داروں قرابت مندوں کا حق ادا کریں اور ان سے لطف ومحبت سے پیش آئیں۔
اللہ پاک فرماتےہیں :”قل لا اسئلکم عليه اجرا الا المودة فی القربٰی”(شورۃ : 23) اے پیغمبر کہ دیجیے میں تم سے اس (دعوت اسلام )کی کوئی مزدوری نہیں مانگتا ،سوائے اس کے کہ تم ناتے میں محبت اور پیارکرو۔
رشتہ دار دوطرح کے ہیں (1) محرم ،جن سے شرعا پردہ نہیں مثلا بھائی بہن اور ان کی اولاد ماموں خالائیں،پھوپھی وغیرہ ۔ایسے رشتیدار اگر فقرو فاقہ میں مبتلا ہوں تو بقدر کفالت ان کے نان ونفقہ کی ذمہ داری اولاد کی طرح واجب ہے۔(2)غیر محرم جن سے شرعا پردہ ہے ۔مثلا : ماموں زاد،خالہ زاد،چچازاد،پھوپھی زاد خالو،چچی بھابھی وغیرہ۔ان کے حقوق محارم کی بنسبت کم ہیں ۔اگر یہ نادار ہوں تو حسب استطاعت ان کی کفالت کردینی چاہیے واجب نہیں ہے۔کچھ حقوق میں دونوں طرح کے رشتہ دار شامل ہیں ۔جو ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں :
- ان سے ملتے جلتے ر ہنا ،گاہے بگاہے خیریت دریافت کرنا۔
- قطع تعلقی نہ کرنا۔
- کسی قسم کی تکلیف نہ دینا ،بلکہ ان کی تکالیف کو سہتے ہوئے ان سے اچھائی کرنا۔ذیل میں رشتہ داروں سے محبت والفت کا آپ ﷺ کی عملی زندگی سے ایک نمونہ پیش کیا جاتاہے:
اس سلسلہ میں ایک واقعہ آپ ﷺکے داماد حضرت ابوالعاص رضی اللہ تعالی عنہ کاگذر چکا ،کہ آپ نے رشتہ دار ی کی بنیاد پر ان کا فدیہ معاف کروادیا۔اس کے علاوہ جنگ بد ر کے دوسرے قیدی سب آپ ﷺکی قوم سے ہونے کی وجہ سے آپ کے قرابتداروں میں شمار ہوتےتھے ۔ان کی دشمنی کے باوجود بھی آپ ﷺ نےاپنی طرف سے حق قرابت اداکرتے ہوئے تمام قیدیوں سے حسن سلوک کی تلقین کی ،سب کو کپڑے پہنائے۔یہاں تک کہ اپنے چچاحضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی” کراہ”سن کے رات کو آرام نہ فرماسکے،صحابہ نے ان کی گرہ کھولی تو آپ ﷺ نے آرام فرمایا۔
فتح مکہ کے “دن” میں ہمارے لیے رشتہ داروں کے حقوق کے حوالے سے آپ ﷺ کا دائمی اسوۃ حسنہ ہے۔کہ آپ نے اپنے جانی دشمنوں کی عداوتوں مظالم بے رحمیوں اورنارواسلوک کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرمایا :”آج میں تم سے وہی بات کہتاہوں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی “لاتثریب علیکم الیوم” کہ تمہارے ظلم وجور کا انتقام لینا یا کوئی سزا دینا تو کیا ہم تو تم کو ملامت کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے”۔
بھائی بہن کی محبت :
تاہم رشتہ داروں میں سے بھائی بہن کے ایک دوسرے پر باقیوں کی بنسبت زیادہ حقوق ہیں ۔ علامہ بیہقی ؒ نے” شعب الایمان”(10/313، ناشر مکتبۃالرشد) میں اس حوالے سے آپ ﷺ کا فرمان نقل کیا ہے : “بڑے بھائی کے حقوق چھوٹے بھائیوں پر ایسے ہیں جیسے باپ کے حقو ق اس کی اولا دپر”۔تو والد کی عدم موجودگی میں بڑے بھائی پر لازم ہے کہ وہ چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش ایسے کرے جیسے باپ اپنی اولادکی۔ایسے ہی بڑی بہن کا چھوٹی بہنوں پر درجہ ہے۔
آج کل بعض کنواریں بہنیں شادی شدہ بھائیوں پر یہ اعتراض کرتی ہیں کہ: ” بھائی جان ہم میں اور بھابھی میں ادائیگی حقوق اور حسن معاشرت میں مساوات وبرابری نہیں کرتے” تو اس میں بہنیں حق بجانب نہیں ،اس لیے کہ شریعت نے میاں بیوی کے کچھ مخصوص احکام اورحقوق بیان کیے ہیں جن میں کوئی اور شریک نہیں۔ لہذا بھائی پر والد کی عدم موجدگی یا ان کے مفلس ونادار ہونے کی صورت میں، بہنوں کی ضروریات زندگی بجا لانا لازمی ہے ،بھابھی اور بہنوں میں مساوات واجب نہیں۔البتہ کوئی کردے تو بہت اچھاہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ رشتہ داروں کے حقوق ادانہ کرنے سے معاشرے میں بہت سی برائیاں جنم پاتی ہیں ،اور یہ محبتیں دشمنی کا روپ دھر لیتی ہیں ،اس لیے عرب میں ایک عام محاورہ ہے :”الاقارب کالعقارب”رشتہ دار بچھو کی مانند ہیں “کہ بچھو پانی میں ڈوب رہا ہو ،اگرکوئی رحم دل اسے بچانے کوشش کرے تو وہ الٹا اپنے محسن کو ڈستارہتاہے ۔لہذا رشتہ دار کے حقوق صرف اللہ کاحکم سمجھ کر اداکریں ،ان سے صلہ کی امید نہ رکھیں،اس کے باوجود وہ آپ سے براسلوک کریں تو ان سے عفو ودر گذر کرتے رہنا چاہیے کہیں یہ نہ ہو کہ آپ بھی اللہ کے ہاں فاسق وفاجر ہوجائیں۔
دوستوں کی محبت :
دین اسلام کامقصد صرف ایک ہی خاندان وقبیلہ کے افرادمیں پیارو محبت کو فروغ دینا ہی نہیں ،بلکہ تمام انسانیت میں اسے عام کرنا مقصود ہے،اسی بناپر یہ آفاقی دین ہے ۔ اسی کے پیش نظر محبت وحقوق کی بجاآوری کے دائرہ کار کو اہل وعیال اور اقرباء پر بند نہیں کیا گیا۔اس محبت کو عام رکھا گیا، معاشرے کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ اپنے مسلمان ساتھی کی تعظیم وتکریم بجالائے، اور اس سے محبت وہمدری کا اظہار کرے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ معاشرے کا ہر فرد دوسرے کی عزت کرے،اس کے حقوق کی رعایت کرے ؟۔اسے آپ ﷺ کی صحیح حدیث میں انتہائی مختصر الفاظ میں بیان کیاگیا ہے :”جو ہمارے چھوٹوں پر رحم(شفقت ،نرمی ،محبت اور پیار) نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے ،وہ ہم میں سے نہیں “۔(سنن ابی داود : 7/299/4943،ناشر : دار الرسالۃ العالمیۃ)
آپ ﷺ کے اس فرمان میں معاشرے کے ہر فرد کے دوسرے پر حقوق بیان کردیئے گئے ۔دوسری صحیح حدیث میں اس محبت کو یوں بیان کیا گیا:”(ہر)مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے(چاہے ان میں رشتہ داری نہ بھی ہو)اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا ،جب تک اس کی جائز حاجت پوری کرنے میں لگارہتا ہے اللہ پاک اس کی حاجت کو اپنی قدرت سے پوراکردیتے ہیں ۔اورجو اپنے مسلمان بھائی سے ایک مصیبت کو دور کرتا ہے، اس کے بدلے اللہ تعالی قیامت کے دن اس سے بہت سی مصیبتیں ٹال دیں گے ۔اورجو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرتا ہے اس کے بدلے اللہ جل شانہ قیامت کے دن اس کے گناہوں پر ،پردہ ڈالیں گے”۔(سنن ابی داود : 7/255/4893، ناشر : دارالرسالۃ العالمیۃ)
جب اس طرز پر انسان دوسرے انسان سے پیش آئے گا تو اس سے بعض لوگوں کے درمیان ایک خاص تعلق ومحبت وجود میں آئے گی،جسے دوستی سے تعبیر کیا جاتاہے ۔جو دنیا میں سب سے بڑی راحت کی چیز ہے ۔ دوست کے حقوق واحکام معاشرے کے عام فرد کی بنسبت کچھ زیادہ ہیں۔جو ذیل میں ذکر کیے جاتے ہیں :
- کسی سے دوستی کرنے سے پہلے اس کے دینی ودنیوی معاملات کو اچھی طرح پرکھا جائے ،اگر وہ عقائد ،اعمال اور اخلاق میں اچھا نکلے تو اس سے دوستانہ تعلقات اختیار کیے جائیں ،ورنہ اس کی صحبت سے بچاجائے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے برے دوستوں کی مذمت اور اچھے دوستوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :” قیامت کے دن بعض دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے ،سوائے متقین کے “۔(سورۃ الزخرف : 67)۔
- دوست کے لیے جان ومال کی قربانی سے دریغ نہ کرنا۔
- خلاف مزاج آپس میں کوئی بات پیش آجائے تو چشم پوشی کرنا۔
- اتفاقا ناچاقی ہوجائے تو فوراصلح وصفائی کرنا ،معاملے کو طول نہ دینا۔
- دوست کی خیر خواہی میں کسی طرح کوتاہی نہ کرنا۔اسے اچھے اچھے مشوروں سے نوازنا۔
میاں بیوی کی محبت :
دین اسلام میں “میاں بیوی” کے رشتہ کا انعقاد نکاح سے ہوتاہے ۔جو تمام رشتہ داریوں اور قرابتوں کی جڑ ہے۔یہ نہ ہوتا تو دنیا میں کوئی رشتہ پیدا نہ ہوسکتا۔یہ دنیا میں محبت والفت کا نقطہ آغاز ہے ۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا :” نکاح جیسے محبت کرنے والے دوجوڑوں کی طرح میں نے کسی کو نہیں دیکھا”(مصنف عبد الرزاق :6/168/10377،ناشر : المجلس العلمی الہند)اس لحاظ سے اس رشتہ کی اہمیت بہت بڑی ہے۔ہر اہمیت کی حامل چیز کی حفاظت کے اسباب بھی انتہائی محتاط ہوتے ہیں،تاکہ وہ ضائع نہ ہو۔میاں بیوی کی اس مثالی محبت کو تادم حیات باقی رکھنے کیلیے شریعت نے دونوں کے ذ مہ ایک دوسرے کے کچھ حقوق مقرر کیے ہیں ،جنہیں بجا لانے سے گھروں میں عیش وعشرت اور مسرت کا ساماں بندھارہنے سے گھرکا ماحول جنت نظیر ہوجاتاہے۔
اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں جتنے جذبات رکھے ہیں ان سب کو پوراکرنے کے لیے جائز طریقے کی رہنمائی بھی کی ہے ۔انہی جذبات میں سے ایک جذبہ محبت وانس اور جنسی تسکین کا حصول ہے ،جوہرمرد وعورت کا خاصہ ہے۔اس کے حصول کے لیے اللہ تعالی نے انسان کو جائز ذریعہ (نکاح )کی راہ بھی دکھادی۔اب جو شخص مغرب کی ڈگرپر چلتے ہوئے اس فطری جذبہ کو ناجائز طریقے سے پوراکرے گاتو معاشرہ ان برائیوں کی آماجگاہ بن جائے گا،جس سے آج اہل مغرب دو چارہیں۔اس لیے آپ ﷺ کے فرمان کامفہوم ہے کہ :”میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں ،جس نے میرے طریقے سے رو گردانی کی وہ مجھ سے نہیں”۔(بخاری : 5/1949/4776،ناشر : دار ابن کثیر) اس کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اسے اپنی نشانی کہا ہے :”اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو ،اور تمہارے درمیان محبت وپیار اور الفت کو پیدا کردیا۔بے شک اس میں سوچنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں “۔
قرآن کریم میں اللہ پاک نے نکاح کےفلسفہ کو ایک بلیغ تشبیہ میں بیان کیا : “هن لباس لكم وأنتم لباس لهن”بیویاں تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو”۔(سورۃ بقرۃ : 187) نکاح کے ذریعہ قائم ہونے والے تعلق کو اللہ پاک نےلباس سے تشبیہ دی جس میں بیسیوں حکمتیں اورمعنی پوشیدہ ہیں۔مختصر یہ کہ بیویاں تمہاری ستر پوش ،تم ان کے لیے ستر پوش، تم ان کی زینت وہ تمہاری زینت ، تم ان کی خوبصورتی ہو وہ تمہاری خوبصورتی ، تم ان کی معاشرتی تکمیل کا ذریعہ ہو وہ تمہاری معاشرتی تکمیل کا۔ ذیل میں میاں بیوی کے چند حقوق ذکر کیے جاتےہیں :
مثالی شوہر کے ذمہ حقوق اور اس کے اوصاف :
قرآن کریم میں نکاح کی اخلاقی غرض عفت وپاکدامنی بیان کی گئی ہے نہ کہ شہوت رانی (سورۃ مائدہ :24)۔یہ پاکدامنی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تب ہی ہوسکتی ہے جب یہ رشتہ بھی دائمی ہو۔اس لیے شریعت نے میاں بیوی کے ایک دوسرے پر علیحدہ علیحدہ حقوق بیان کردیے جن کے اداکرنے سے تا دم حیات محبت بڑھتی رہتی ہے۔ پہلےایک مثالی شوہرکےذمہ حقوق اور اس کے اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں :
- مثالی شوہر وہ ہے جو بیوی ایسے پیش آئے کہ وہ اس کے گن گائے ،اپنی ہر محفل کو شوہر کی اچھی اوصاف سے معطرکردے۔ایک مشہور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا : ” خيركم خيركم لأهله، وقال أيضا : خياركم خياركم لنسائهم” تم میں سب سے بہتروہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے بہتر ہیں ۔
اس حدیث میں آپ ﷺ نے انسان کے بہتر اور اچھے ہونے کا معیار وآئینہ بتلادیا ، جس میں ہر شخص اپنا چہرہ دیکھ کر اپنا تجزیہ کرسکتاہے کہ وہ اخلاق کے کس درجہ پر فائز ہے۔لہذا جو اپنوں کے ساتھ انصاف واحسان نہیں کرسکتا وہ دوسروں کے ساتھ کیوں کر کرسکتاہے۔
- اپنی وسعت کے مطابق بیوی پر فراوانی سے خرچ کرنا۔(سورۃ طلاق : 7)
- جہاں خود رہائش پذیر ہے وہاں بیگم کو رہائش دینا۔(سورۃ طلاق : 7)
- بیوی کی اچھی تربیت کرتے رہناکہ اسے دینی مسائل سکھلائے اور نیکی کی ترغیب دیتا رہے۔
- حدیث میں آپ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ : ” عورت پسلی کی طرح ٹیڑھی ہے ،اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ بیٹھو گے ،ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ٹیڑھا پن رہتے ہوئے اس سے نفع اٹھا تے رہو”(بخاری : 5/1987/4889 ، ناشر : دار ابن کثیر)اس حدیث کے پیش نظر بیوی کی کم فہمیوں اور کج روی کی اصلاح کے لیے شوہر کو انتہائی محتاط طریقہ اختیار کرنا چاہیے ،موقع محل کی مناسبت سے کبھی سختی کرے توکبھی نرمی ۔
- شوہر اور بیوی پر لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مزاج شناس ہوں۔کیونکہ قرآن کریم میں میاں بیوی کے تعلق کو لباس سے تشبیہ دی گئی ہے ۔لباس سے انسان اچھی طرح تب ہی نفع حاصل کرسکتا ہے جب اس کی کوالٹی سے اور سلائی ، دھلائی ،خشک کرنے ،اور استری کرکے زیب تن کرنے کے طریقہ کار سے واقف ہو۔ایسےمیاں بیوی ایک دوسرے سے دنیا میں تب ہی لطف اندوز ہوسکتے ہیں جب وہ شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی ایک دوسرے کے مزاج شناس ہو کرتادم حیات ایک دوسرے کے مزاج کی رعایت کرنے کی حامی بھرلیں۔اس سے پورے گھر کا ماحول جنت کا منظر پیش کرنے لگے گا۔
- شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کی دلجوئی ورضامندی کے لیے ہر وہ کام کرے جس میں شرعا کوئی حرج نہ ہو۔
- بیوی کے لیے اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئےدن یارات میں کوئی وقت مخصوص کرلے،چاہے وہ آدھا گھنٹہ ہی کیوں نہ ہو ۔اس میں اس سے اپنے معاملات کے بارے مشورہ لے ، اگر اس کی کوئی شکایات ہوں ان کو دور کرے ،اس کے رشتہ داروں کی خیر خبر لے۔ حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو فرمایا:”تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے”(بخاری : 2/679/1874 ، ناشر : دار ابن کثیر)
- بیوی کے سامنے اور بسااوقات بھرے مجمع میں اس کی محبت کااظہار واقرار کرے۔یہی آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ ﷺ سے بھر ے مجمع میں سوال کیا :”سب سے زیادہ آپ کو کس سے محبت ہے ؟آپ نے فرمایا : اپنی بیوی عائشہ کے ساتھ”۔(بخاری : 3/1339/3462 ، ناشر : دار ابن کثیر)
معلوم ہواکہ بیوی کی بات ماننااور اس سے محبت کا اظہار کرنا زن مرید ی کے زمرے میں نہیں آتا۔آج ہمارےمعاشرے میں یہ برائی بہت عام ہوچکی ہے۔اگر کوئی دیندار لڑکا آپ ﷺ کی اس سنت کو زندہ کرتا ہے تو گھر والے مثلا : ماں باپ ، بھائی اور بہنیں اسے زن مریدی کے طعنے دے کر جینے کے قابل نہیں رہنے دیتے ۔جس کالازمی نتیجہ دو میں سے ایک ہوتاہے ۔لڑکا یاتوبیوی کی دل جوئی کے لیے والدین اور بہن بھائیوں سے علیحدگی اختیار کرلیتاہے ،یا والدین وغیرہ کی دل جوئی کےلیے بیوی کو طلاق دے دیتاہے۔دونوں صورتوں میں لڑکاساری زندگی کےلیے خوشیوں سے محروم ہوجاتاہے۔اس لیے اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ لڑکے کو چاہیے والدین اور بہن بھائیوں کے حقوق پورے کرے ۔اور گھر والوں کو چاہیے کہ وہ اسےبیوی کے معاملے میں آزادی دے دیں ۔میاں بیوی کے معاملات میں دخل انداز نہ ہوں۔
- قرآن کریم میں اللہ تعالی نےعورتوں اور بیویوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا : ” ان کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے مردوں کو ان پر حاصل ہیں ۔ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے”۔(سورۃ بقرۃ : 228)
یہ دین اسلام ہی کی وسعت ہے کہ اس نے جاہلیت کے معاشرےمیں سب سے گھٹیاسمجھی جانے والی مخلوق (عورت )کو اتنی قدر ومنزلت دی کہ اسے قانونا مردوں کے دو ش بدوش لا کھڑا کیا ۔آپس کے قانونی حقوق میں دونوں کو برابرحصہ عطا کردیا۔البتہ اخلاقا رتبہ میں مردوں کو تھوڑی سی اعزازی برتری دی گئی ۔تاکہ وہ اپنی بیویوں کی نگرانی اور نگہبانی کا فریضہ انجام دے سکیں ۔گویا مرد اپنی گھریلو عدالت کے اعزازی صدر بنائے گئے ہیں ۔
مثالی بیوی کے ذمہ حقوق اور اس کی اوصاف :
- شوہر کی ہر کام میں فرمانبردار ی کرے ۔ہاں یہ کہ خاوند شریعت کے خلاف کوئی کام کرنے کو کہے تو انکار کردے۔
- اس کے مال ودولت کی خوب نگرانی کرکے اپنے سلیقہ مند ہونے کا ثبوت دے۔
- اس کی غیر موجودگی میں اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کرے،کہ اس کے بستر کو کسی سے پامال نہ کرائے، اس لیے کہ اس کی آبرو اب حقیقت میں شوہر ہی کی آبرو ہے۔
- اس کی گنجائش سے زیادہ اس سے فرمائش نہ کرے۔
- اس کا مال بغیر اجازت خرچ نہ کرے۔
- اس کے رشتہ داروں سے سختی سے پیش نہ آئے۔
- اس کے ماں باپ کو اپنا مخدوم سمجھ کران سےادب وتعظیم سے پیش آئے۔
- انتظام ِخانہ داری خاوند کی منشاءومزاج کے مطابق بجا لائے۔مثلا کھانے پینے اور اولاد کی نگہداشت وغیرہ میں خاوند کی رائے کو ترجیح دینا۔
- خاوند سے محبت کا اظہار کرنا ،اس کے لیے زیب وزینت اختیار کرنا۔تاکہ وہ باہر کی مصروفیات سے فارغ ہوکر راحت وسکون حاصل کرسکے۔
- خاوند جس کو پسند نہیں کرتا اسے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں ،اور نہ خود اس سے ملیں ۔