سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میرا مچھلی کا کاروبار ہے مچھلی خرید کر پکا کر بیچتا ہوں ۔اس میں ایک مگرا نامی مچھلی بھی آتی ہے ۔ جو کہ انڈے نہیں دیتی بلکہ بچے دیتی ہے آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا مچھلی کی یہ قسم حلال ہے یا نہیں ؟ مکمل تفصیل سے جواب سے مطلع فرمائیں ۔
الجواب حامداومصلیاً
واضح رہےکہ امام ابو حنیفہ ؒ کے ہاں سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی حلال ہے ۔
احکام القرآن جصاص میں ہے :
الاولیٰ: قولہ تعالیٰ : (أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ ) ھذا حکم بتحلیل صید البحر وھو کل ماصید من حیتانہ ۔
الثالثۃ : قال ابو حنیفۃ :۔۔۔۔لایؤکل شئی من حیوان البحر الالسمک وھو قول الثوری فی روایۃ ابی اسحاق الفزاری عنہ ۔ ( 3/670) سورۃالمائدۃ آیت 96 ط :قدیمی )
الدرمع الردمیں ہے :
(ولا)یحل ( حیوان مائی الاالسمک ) الذی مات بآفۃ ولو متولدا فی ماء نجس۔۔۔۔۔( غیر الطافی و(الا الجریث ) سمک اسود ( والمارماھی ) سمک فی صورۃ الحیۃ ، (قولہ ولو متولدا فی ماء نجس ) فلا باس باکلھا للحال لحلہ بالنص۔
(6/306۔307 کتاب الذبائح ط : سعید )
بدائع الصنائع میں ہے :
اما الذی یعیش فی البحر فجمیع مافی البحر من الحیوان محرم الاکل الاالسمک خاصۃ فانہ یحل اکلہ الا ماطفامنہ وھو قول اصحابنا ۔رضی اللہ تعالیٰ عنھم۔ ( 5/35 کتابالذبائح والصیود ط :سعید)
پس سمندری مخلوقات میں سے صرف مچھلی حلال ہے ۔اور مچھلی کی انواع واقسام میں مچھلی کے ماہرین کی رائے معتبر ہے کہ وہ مچھلی ہے یا نہیں ۔
اہل انسان اورا ہل لغت کے بعد آخری رائے ماہرین ہی دے سکتے ہیں ۔
اور مچھلی کے بارے میں مہارت ساحل سمندر پر رہنے والوں کو ہوتی ہے جن کے اکثر اوقات اسی میں گزرتے ہیں۔وہ ماہر ہوتے ہیں لہذا ان کی رائے اور عرف معتبر ہوگا جو علماء اس بارے میں واقف ہیں انہیں اہل لسان اور پھر اہل عرف کی طرف رجوع کرنا ہوگا ۔
لہذا صورت مسئولہ میں “شارک ” جس کو عامی زبان میں ” مگرا” کہتے ہیں اور عربی زبان میں اس کو قرش “اور ” کوسج ” کہا جاتا ہے ۔اہل لغت اور اہل لسان نےا س ( شارک مگرا ) کو مچھلی کی قسم میں سے شمار نہیں کیا۔لہذا “شارک ” مگرا کا کھانا اور کاروبار کرنا ناجائز اور حرام ہے ۔
تفسیر روح المعانی میں ہے :
وھو فی الاصل تصغیر قرش بفتح القاف اسم لدابۃ فی البحر ا قوی دوایہ تاکل ولا تؤکل وتعلم ولا تعلی وبذلک اجاب ابن عباس معاویۃ لما سالہ لم سمیت قریش قیشاً؟ وتلک الدابۃ تسمی قرشا کما ھو المذکور فی کلام الحبر وتسمی قریشا۔ ( 15/471 سورۃ قریش ط دارالکتب العلمیۃ )
مجموعہ فتاویٰ مولانا عبدالحیٰ الکھنوی ؒ میں ہے :
اسی طرح ” کوسج ” اور قرش بھی مچھلیاں نہیں ۔ کیونکہ یہ امام شافعیؒ کے نزدیک مختلف فیہ ہیں حالانکہ وہ تمام بحری جانوروں کے کھانے کو جائز لکھتے ہیں ۔پھر وہ ہمارے نزدیک کس طرح جائز ہوسکتے ہیں اورا س لیے کہ ان میں مچھلیوں کی مندرجہ بالا عمارتوں میں سے کوئی علامت نہیں پائی جاتی ۔مفتی فصیح الدین اپنے رسالہ “احکام الحیوان ” میں لکھتے ہیں کہ ” قرش ایک بڑ اجانور ہے اس کو سیدالدواب کہتے ہیں ۔
اورقریش لقب اسی سے ماخوذ ہے ۔ا ورسواحل بلاد مغرب میں اس کو اثرار موری کہتے ہیں ۔وہ امام صاحب کے نزدیک حرام ہے اور ائمہ ثلاث کے نزدیک حلال ” اور محمودشاہ ؒ اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں ۔
“السمک مالہ شق وشوک “
مچھلی وہ ہے کس کی دم کے دو ٹکڑے ہوں اور جس میں کانٹے ہوں اوراسی میں ہے ۔
“والسمک مالہ فلوس وما یبض فی الماء ومالہ شقاق و یکون مولدہ ومعایشہ فی الماء ولیس لہ لسان “
اصلا مچھلی وہ ہے جس کے سفتے ہوں اور جو پانی میں سفید دکھائی دے اور جس کی دم کے دو ٹکڑوں ہوں۔اور اس کی پیدائش اور زندگی پانی میں ہو۔اور جس کی زبان نہ ہو”۔
اس سے معلوم ہوا کہ مچھلی کی سب سے مشہور علامت سفنے ہیں ۔
قرش اور کوسج کے اوپر سفنے نہیں ہوتے اور ان کی دم پھٹی نہیں ہوتی اور ان میں کانٹے نہیں ہوتے ۔اور انسان کے جسم کو تیز تلوار کی طرح کاٹ دیتے ہیں ۔ ( مجموعہ فتاویٰ ۔22/229 ط : سعید کراچی )
شارک اور مگرا کے حرام ہونے کی ایک مستقل وجہ ” مگرا ” کا ” درندہ ” ہونا بھی ہے اس لیے کہ درندہ جانور حرام ہوتے ہیں ۔
الرائد میں ہے :
ج ۔قروش
1۔الغرش
2۔حیوان بحری یعرق “کلب البحر ” یقطع باسنانہ یخافہ الانسان والسمک ۔ ( ج :2 ص:1161 )
ابو داؤد شریف میں ہے :
عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الخُشَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السَّبُعِ (2/172 ط : رحمانیہ ۔لاہور )
فتاوی شامی میں ہے :
( ولایحل ذوناب یصید بنابہ او مخلب یصید ۔۔۔۔۔الخ (کتاب الذبائح ط :سعید کراچی )
مگرا اورشارک سے متعلق ہماری اس تحقیق پر یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ علامہ دمیری ؒ نے حیات الحیوان میں شارک ( مگرا ) کو مچھلی کی قسم قراردے کر حلال کہا ہے وہ فرماتے ہیں :
واطلاق المجھور ونص الامام الشافعی والقرآن العزیز یدل علی جوا ز اکل القرش لانہ من السمک ومما لا یعش الا فی الماء۔ “
(یہ بنوری ٹاؤن کی سابقہ تحقیق ہے. دارالعلوم کراچی، دارالعلوم دیوبند اور مفتی ابراہیم دیسائی صاحب کا فتوی حلال ہونے کا ہے. پتا چلا ہے کہ بنوری ٹاؤن دوبارہ اس مسئلے پر تحقیق کررہا ہے.)