حضرت نوح علیہ السلام
پہلے رسول :۔حضرت آدم ؒ کے بعد یہ پہلے نبی ہیں جن کو “رسالت ” سے نوازا گیا۔
قوم نوح ؒ:۔ حضرت نوح ؒ کی بعثت سے پہلے تمام قوم خدا کی توحید سے ناآشنا ہوچکی تھی اور اللہ کے بجائے خود ساختہ بتوں کی پرستش کرتی تھی ۔ان کے کے مشہور ترین بتوں میں ود،سواع ،یغوث ،یعوق،اور نسر ہیں ۔ یہ دراصل نوح ؒ کی قوم کے گزرے ہوئے نیک لوگوں کےنام ہیں۔ان کےفوت ہونے کے بعد شیطان کےبہکاوے میں آکر عقیدت مندوں نے ان کی تصاویر بناکر گھروں اوردکانوں پرآویزاں کر لی تاکہ ان کی یاد تازہ کرسکیں ۔جب یہ لوگ دنیا سے چلے گئے تو شیطان نے ان کی اگلی نسلوں کو شرک میں ملوث کردیا اوروہ اپنے باپ دادا کی بنائی ہوئی تصاویر کوپوجنے لگے ۔
وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ﴿٢٣) سورۃ النوح
اور کہا انہوں نے کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو (چھوڑنا)۔
قوم کی نافرمانی :
قَالُوا يَا نُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ﴿٣٢﴾سورۃ ہود
(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحث کر لی اور خوب بحث کر لی۔ اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ اگر تو سچوں میں ہے۔
نوح ؑ اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک دین کی دعوت دیتے رہے مگر ایمان والوں کی تعداد نہ بڑھی وہ کہتے ۔” آپ تو ہم جیسے انسان ہیں ۔ آپ کس طرح پیغمبر ہوسکتے ہیں اور جب غرباء اور مساکین کو آپ کا پیروکار دیکھتے تو مذاق اڑاتے ۔
آخر نوح ؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اے اللہ اس زمین کو شرک کی گندگی سے پاک کردے ۔
وَقَالَ نُوحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴿٢٦﴾
اور (حضرت) نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے پالنے والے! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والانہ چھوڑ۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاقبول فرمائی اور جواب دیا کہ ایک بڑی کشتی بناؤ۔ دن رات کشتی بنانے لگے ۔ پاس سے گزرنے والے سرداران کا خوب مذاق اڑاتے مگر نوح ؑ انہیں نظر انداز کردیتے ۔
وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ ﴿٣٧﴾سورہ ہود
اورایک کشتی ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے تیار کر اورظالموں کے بارے میں ہم سے کوئی بات چیت نہ کر وه پانی میں ڈبو دیئے جانے والے ہیں۔
آخر جہاز تیار ہوگیا اوراللہ کے حکم کے مطابق ہر جاندار کا ایک جوڑا اس میں رکھاگیا تا کہ ان کی نسل دنیا میں قائم رہ سکے ۔
عذاب کا دن :۔ آخر عذاب کا دن آپہنچا ۔ آسمان سے موسلا دھار بارش شروع ہوئی اور چشمے پھوٹ پڑے ۔ نوح ؑ نے اہل ایمان کو کشتی میں سوار ہونے کا حکم دیا ۔ پھر ایسا زور دار سیلاب آیا کہ جس کی کوئی مثال نہ ملی ۔ تمام نافرمان ڈوب گئے ۔ہلاک ہونے والوں میں نوح ؑ کا بیٹا اور بیوی بھی شامل تھے کیونکہ یہ کافر تھے۔کئی دنوں کے بعد پانی اترنے لگا۔حضرت نوح ؑ کا جہاز جودی پہاڑ سے جاٹکڑایا ۔
وَقِيلَ يَا أَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيَا سَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِيِّ ۖ وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٤٤﴾ سورہ ہود
فرما دیا گیا کہ اے زمین اپنے پانی کو نگل جا اور اے آسمان بس کر تھم جا، اسی وقت پانی سکھا دیا گیا اور کام پورا کر دیا گیا اور کشتی جودی نامی پہاڑ پر جا لگی اور فرما دیا گیا کہ ظالم لوگوں پر لعنت نازل ہو۔
اللہ تعالیٰ نے نوح ؑ اور ان کے پیروکاروں کو بچا کر انہی سے آدم ؑ کی نسل کوآگے بڑھایا ۔
طوفان نوح ؑ تمام کرہ ارض پہ آیا تھا یا خاص خطہ پر ؟
قدیم ماہرین فلکیات کے مطابق یہ طوفان تمام کرہ ارض پر نہیں آیا تھا ایک خاص خطہ تک محدود تھا اور بعض کے نزدیک یہ تمام کرہ ارض پر حاوی تھا ۔زمین پر ایسے متعدد طوفان آئے جن میں سے یہ ایک تھا ۔کیونکہ عرب ( جہاں قوم نوح آباد تھی ) کی اس سرزمین کے علاوہ بلند پہاڑوں پر بھی ایسے حیوانات کے ڈھانچے اور ہڈیا ں بکثرت پائی گئی ہیں جن سے مطابق علم طبقات الارض یہ کہتے ہیں کہ یہ صرف پانی میں ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ ان تما م نظریات کو دیکھتے ہوئے اہل تحقیق کی یہ رائے ہے کہ طوفان تمام کرہ ارض پرآیا تھا ۔
جودی پہاڑ :۔ مشرقی ترکی میں واقع جودی پہاڑ کی چوٹی برف سے ڈھکی ہوتی ہے ۔ سرحد آرمینیہ کے قریب 300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
نوح ؑ کی کشتی :۔ نوح ؑ کی کشتی جودی پہاڑ پہ آکر ٹھہرگئی تھی ۔1977 میں ترکی کے پہاڑ پر کچھ مہم جو نے اس نے کشتی کو دریافت کیا۔اخبارات میں اس کی تصاویرشائع ہوئیں نام نہاد یہودیوں،عیسائیوں اور کئی فرقوں نے اعتراضات اٹھائے مگر قرآن میں ان کے نام تمام اعتراضات کا جواب موجود ہے۔
پہلا اعتراض :۔ بغیر کسی ٹیکنالوجی کے چھ ہزار سال قبل ایسی عظیم الشان کشتی بنانا ہوا۔ جو اتنا وزن اٹھا کر لمبے عرصے تک سمندر میں سفر کرتی رہی ۔
جواب: وَحَمَلْنَاهُ عَلَىٰ ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ ﴿١٣﴾
اور ہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی (کشتی) پر سوار کر لیا۔
تحقیق کے بعد اس کشتی سے دھاتی کیلوں اور تختوں کے آثار ملے ہیں۔
دوسرا اعتراض :۔ایک کشتی میں دنیا بھر کے جانوروں کے جوڑے کیسے سوار ہوئے ۔
جواب :حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿٤٠﴾
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگا ہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے (جانداروں میں سے) جوڑے (یعنی) دو (جانور، ایک نر اور ایک ماده) سوار کرا لے اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی، سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑ چکی ہے اور سب ایمان والوں کو بھی، اس کے ساتھ ایمان ﻻنے والے بہت ہی کم تھے
تیسرا اعتراض : طوفان میں بغیر لنگر کے کیسے تیرتی سکتی ہے ؟
جواب : وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٤١﴾ سورہ ہود
نوح ﴿علیہ السلام﴾ نے کہا اس کشتی میں بیٹھ جاؤ اللہ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے، یقیناً میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم والا ہے۔
حیرت انگیز طور پر جس پہاڑ پہ کشتی ٹہری ہے اس کی نیچے وادی میں چٹانوں کے نیچے بڑے بڑے لنگر دریافت ہوئے ہیں وہ اسی کشتی کے لنگر ہیں۔
چوتھا اعتراض :۔ ایک لکڑی کی کشتی اتنے لمبے عرصے تک ایک پہاڑ کی چوٹی پر کیسے باقی رہی ؟
جواب :۔ وَلَقَد تَّرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴿١٥﴾
اور ہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی (کشتی) پر سوار کر لیا۔
حالیہ تحقیق سے پتا چلتا ہے اس پورے پہاڑی سلسلے میں صرف اس پہاڑ کی چوٹی پر برف ہے جہاں یہ کشتی ہے برف کی وجہ سے یہ کشتی محفوظ رہی ۔
اعتراض کرنے والوں کیا تم اب بھی قرآن کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار کرتے ہو؟ ان کھلی حقیقتوں اور عبرت کے نشانات پر غور کرواور تعصب کی فضا کو ختم کر کے دین اسلام میں داخل ہوجاؤ بے شک یہ سچا دین ہے۔