انبیائے کرام علیہم السلام،صحابہ تابعین تبع تابعین اور اولیائے کرام کےاستعمال میں رہنے والی اشیا کو آثارمتبرکہ کہتے ہیں جیسے: آپ کے موئے مبارک (بال) کرتا ،جوتے، انگوٹھی، عصا، تلوار، عمامہ، خطوط وغیرہ
آثارمتبرکہ کاحکم:
اگرثابت ہوجائے کہ انبیاء، صحابہ یا صالحین کے زیراستعمال اشیااصلی ہیں تو ان کی تعظیم کرنا (بوسہ دینا، سرپررکھنا)ان سے برکت حاصل کرنااور ان کی حفاظت کرنا جائزہی نہیں، ایمان کی علامت بھی ہے۔متعددصحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت ہے کہ انھوں نے ان سے حصول برکت کیا۔قرآن کریم میں تابوت سکینہ کاذکرآیاہے یہ تابوت بنی اسرائیل کے لیے برکت اور فتح وظفر کاباعث ہواکرتاتھا،اس کاراز درحقیقت انبیائےکرام کے وہ تبرکات تھےجواس تابوت میں موجود ہیں۔
یہ تواصلی آثارمتبرکہ کاحکم تھالیکن اگریہ تبرکات اصلی نہ ہوں بلکہ ان کانقشہ یاتصویر ہوں( جیسے:نعلین شریفین وغیرہ کی تصویر) تواس کا حکم یہ ہے کہ گو”اصل آثارمتبرکہ” والےاحکام تو مکمل اس پرلاگو نہ ہوں گےلیکن نسبت ان کی اونچی ہستیوں سے ہےاس لیے اس نسبت کی وجہ سے ان کے ساتھ محبت اورادب واحترام کا معاملہ کرناجائزہے۔
یہ ہے اس مسئلے کی اصل حقیقت! لیکن یہاں اس کو ایک اور پہلو سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ آثار متبرکہ کے ساتھ محبت کا یہ معاملہ جائزحدود توڑتاہواکہیں شرک اور غلوکی حدود میں داخل نہ ہوجائے ، اس لیے غلواورشرک کے سدباب کےلیےمناسب یہی ہے کہ عوام میں ان نقشوں کی زیادہ تشہیر نہ کی جائے ہاں! کوئی شخص حدود میں رہتے ہوئے ان کا ادب واحترام کرے تو اس پرملامت بھی درست نہیں۔