ایک طرف فیوچر ٹریڈنگ اتنی عام ہوچکی ہے کہ شاید ہی کوئی بازار اس سے خالی ہو۔ اکثر ممالک میں اس کے لیے الگ مارکیٹیں قائم ہیں اور دوسری طرف شریعت میں اس کے لیے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔ اس کے بے شمار نقصانات اور مفاسد کی وجہ سے اسلامی تعلیمات میں اسے قطعاً ناجائز قرار دیاگیا۔
پچھلے مضمون میں فیوچر ٹریڈنگ کے ناجائز ہونے کی دو بڑی وجوہات بیان کی گئی تھیں۔ اس قسط میں اس میں موجود مزید دو بڑے شرعی مفاسد اختصار کے ساتھ سپرد قلم کیے جاتے ہیں :
- قبضہ کرنے سے پہلے خرید وفروخت
- فیوچر ٹریڈنگ میں ایک بڑی شرعی خرابی یہ ہے کہ اس میں ایسی چیز کو آگے فروخت کیاجاتاہے جو مالک کے قبضے میں موجود نہیں ہوتی ۔ فیوچر ٹریڈنگ میں یہ خرابی صرف ایک جگہ نہیں بلکہ بار بار اور تسلسل کے ساتھ آتی رہتی ہے ۔ کیونکہ سب سے پہلا فروخت کنندہ (Seller ) نہ سامان کا مالک ہوتا ہے اور نہ وہ اس کے قبضے (Possession ) میں ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود وہ اسے مستقبل کی کسی تاریخ کے لیے کسی تاریخ کے لیے کسی کو فروخت کردیتا ہے ۔ چیز کو خریدنے والا بھی اس پر قبضہ کیے بغیر اسے کسی اور کو فروخت کردیتا ہے ۔ چیز کو خریدنے والا بھی اس پر قبضہ کیے بغیر اسے کسی اور کو فروخت کردیتا ہے اور وہ کسی اور کو۔ چنانچہ مقررہ تاریخ آنے تک بے شمار لوگ درمیان میں بائع اور مشتری (Buyer and Seller ) بن چکے ہیں لیکن سامان ا ن میں سے کسی نے دیکھا تک نہیں ہوتا ۔ چہ جائیکہ اس پر کسی نے قبضہ کیا ہو۔
شرعی حکم
جو چیز آپ کے کے قبضے میں موجود نہ ہو اسے آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے آپﷺ نے فرمایا کہ سامان پر قبضہ کیے بغیر اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے (سنن نسائی :2/232 المیزان کتب خانہ )
2 ) سامان اور قیمت دونوں کا ادھار معاملہ
فیوچر ٹریڈنگ میں ایک بڑی شرعی خرابی یہ ہے کہ اس میں سامان اور اس کی قیمت دونوں ادھار میں ہوتے ہیں کیونکہ سامان خریدار کو فوراً نہیں ملتا بلکہ مستقبل کی تاریخ کے آنے کے بعد ملتا ہے ۔ ( نوٹ : یہ بھی تب ہوتا ہے جبکہ وہ لینا بھی چاہے ورنہ فیوچر ٹریڈنگ میں 99 فیصد لوگ سامان لیتے ہی نہیں بس معاملہ ختم ہونے کے بعد سارے ایک ساتھ بیٹھ کر آپس میں فرق برابر کر لیتے ہیں ) اسی طرح خریدار اس چیز کی قیمت ابھی نہیں دیتا بلکہ مستقبل کی تاریخ کے آنے کے بعد دیتا ہے ۔
شرعی حکم
یہ معاملہ دونوں طرف سے ادھار پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے ۔ اسےشریعت میں بیع الکالی بالکالی کہتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ۔ ( مشکوۃ :248)
خلاصہ یہ کہ ان چار بڑی وجوہات ( گزشتہ اور اس مضمون میں ذکر کردہ ) کی بنا پر فیوچر ٹریڈنگ پر تمام سودے ناجائز اور حرام ہیں ۔ جن سے بچنا ایک مسلمان تاجر ہونے کے ناطے ہمارا بنیادی فرض بنتا ہے ۔