فتویٰ نمبر:704
سوال: اگر عورت کا شوہر گم ہوا کافی سال گزرے ہو اورزندہ یا ہلاک کا نہ پتا ہوتو وہ عورت نکاح کرسکتے ہے یا نہیں؟
الجواب حامدا ومصلیا
مفقود الخبر (غائب) شوہر کا حکم
جس عورت کا شوہر اس طرح لاپتہ ہو کہ اس کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی علم نہ ہو اور بیوی کے خرچ اور گزر بسر کا انتظام نہ ہوسکتا ہو یا بدون شوہر بیٹھے رہنے سے ابتلائے معصیت کا قوی اندیشہ ہوتو وہ عدالت سے مرافعہ کرے اور بینہ شرعیہ سے اس غائب سے اپنا نکاح ثابت کرے اور پھر شہادت کےذریعہ اس کا غائب ہونا ثابت کرے،بعد ازیں عدالت خود تحقیق وتفتیش کرے اور جب تلاش سے مایوسی ہوجائے تو عورت چار سال انتظار کا حکم کرے،مدت مذکورہ میں بھی اگر غائب کا پتہ نہ چلے تو اختتام مدت کے بعد اسے مردہ متصور کیا جائے گا اور عورت عدت وفات گزارنے کے بعد نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
چار سال انتظار کی ابتدا اس وقت سے ہوگی جب عدالت کو غائب کے شخص کے انتظار سے مایوسی ہوجائے۔
بہتر ہے کہ چار سال گرزنے کے بعد عدالت سے مفقود کا حکم بالموت حاصل کرلیا جائے۔
اگر عورت کے نفقہ کا انتظام نہ ہو اور کوئی کفالت کرنے والا بھی نہ ہو اور عورت خود بھی محنت ومشقت کے ساتھ عفت وعصمت کی زندگی گزارنے کے قابل نہ ہو تو ایک ماہ صبر وانتظار کے بعد تنسیخ نکاح کے دعوی دائر کرسکتی ہے۔تفصیل کے حیلہ ناجزہ ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
غائب شوہر کا واپس آنا اور بیوی کا دوسری جگہ نکاح ہوجانے اور طلاق کا مسئلہ
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور مالکیہ و شوافع کے راجح مذہب کے مطابق اگر مفقود مردہ قرار دئے جانے کے بعد بھی واپس آجائے تو اس کی بیوی اسی کو ملے گی ہر حالت میں ۔خواہ عدت وفات کے اندر آئے یا عدت کے بعد خواہ دوسرا نکاح ہونے اور خلوت اور ہمبستری کے بعد آئے یا پہلے ۔ جیسا کہ حضرت شمس الائمہ رحمہ اللہ نے مبسوط میں وضاحت کی اور فرمایا۔
وقد صح رجوعہ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ الی قول علی رضی اللہ عنہ ۔ فانہ ای علی رضی اللہ عنہ کان یقول ترد زوجھا الاول ویفرق بینھا وبین الاخر ولھا المھر بھا استحل من فرجھا ولا یقر بھا الاول حتی تنقض عدتھا ومن الاخر وبھذا کان یاخذ ابراھیم فیقول قول علی رض احب الی من قول عمر رض وبہ ناخذ ۔۔
“وفی المیزان الشعرانی ص 124 ج2 ومن ذالک قول ابی حنیفۃ ان المفقود اذا قدم بعد ان تزوجت زوجۃ بعد مدۃ التربص ویبطل العقد وھی الاول وان کان الثانی وطھا فعلیہ مھرا المثل وتعتد الثانی ثم ترد الی الاول ۔۔۔۔
مزید احکام
٭ پہلے شوہر سے پہلا نکاح قائم رہا دوسرا نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اگرچہ دوسرے شوہر سے وطی ہو چکی ہو۔
٭ جب دوسرے نکاح کی ضرورت نہیں تو نیا مھر مقرر کرنے کی بھی ضرورت نہیں
٭ دوسرے شوہر کی عدت گزارنا واجب ہے(عدت طلاق) ۔ جب تک عدت ختم نا ہو اس وقت تک پہلے شوہر کو اس کے پاس جانا ہرگز جائز نہیں ۔اور یہ عدت پہلے شوہر کے گھر گزارے گی ۔
٭ اگر دوسرے شوہر سے خلوت صحیحہ ہو چکی ہو تو پورا مہر جو بوقت نکاح مقرر کیا گیا تھا ادا کرنا واجب ہو چکا۔
٭ اولاد کا نسب دوسرے خاوند سے ثابت ہوگا۔
٭ پہلے شوہر کو اختیار ہے کہ وہ اپنی بیوی واپس لے لے، یا اس کو طلاق دے کر فارغ کردے۔ اس صورت میں عدّت کے بعد دُوسرے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی هے۔واللہ اعلم بالصواب
(حیلہ ناجزۃ ) .