سوال: مغرب کی نماز کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے ؟
فتویٰ نمبر:188
الجواب حامداً ومصلیاً
مغرب کی نماز کا وقت عشاء تک ہوتا ہے ، البتہ عشاء کا وقت کب شروع ہوتا ہے اس میں کچھ اختلاف ہے ، حضراتِ صاحبین اور ائمہ ثلاثہ ؒ کے نزدیک شفقِ احمر (یعنی سورج کے غروب ہونے کے بعد آسمان پر جو سرخی ہوتی ہے)اس کے غائب ہونے کے بعد عشاء کا وقت شروع ہوتا ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عشاء کا وقت شفق ابیض (یعنی سرخی کے بعد آسمان پر شمالا جنوباًچوڑائی میں جو سفیدی پھیلتی ہے) اس کے غائب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور فتوی اسی پر ہے ۔ اس لئے اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے مغرب کی نماز جلدی ادانہیں کرسکا تووہ اپنے علاقہ کے اعتبار سے کسی معتبر نقشہ ٔنماز کو دیکھ کر عشاء کے وقت سے پہلے پہلے مغرب کی نماز پڑھ سکتاہے۔البتہ مغرب کی نماز میں تاخیر کے کر نے کے تین درجات ہیں :
ایک درجہ یہ ہے کہ اذان کے بعد دور کعت سے کم تاخیر ہو یہ بلاکراہت جائز ہے ۔
دوسرا یہ کہ دورکعتوں کے برابر یا اس سے زیادہ مگر ستاروں کے ظاہرہونے سے پہلے تک تأخیرہو یہ مباح مگر خلاف اولیٰ ہے ۔
اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اس قدرتاخیر کی جائے کہ ستارے ظاہر ہوجائیں ایسی تاخیر مکروہ تحریمی ہےالایہ کہ کوئی شرعی عذر ہو۔
==============
لما فی الفتاوى الهندية:(1 / 52)
ويستحب تعجيل المغرب في كل زمان كذا في الكافي
==============
حاشية ابن عابدين (1/ 369):
( يكره تنزيها ) أفاد أن المراد بالتعجيل أن لا يفصل بين الأذان والإقامة بغير جلسة أو سكتة على الخلاف وأن ما في القنية من استثناء التأخير القليل محمول على ما دون الركعتين وأن الزائد على القليل إلى اشتباك النجوم مكروه تنزيها وما بعده تحريما إلا بعذر كما مر قال في شرح المنية والذي اقتضته الأخبار كراهة التأخير إلى ظهور النجم وما قبله مسكوت عنه
==============
وفی فتح القدير لكمال بن الهمام:(1 / 429)
( و ) يستحب ( تعجيل المغرب ) لأن تأخيرها مكروه لما فيه من التشبه باليهودوقال عليه الصلاة والسلام { لا تزال أمتي بخير ما عجلوا المغرب وأخروا العشاء }…… ( قوله ويستحب تعجيل المغرب ) هو بأن لا يفصل بين الأذان والإقامة إلا بجلسة خفيفة أو سكتة على الخلاف الذي سيأتي : وتأخيرها لصلاة ركعتين مكروه.
==============
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب