سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
جس دور میں روس میں سوشل ازم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، مصر کے ایک ہونہار اور نہایت قابل نوجوان نے ماسکو میں جا کر فزکس میں اعلی تعلیم حاصل کی. اس کو اللہ نے ایسی عجیب و غریب صلاحیت عطا کی تھی کہ اپنی عمر سے بہت آگے پرواز کر رہا تھا. اس کا میدان تو فزکس تھا لیکن مذہب، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ میں بھی اعلا درک حاصل کیا اور مستشرقین کی سطح پر قلم اٹھایا لیکن چونکہ مذہب اور تاریخ کی مادی تعبیر پر ایمان رکھتا تھا اس لیے بد ترین الحاد کا پرچارک بنا اور جس طرح برٹرینڈ رسل نے “میں عیسائی کیوں نہیں؟ ” تحریر کی، اس نے بھی ایک مختصر رسالہ “لما ذا انا الملحد ؟ ” (میں کیوں ملحد ہوں ) لکھا. صرف بتیس سال کی عمر تھی کہ ایک دن اس کی لاش بحر متوسط کے نیلگوں پانیوں پر تیرتی ہوئی ملی اور اس کی شرٹ سے کاغذ کا ایک پرزہ نکلا جس پر لکھا تھا : میرے نزدیک زندگی کی کوئی معنویت باقی نہیں، اس لیے میں اس سے خلاصی حاصل کر رہا ہوں. . . اس نوجوان کا نام اسماعیل ادھم تھا جس کا کام اور مقالات اس کی موت کے بعد پس منظر میں چلے گئے اور کافی عرصے بعد ڈاکٹر احمد ابراہیم الہواری نے انہیں جمع و تدوین کر کے شائع کیا.
اللہ نے یہ دنیا آزمائش اور مصیبت کا گھر بنایا ہے. مولانا آزاد کے بقول اس گلستان نما خزاں آباد میں زلال صافی کا کوئی جام ایسا نہیں بھرا گیا کہ گرد کدورت اپنی تہ میں نہ رکھتا ہو، یہاں بادۂ کامرانی کے ساتھ خمار ناکامی لگا رہا اور خندۂ بہار کے پیچھے گریۂ خزاں کا شیون برپا ہوا. یہاں اپنے پرائے اور رام وحشی بن جاتے ہیں. جنہیں احسانات سے نہال کیا ہوتا ہے، وہ کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں. ان مایوسیوں، شکستگیوں اور نیمۂ عمر کے ٹھوکروں کی پامالیوں کے نذر ہونے پر انسانی رد عمل دو قسم کا ہو سکتا ہے : اگر تو دل کی تربیت مذہب پر استوار ہوئی ہے تو انسان کسی نا دیدہ طاقت کی طرف دوڑ پڑتا ہے، اس کے آگے اپنی بے چارگی کا رونا روتا ہے، سب سہاروں سے اپنے آپ کو بے سہارا سمجھ کر جمال لا یزال کی شیفتگی میں ڈوب کر خنجر تسلیم کا کشتہ بن جاتا ہے. جب آرزو کے خون سے مطلع دل احمریں ہو جاتا ہے تو اس کے عقب سے خورشید قرب کی ضو فشانیاں نمودار ہوتی ہیں. یہاں انسان اطمینان اور سکون کے نا پیدا کنار سمندر میں ڈوب جاتا ہے اور زبان حال سے پکار اٹھتا ہے :
مفلسانیم آمدہ در کوئے تو
شیئا للہ از جمال روئے تو
دست بکشا جانب زنبیل ما
آفریں بر دست و بر بازوئے تو
یہی وجہ ہے کہ اللہ کے انبیا اور ان کے بعد اس کے شکستہ دل اولیا سب سے زیادہ مصیبت زدہ انسان ہونے کے باوجود کائنات کے سب سے زیادہ مطمئن اور اندر سے خوش انسان ہوتے ہیں. امام شاہ ولی اللہ دھلوی کا شعر ہے :
دلے دارم جواہر پارۂ عشق ست تحویلش
کہ دارد زیر گردوں میر سامانے کہ من دارم
(میں ایک ایسا دل رکھتا ہوں کہ عشق کا جواہر پارہ اس کی تحویل میں ہے اور آسمان کی چھت کے نیچے کوئی بادشاہ اگر کسی متاع کا مالک ہو سکتا ہے تو وہ میرے پاس ہے. )
اس کے مقابلے میں اگر قلب و شعور کی اٹھان مذہبی نہیں تو مصائب کے مقابلے میں اسماعیل ادھم جیسے عبقری دماغ کے انسان کے لیے زندگی کے معمے کا کوئی حل نہیں. ایک وقت آ کر جب اس کا صبر جواب دے گا تو زندگی کو ختم کر ڈالنا اس کے نزدیک واحد آپشن ہے. اللہ کو پائے بغیر یہ جتنے ملحدین لوگ ہمیں ہنستے ہو ہا کرتے نظر آتے ہیں، یہ حقیقت میں کاغذی خوشی میں جینے والے لوگ ہیں جب کہ ان کا اندر حقیقی اطمینان کی تلاش میں ہوتا ہے. یہ اطمینان انسان گناہ اور عیش پرستی کی زندگی میں تلاش کرتا ہے لیکن وہاں سوائے اندھیروں کے کچھ نہیں.