احقر نے آٹھ سال زمانہ طالب علمی کے جامعہ اشرفیہ میں گذارے پھر ١٩٧١ء سے ١٩٩٠ء تک تقریبا بیس سال حضرت مولانا محمد عبید اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تحت جامعہ اشرفیہ کے استاذ کے طور پر خدمت کی توفیق ہوئی مگر انہوں نے نہ کبھی مجھے ملازم ہونے کا احساس ہونے دیا اور نہ ہی کبھی لہجہ بدل کر بات کی. ٢٨ سال میں مجھ جیسے نوجوان سے کیا کچھ غلطیاں نہ ہوئی ہوں گی؟ مگر ان کا علم اور حلم میری سب غلطیوں سے درگذر کرتا رہا اور پیہم شفقت و عنایت کے ذریعے وہ میری تربیت فرماتے رہے.
البتہ واضح رہے کہ حضرت کے اہتمام کا یہ طریقہ کار جو “ضابطوں” کے بجائے رابطوں پر مبنی تھا اسی وقت کار آمد ہوتا ہے جب رابطہ مع اللہ، رابطہ مع الاکابر، مرابطہ مشارطہ، مراقبہ اور محاسبہ کے صوفیاء والے خصائل منتظمین میں بھی ہوں اور اساتذہ و کارکنان میں بھی نیز زھد و قناعت کی زندگی ہو، اور افراد کی تعداد بہت زیادہ نہ ہو
لیکن اگر ادارہ میں بھانت بھانت کے لوگ جمع ہوتے چلے جائیں افراد کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے، زھد و قناعت کے بجائے تنخواہ، سالانہ ترقی، گریڈ مطمح نظر ہوجائیں اور وقف کی بھاری رقوم ادارہ میں کام کرنے والوں پر خرچ ہونے لگیں تو پھر ضابطہ سازی بلکہ ضابطوں کے نظام و اہتمام کے بغیر چارہ نہیں رہتا اور اس کے بغیر وقف اموال اور وقف ادارہ کی حفاظت بھی ممکن نہیں پھر یہ ضابطے ضروری ہوجاتے ہیں بشرطیکہ وہ سہولت پر مبنی ہوں اور انصاف کے ساتھ سب پر ان کا اطلاق کیا جائے. البتہ کسی ادارہ میں رابطہ اور ضابطہ کو جمع کرکے انتظامی امور انجام دئے جائیں تو شاید وہ زیادہ بہتر اور مثالی نظام ہو.
اور اس کی افسوسناک صورت وہ ہے جو اب بعض مدارس میں شروع ہوئی ہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں “قوت لایموت” کے درجے میں بہت کم رکھی جاتی ہیں اور ان پر ضابطوں کے نام پر وہ پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو بھاری تنخواہیں دینے والا ادارہ اپنے ملازمین پر عائد کرتا ہے.
(مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب دامت برکاتہم … استاد الحدیث جامعہ دارالعلوم کراچی)