صحبت کی اہمیت

ڈاکٹر محمود احمد غازی نے محاضرات سیرت میں کسی جگہ کہا ہے کہ اگر کہیں بندر کا تماشا لگے تو کافی لوگ دوڑتے ہوئے جائیں گے. کچھ عرصے بعد پھر لگے تو پہلے کے مقابلے میں مجمع اس احساس سے کم ہو جائے گا کہ یہ چیز تو پہلے دیکھی ہے حتی کہ ایک وقت آئے گا کسی کو اس سے دلچسپی ہی نہیں رہے گی. اس مثال پر قیاس کرتے ہوئے انھوں نے کہا ہے کہ مغرب میں وقتا فوقتا پیغمبر اسلام کے کارٹون شائع کر کے وہ لوگ مسلمان کے نبی پاک ﷺ کی ذات کے بارے میں حساسیت کا اندازہ لگاتے رہتے ہیں. وقفے وقفے سے ایسا کرنے سے ایک وقت آئے گا کہ انہیں اس چیز کی پرواہ ہی نہیں رہے گی اور روٹین کی بات معلوم ہو گی.
یہی معاملہ ہر بری بات اور گناہ کا ہوتا ہے کہ انسانی دل اس کا بار بار ارتکاب کر کے مردہ ہوتا چلا جاتا ہے اور گناہ کا احساس مٹتا چلا جاتا ہے. دینی مدارس کے پڑھے ہوئے کئی حضرات (اور یہ فیس بک اور یونیورسٹی ماحول کا کافی عرصے کا مشاہدہ ہے ) شروع میں مختلف دینی امور کے بارے میں حساس ہوتے ہیں لیکن شاید وسیع الظرف ہونے کی خاطر ان کی دوستیاں اور تعلقات ایسے لوگوں کے ساتھ استوار ہونا شروع ہوتے ہیں جن کے افکار جادۂ مستقیم سے ہٹے ہوتے ہیں. اس تعامل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ان کے سامنے بعض اوقات صریح خلاف دین کام بھی ہو جائیں ان پر آواز نہ اٹھانا وہ رواداری کا تقاضا سمجھتے ہیں. یہ اصل میں مزاج کی رواداری نہیں ہوتی، دل کا بگاڑ ہوتا ہے جو نیکی کے ماحول، صالح شخصیات اور اصلاح و تذکیر کے لٹریچر کے مطالعے سے دور رہنے سے پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے. صحبت کی اہمیت ایک ایسی چیز ہے جو اسلام سے پہلے کی جاہلیت کی شاعری میں بھی زیر بحث آئی ہے اور مسلم روایت نے اس کی غیر منقطع طور پر نہایت اعلی مثال قائم کی ہے. صوفیہ کے نظام تربیت سے اس چیز کا اندازہ بہت بہتر طور پر ہوتا ہے. انسانی سماج سے تعامل بہت ضروری ہے لیکن یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ کہیں یہ چیز دینی نقصان کی قیمت پر تو نہیں ہے! مولانا الیاس ر ح جب تبلیغ جب جاتے تو واپسی پر کچھ دن اعتکاف کرتے جس میں ذکر و فکر کی کثرت شامل ہوتی کہ اختلاط سے دل کی حالت میں جو تغیر پیدا ہوا ہے، اس کی تلافی کی جائے.

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں