السلام علیکم
ایک مسئلے کا جواب درکارہے
زید پر پچھلے سال حج فرض ہوا مگر اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے حج کرنے نا جاسکا..لیکن اس کا ارادہ پورا تھا کہ اگلے سال حج کرلوں گا. مگر اس درمیان اس کا انتقال ہوگیا. کیا اس پر کوئ وعید ہے؟ اور کیا اب اس کی طرف سے حج کی ادائیگی ہوسکتی ہے؟
فتویٰ نمبر:175
الجواب حامداًومصلیاً
حج فرض ہونے کے بعد اس میں بلاعذر تاخیر نہیں کرنی چاہئے بلکہ جس قدر جلد ممکن ہو ادا کرنا چاہئے لیکن اتنی تاخیر کرنا کہ بندہ فوت ہوجائے تو اس سے وہ گناہ گار ہوگا۔اور اگر اس تاخیر کا واقعۃ کوئی شرعی عذر تھا تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اس پرپکڑ نہ ہو تاہم اب یہ تفصیل ہے کہ مرحوم نےاگروصیت کی ہے تو ورثاء پر ایک تہائی ترکہ سے حج بدل کراناضروری ہےاور اگر وصیت نہیں کی تو ورثاء کو اختیار ہے کہ مرحوم کی طرف سےحج بدل کرائیں یا نہ کروائیں لیکن اگر ان میں استطاعت ہے تو حج بدل کروادینا چاہئے تاکہ مرحوم سے اس کا عذاب ختم ہوجائے۔
الدر المختار – (2 / 457)
ولذا أجمعوا أنه لو تراخى كان أداء وإن أثم بموته قبله وقالوا لو لم يحج حتى أتلف ماله وسعه أن يستقرض ويحج ولو غير قادر على وفائه ويرجى أن لا يؤاخذه الله بذلك، أي لو ناويا وفاء إذا قدر كما قيده في الظهيرية.
==============
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (2 / 457)
(قوله وإن أثم بموته قبله) أي بالإجماع كما في الزيلعي، أما على قولهما فظاهر، وأما على قول محمد فإنه وإن لم يأثم بالتأخير عنده لكن بشرط الأداء قبل الموت فإذا مات قبله ظهر أنه آثم قيل من السنة الأولى وقيل من الأخيرة من سنة رأى في نفسه الضعف، وقيل: يأثم في الجملة غير محكوم بمعين بل علمه إلى الله تعالى كما في الفتح
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی